یہ جو محبت کا رشتہ ہے نا، بڑا عجیب ہے
وہ دور دیکھتے ہوئے بولی
جس سے محبت ہو ، اس کے مرنے کے بعد بھی اس سےدور نہیں ہونے دیتا بلکہ اور قریب لے آتا ہے. پہلے سے بھی زیادہ.
میں نے آنکھیں پھاڑ کر بے یقینی سے اسے دیکھا
کیا تمہیں کبھی محبت کے محسوسات ہوئے..
سوال اچانک تھا, میں گڑ بڑا گیا
"معلوم نہیں "
میں نے عینک کے گدلے شیشوں کو ہونٹوں کے قریب کرتے ہوئے ایک بار سانس اندر کو کھینچا اور ایک بار باہر کو, اچھی سی بھاپ بنا کے اسے غور سے دیکھا پھر پرانے دیسی طریقے سے قمیض کے دامن کی مدد سے شیشے صاف کرنے کی کوشش میں مگن ہو گیا. اس سوال سے فرار کا یہی آسان حل سوجھا. اس دوران مجھے احساس ہوا بات تو اس کی ٹھیک تھی محبت کے محسوسات اس دنیا کے حسین ترین محسوسات ہیں. تب ہی مجھے یاد آیا.ایک سے نہیں بلکہ یہاں تو محبتوں کی ایک پوری سیریز ہے.
محبت سے یاد آیا مفتی جی کی طرح مجھے بھی محبت کے عمل سے محبت تھی. چھوٹی موٹی محبتیں ہمیشہ ہی مجھے سرسبز رکھتیں.
میں تو مفتی جی کی محبت میں بھی مبتلا ہوں. ان سے محبت کا انداز ہی الگ تھا.
میں نے دل میں اعتراف کیا اور کہا
ہاں !مفتی جی سے محبت ہوئی مجھے
مفتی جی کون
اس نے پوچھا
اپنے ادیب ممتاز مفتی جی
سچ؟
ہاں سچ!
وہ سب چھوڑ چھاڑ کر دلچسپی سے مجھے دیکھنے لگی.
"تم نے ان کو دل کب دیا"
جب میں نے پہلی بار ان کی" لبیک" پڑھی
اس میں ایسا کیا تھا؟
اس کے لفظ لفظ میں محبت تھی. محبت کا شیرہ ٹپکتا محسوس ہوتا بلکہ جا بجا بہہ نکلتا.
انہوں نے اس روپورتاژ میں بہت سے نئے تجربات کیے. انسانی نفسیات کے تضاد کو ظاہر کیا. ایک دم جدا تصورات سےآشنا کیا. رکھ رکھاو کی روایت توڑی اور جو جی میں آیا سرعام کہہ ڈالا.
اس ادیب سے پہلے کبھی کسی نے خدا کے گھر کو کالا کوٹھا کہنے کی ہمت نہیں کی. انہوں نے بڑی معصومیت اور محبت سے بے تکلفی سے اپنے جذبات کا ااظہار کیا
"ہاں اس پر وہ کچھ حلقوں کی طرف سے مطعون بھی ٹھہرے ."اس نے افسوس سے کہا
میں نے کہا ,مجھےان کی تحریر میں
عجب سی بے تکلفی محسوس ہوئی. عجب سا اپنا پن
کہتے ہیں
اس' کو انگلی لگا کر ساتھ چلتا ہوں .
اس سے پہلےخدا کے متعلق یہ بے باک انداز کب تھا؟
محبت بڑی گستاخ ہوتی ہے, بیک وقت با ادب مگر بڑی گستاخ
دیکھتے نہیں ہو
اقبال کہتے ہیں
بڑا بے ادب ہوں میں کیا چاہتا ہوں
ہاں مفتی جی نے خود کو ایک ایسے انسان کے طور پر متعارف کرایا جو اندر سے میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
وہ کہتے ہیں, میں محبت میں چپ کر کے نہیں بیٹھ سکتا .
میں گلے میں ڈھول ڈال کر دھمال ڈالنے والوں میں سے ہوں .خالصتا برصغیر کا رہنے والا جذباتی عقیدتمند...
ان کا سٹائل ہی الگ ہے مفتی جی مجھے بہت اچھے لگتے ہیں
مجھے بھی وہ بولی
تمہیں کیوں
وہ بہت عاجز کردار ہے
وہ بہت سادہ ہیں
وہ بہت محبت کرنے والے ہیں
وہ باغی بھی ہیں روایت سے ہٹے ہوئے
وہ بہت زیرک ہیں
نفسیات کی گرہیں کھولتے ہیں . کچھ کا کچھ نکال لیتے ہیں.
وہ بہت سادہ نثر لکھتے ہیں جو دل کو چھو کر بھنگڑا ڈالنے کی کیفیت میں لے جاتی ہے.وہ بندے کو اپنے ساتھ لے چلتے ہیں .وہ بہت اخلاص والے ہیں .وہ متلاشی ہیں. طالب ہیں. وہ خود کو ناپاک مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ لوور سٹاف سے بہت ہوم لی فیل کرتے ہیں. افسروں سے دوستی کے باوجود چپڑاسیوں کی محفل کو پسند کرتے ہیں. اورضرورت مندوں کے کام آتے ہیں اور کسی بھی وقت کسی کی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ لفظ سے دل کے تار چھیڑتے ہیں اور وہ اپنی معشوقہ کو بھگا لے جاتے ہیں مجھے وہ بہت اچھے لگتے ہیں وہ ایک فطری مگر غیر روایتی کردار ہیں.
تم ان سے کبھی نہیں ملے تو ان کی محبت میں کیسے مبتلا ہوئے
اس نے ذہین سا سوال داغا
میں گہری سوچ میں گم ہو گیا
کسی کو اپنا بننے میں کتنی دیر لگتی ہے یہ تو کچھ لمحوں کی فریکوینسی کی بات ہے وہ مجھے میرے جیسے لگتے ہیں.
بس یہی محبت ہے
میں نے خود کوٹٹولا .
اتنے میں وہ عکسی مفتی کی "مہا اوکھا مفتی "اٹھا لائی.
"تم نے ان کی ساری کتابیں پڑھیں کیا؟"
میں نے خجالت سے کہا,
"نہیں, ساری تو نہیں
"یہ کیسی چاہت ہے کہ محبوب ادیب ہواور آپ اس کی نگارشات کی بارشوں میں نہ نہاؤ
میں نے جواب دیا ,
"میں نے ان کی کتاب لبیک پڑھی, پھر افسانوں کی ایک کتاب" چپ"
اور الکھ نگری " بس یہی"
"اچھا! علی پور کا ایلی' بھی نہیں پڑھی؟" اس نے تعجب سے پوچھا.
میرے پاس ان کی ساری کتابوں کے مجموعے ہیں
تم چاہو تو پڑھ لینا لیکن میں اپنی کتاب گھر جانے کے لیے نہیں دوں گی
تم بہت اچھا کرو گی
تمہیں یہ جان کر حیرت ہو گی کہ میرے پاس میرے محبوب ادیب کی ایک بھی کتاب نہیں حالانکہ ساری کتابیں میں نے اپنی جیب سے خریدیں، دراصل ہمارے ہاں کچھ بھی واپس کرنے کا رواج نہیں, ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو ملے لے لو, جو آ جائے اسے جانے نہ دو خواہ کم بخت دو روپے کا ٹوٹا بھا نڈا ہو
وہ میری اس گلابی گری پر مسکرا دی
ہاں یہی وجہ ہے اب اصول بنایا ہے کہ کتاب پڑھنی ہے تو بصد شوق پڑھیے مگر ہماری چاردیواری کے اندر ہماری چھت کے نیچے، یا دالان میں چاہے لان میں باغیچے میں رسوئی میں, بیٹھک میں, مہمان خانے میں، میں ہر بار یہ اصول بناتا ہوں ہر بار توڑ دیتا ہوں
میرے میں دینے والا جن مجھ سے میرے اصولوں سے بڑا ہے
میں خالی ہاتھ ہوں
وہ میرے ہاتھوں کی لکیروں پر میرے دل کی لائین کا مطالعہ کرنے لگی
"کتنا ٹوٹا ہوا دل ہے تمہارا"
"زنجیر سے بھرا "
میں نے جلدی سے مٹھی بند کر لی اور شرارت سے کہا
"یہ سنہری زنجیر ہے باندھ لیتی ہے "
"جو بھی آتا ہے اس سے لپٹ جاتی ہے "
"جانے دو"
اس نے جاندار قہقہہ لگایا پھر سلسلہ جوڑا
"مفتی جی کے معاشقوں کے بارے کیا کہتے ہو"
بس اسی قدر جس قدر پروفیسر احسان اکبر نے کہا
"انہیں ہر عورت سے, ہر لحاظ کے بغیر عشق ہے, عورت کے تصور تک سے انہیں محبت ہے, مگر دراصل محبت کرنے کے عمل سےمحبت ہے شاید محبوبہ سے نہیں"
تبصرہ لکھیے