ہوم << چہروں کی زباں - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

چہروں کی زباں - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ابوعبداللہ الحمیدی ے خود اپنے لیے کہا :
لِقاء النَّاس ليسَ يُفيد شيئًا
سِِوى الهذيان مِنْ قيل وقال
فأقلل مِنْ لقاء النَّاس إلّا
لأخذ العلم أو لصَلاح حال

لوگوں کے ساتھ میل جول کوئی فائدہ نہیں دیتا،سوائے بے کار اور فضول بحث مباحثے کے۔لہذا لوگوں سے ملنا کم کردو ،سوائے تحصیلِ علم یا اصلاح احوال کے لیے۔

میں نے طبعاً اور ارادۃً اس حکیمانہ نصیحت پر خوب عمل کیا۔
البتہ زمانے نے 67 سالوں کی راہ نوردی اور لقاء الناس۔۔۔لوگوں سے میل جول۔۔۔اور قیل وقال۔۔بات چیت۔۔۔کے جبری مواقع پر شخصیات کے بجائے حتی الوسع چہروں کو دیکھنے ،پڑھنے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کی ۔۔۔باوجود اس کے کہ چہرہ شناسی اور مردم شناسی دو اہم اور خصوصی مَلَکے( صلاحیتیں) ہیں۔جن سے کم از کم میں تو بالکل محروم اور تہی دامن ہوں۔

مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چہرہ انسان کے اندر،اس کے دل،دماغ،خیالات،تأثرات و احساسات اور جذبات کا آئینہ ہے، اور چہرہ زبانِ حال کا واضح مظہر بنتا ہے۔ چہرے ۔۔۔سے وہی کچھ منعکس ہوتا ہے،جو اندر پَل بڑھ اور پنپ رہا ہوتا ہے۔ کوئی لاکھ چاہے، اندر کے جذبات،احساسات اور تأثرات چھپا نہیں پاتا،اور چہرے کی گرفت اور چغلی سے بچ نہیں پاتا۔

چہرے ۔۔۔سے مراد۔۔ ساخت اور رنگ،روپ نہیں،اس کی متنوع کیفیات ہیں ۔
انسان کی شخصیت میں اسی لیے چہرے کو خصوصی اور کلیدی مقام و اہمیت حاصل ہے۔
چہرہ ۔۔۔خوب رو ہو،اور دل کی خوبصورت کیفیات ،پاکیزہ خیالات اور مسرتوں سے سرشاری کا غماز ہو،تب ہی صاحب چہرہ۔۔وجیہہ۔۔کہلانے کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔
دنیا کی زندگی میں چہرے پر ملمّع سازی کا محدود امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ تاڑنے والے، قیامت کی نظر رکھنے والے ،چہرہ شناس ،چہروں سے بہت کچھ جان لیتے ہیں،
مگر قیامت کے روز اور حشر کے میدان میں اور حساب و کتاب کے لمحوں میں اور نامۂ اعمال کی تقسیم اور جزا و سزا کے فیصلہ کن مرحلے پر "چہرے " سب کچھ آشکار کر رہے ہوں گے۔

کوئی چہرے۔۔ضاحکۃ۔۔ہوں گے۔ہنستے ،کھلکھلاتے۔۔مسکراتے،اِتراتے،اِٹھلاتے۔اپنی کامیابی پر شاداں و فرحاں۔
کوئی چہرے۔۔مُسفِرۃ۔۔کہلائیں گے۔۔ روشن و تابناک۔۔۔دل۔کے سرور اور ابدی راحت واطمینان کے مظہر
کوئی چہرے۔۔۔مُستَبشِرۃ۔۔ قرار پائیں گے۔۔فوز و فلاح کی بشارتوں سے ہمکنار ہوتے۔ابدی راحتوں پر خوشیاں مناتے ۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ۔۔۔ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ
وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ

کچھ چہروں پر دھول اَٹی ہوگی۔اپنے گناہوں اور معصیتوں کی۔
کچھ مشید چہرے۔۔

یَّوۡمَ تَبۡیَضُّ وُجُوۡہٌ

پہچانے جانے والے دن کچھ چہرے۔۔سفید۔روشن اور چمکتے دمکتے ہوں گے۔۔پُر امید۔۔کامیاب و کامران ۔۔

وَّ تَسۡوَدُّ وُجُوۡہ

اور کچھ چہرے ۔۔سیاہ۔۔کالے بھجنگ۔۔ناامید،خائب و خاسر،ناکام و نا مراد

انہیں۔۔وجوھھم مسودۃ۔۔۔۔سیاہ پڑتے چہرے بھی کہاگیا

ترھقہاغبرۃ

ابدی ناکامی ،ذلت و رسوائی ،ہمیشہ کی سزا اور برے انجام کی پرچھائیوں،کیفیتوں کے غبار سے آلودہ اور مظہر

کچھ چہرے۔۔۔ناضِرۃ۔۔ تروتازہ
کچھ چہرے۔۔۔الی ربھا ناظرۃ۔۔
ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوئے۔۔شکرگزاری،ممنونیت اور محبت کے ساتھ۔

کچھ چہرے۔۔
وُجُوْهٌ یَّوْمَئذٍ نَّاعِمَةٌ

کہلائیں گے۔۔نازونعم کے پروردہ۔۔رب کی نعمتوں اور کرامتوں کے ظاہر اثرات لیے ہوئے۔
دنیا میں اطاعت و وفائے رب کی اپنی کوششوں پر راضی۔۔آخرت کی نعمتوں اور تکریم و تحسین کے مظاہر دیکھ کر۔

چہروں کی روشنی یا نحوست انسان کے خود پر اور اردگرد پر اثر انداز ہوکر اس کی شناخت کرواتی ہے۔
الٰہی اصول ہے کہ بزبان قال سے کچھ نہ کہنے والوں کی زبان حال ان کے چہرے بنتے ہیں اور چہرہ شناس ان کے چہروں کی مختلف علامتوں سے انہیں پہچان لیتے ہیں۔
تَعرِفُہم بسِیماھُم

چہرے کی یہ مختلف علامتیں یقیناً نفس کی بھی
مختلف کیفیات کی مظہر ہوتی ہیں۔
نفس امّارہ ہو،یا نفس لوّامہ ،نفس مطمئنہ ہو یا نفس قانعہ و شاکرہ،نفس طاغیہ ہو یا نفس باغیہ۔
اندر کی یہ سب کیفیات سعید یا شقی چہروں میں ڈھل کر واضح ہوجاتی ہیں

ادب میں کتابی چہرہ ،ملیح چہرہ،حسین چہرہ،جمیل چہرہ، منور چہرہ ،شفیق چہرہ،جاذب و پرکشش چہرہ،منحوس چہرہ اور ۔۔سب ہی کیفیتوں کے مظہر چہروں کا ذکر مستعمل ہے۔

کچھ خاص کرداروں کے چہرے بھی زبان زدِ عام رہتے ہیں۔اور دیکھنے والے کوخاص قسم کا فیض پہنچاتے ہیں۔
والدین۔۔۔ کے چہروں کی زیارت نفسیاتی سکون اور قلب کی راحت اور روح کی سرشاری کے ساتھ اجر و ثواب کا باعث بھی بنتی ہے۔

ماں کا چہرہ۔۔۔فطرت سلیمہ کا نمونہ،شفقت کی معراج ۔
باپ کا چہرہ ۔۔۔مستقبل کی خود اعتماد اور کامیاب شخصیت کا پہلا نقش و درس۔
بہن بھائیوں کے چہرے۔۔ محبت ،الفت اور رشتوں کے بندھن کے پاس ورڈز
استاد کا چہرہ ۔۔۔عملی زندگی کے قدموں کا زینہ ، علم شعور و آگہی کا گہنا۔
مرشد کا چہرہ۔۔ منازل سلوک و طریقت کا راہنما۔

اور انسانی چہروں میں
۔۔سب سے حسین،باکمال، اثر انگیز ،متأثر کن، حیران کن، چہرہ
جسے دیکھتے ہی چہرہ شناسوں کے دل زیر وزبر ہوجاتے،
جسے کے منور و معطر چہرے کی روشنی اور خوشبوؤں سے
۔۔۔ شریعت و طریقت کے راستے طے ہوتے،منزلیں متعین ہوتیں۔ اور
۔۔۔۔ دین و دنیا کی بڑی فوز و فلاح کی ضمانت ملتی،
۔۔۔جس چہرے کو دیکھنے کی آرزو ،امید،حسرت اور تڑپ میں پندرہ سو سالوں سے اربوں انسان شیدا و فریفتہ رہتے،رہے اور رہیں گے۔
۔۔۔جس کے حوض کے ایک جام کی تمنا میں۔۔چہرہ۔۔ بِن دیکھے محبت،عقیدت،جاں نثاری کا واحد مرکز و محور قرار پائے۔
۔۔۔جس چہرے اور وجود سے ہر صاحب ایماں شفاعت و سفارش کی امید باندھے۔۔

ہاں ۔۔وہی چہرہ۔۔
جس کے بارے سیدنا ابو طالب علیہ السلام گویا ہوئے
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَيٰ عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ

’’وہ گورے (مکھڑے والے ﷺ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘

علیہ وآلہ واصحابہ الصلوات والتسلیمات الی یوم الدین۔

سو صاحبو!
کتابیں بھی پڑھیے،
مگر کتابی چہرے تلاش کرکے ضرور پڑھیے اور ان چہروں کی روشنی اُچک کر اپنے مَن ،روح اور چہرے پر منعکس کیجیے۔۔!!

Comments

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment