قرآن حق ہے اور حق کے ساتھ اترا ہے:
وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَؕ
اور ہم نے قرآن کو حق ہی کے ساتھ اتارا ہے اور حق ہی کے ساتھ اترا ہے۔ ( بنی اسرائیل: 6)
یعنی حقائق کا مجموعہ ہے ، ایک ایسی کتاب ہے جو انسان کو حق پسند بنا دیتی ہے۔ حق کی معرفت ، حق کے ساتھ جینا، حق کے ساتھ مرنا، حق کے ساتھ معاملات و معاشرت اور حق کے ساتھ عبادات کا ذوق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کتابِ حق کی برکت سے ہماری زندگی حق کے ساتھ جڑ کر حقائق کا مجموعہ بن جاتی ہے یعنی ہر حرکت حق ، ہر قدم حق، ہر سانس حق، ہر نگاہ حق، ہر لفظ حق، ہر سوچ حق ، ہر لقمہ حق، ہر رشتہ حق ، ہر تعلق حق اور ہر جذبہ حق ہو جاتا ہے۔ انسان روحانی طور پر ایک نئی دنیا میں قدم رکھ دیتا ہے، جو حقائق کی دنیا کہلاتی ہے۔ مصنوعی، بناوٹ اور دھوکہ دہی والی دنیا اجنبی اور ناپسندیدہ بن جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس حق تک کیسے پہنچا جائے؟ کیسے اس کی گہرائی میں اترا جائے؟ کیسے دھوکے اور فریب ، ظاہری اور سطحی دنیا سے نکل کر حقیقت کا طالب بنا جائے؟ کیسے حق کی معرفت حاصل ہو اور خوب حاصل ہو؟ کیونکہ جتنی حق کی معرفت ہوگی ، اتنی ہدایت بڑھے گی اور جتنی ہدایت بڑھتی ہے اتنا عمل اور عمل میں اخلاص بڑھتا ہے۔
تو حق تک پہنچنے کےلیے جو راستہ ہے ، اُسے "علم " کہتے ہیں۔ جب انسان علم کے راستے پر قدم رکھتا ہے تو وہ ضرور حق تک پہنچ جاتا ہے بشرطیکہ وہ علم ، علم ہو۔ یعنی ایسا علم جو "دیا گیا ہو"۔ جب ہم کتاب یا کسی اور چیز سے خود علم لیتے ہیں تو کبھی وہ حق تک پہنچا دیتا ہے اور کبھی نہیں۔ لیکن جب ہم "رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا" کا سوال کر کے اللہ تعالی سے علم لیتے ہیں تو وہ ضرور ہمارے سینوں میں حق کی روشنی بھرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن میں علم دیے جانے کی بات کی گئی۔ جیسے:
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ
اور کہا اُن لوگوں نے جنہیں علم دیا گیا ۔
وَّ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ
اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا۔
وَ یَرَى الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ
اور خوب سمجھتے ہیں وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا۔
فی صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ
ان لوگوں کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا۔
وَ اِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ
اور بے شک وہ (یعقوب علیہ السلام) ہمارے سکھائے ہوئے علم کے حامل تھے۔
وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا
اور ہم نے اُس (خضر) کو خاص اپنی طرف سے ایک علم سکھایا تھا۔
اس کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں جو بتاتی ہیں کہ علم اللہ تعالی سے ملتا ہے اور ایسے علم میں پھیلاؤ کے بجائے گہرائی ، کثرت کے بجائے فہم ، تکبر کے بجائے عاجزی ، سطحیت کے بجائے حکمت اور لفظوں کے بجائے کردار ہوتا ہے۔ یہ علم انسان کو ضرور حق تک لے جاتا ہے اور حق کی سب سے اعلی صورت قرآن کریم ہے۔ اس لیے جیسے قرآن کے بارے میں بتایا کہ وہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے، ایسے ہی یہ بھی بتایا کہ وہ علم کے ساتھ نازل ہوا ہے:
لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖۚ
اللہ نے جو کچھ (اے نبی !) تم پر نازل کیا ہے، اُس کے بارے میں وہ خود گواہی دیتا ہے کہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل کیا ہے۔ (مائدہ: 166)
قرآن کے ساتھ تعلق سے پہلے "رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا" کی طرف توجہ نہیں تھی۔ اکثر اسکول کی دیواروں پر یہ جملہ پڑھا کرتے تھے لیکن دل علم سے نا آشنا تھا۔ چند کتابیں پڑھ لیں تو سمجھے کہ عالم بن گئے ۔ لیکن جب قرآن زندگی میں آیا، صبح شام گزرنے لگیں تو یہ احساس پیدا ہوا کہ ایک تو علم انسانوں کے پاس نہیں ہے، اللہ کے پاس ہے، جو انسانوں کے پاس نظر آتا ہے وہ بھی اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس لیے اللہ سے سب سے زیادہ جو نعمت مانگی جائے وہ علم ہونا چاہیے، دوسرا یہ کہ جس علم کے لوگ دعویدار ہیں، وہ صرف ایک اوپری تہہ ہے یعنی ظاہری اور کسبی علم، اصل تو علم لدنی یا وہبی یا ربانی ہے جو حق کی معرفت دیتا ہے، ہدایت کے راستے دکھاتا ہے، رب محبت کے قرب کا ذریعہ بنتا ہے اور فطرت کے راز سمجھاتا ہے ۔ اس کا حصول کسی ولی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر انسان کو مل سکتا ہے اگر وہ طلب دکھائے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں ، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے ، رہروِ منزل ہی نہیں
میرے اندر علم کا ذوق مر چکا تھا، نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اللہ سے علم کا سوال کرتا تھا۔ صرف موبائل چلانا اور ویڈیو دیکھنا میرا کام ہوتا تھا۔ درس نظامی سے فارغ ہونے کے بعد دو سالوں تک میری یہی ترتیب رہی کہ مدرسے میں اسباق پڑھانے کے بعد فورا فیس بک یا یوٹیوب کھول لیتا اور گھنٹوں ذہنی آوارہ گردی کرتا۔ لیکن جب قرآن کے ساتھ بیٹھنے کی توفیق ہوئی تو اس نے علم کا پیاسا بنا دیا ۔ عقل کو علم کی بھوک دی اور دل کو ہدایت کی، قرآن نے بتایا کہ علم کی تلاش میں نکلو تاکہ تمہارا یقین بڑھے اور ہدایت کی جستجو پیدا کرو تاکہ تمہارا عمل بڑھے۔
ایک دن سورت سبا کی تلاوت کر رہا تھا کہ اس آیت پر جا کر رک گیا:
وَ یَرَى الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّۙ وَ یَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ(6)
اور جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے ، وہ خوب سمجھتے ہیں کہ (اے نبی !) تم پر تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے، اور وہ عزت والے ، حمد کے مستحق ذات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (سورت سبا: 6)
اس آیت نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ قرآن حق ہے اور عزت والے رب کا راستہ دکھاتا ہے۔ اب جس کے پاس جتنا علم ہوگا، وہ اتنا ہی زیادہ حق اور ہدایت کو پہنچے گا ، اس لیے فرمایا:
بَل هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ
بلکہ یہ قرآن روشن نشانیاں ہے اُن لوگوں کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا۔ (سورہ عنکبوت: 49)
اب جا کر یہ بات سمجھ آئی کہ جب تک جسم سے روح نہیں نکلتی ہے، مسلسل مانگتے رہنا ہے:
رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا
اے میرے رب! میرے علم میں زیادتی فرما۔
اس دعا کے علاوہ قرآن میں کوئی اور دعا نہیں جس میں زیادتی کا سوال کیا گیا ہو۔ صرف علم کی زیادتی مانگی گئی کیونکہ علم جب زیادہ ہوتا ہو تو دل میں اتنا ہی زیادہ حق بھی روشن ہوتا ہے۔
تبصرہ لکھیے