ہوم << رسالۃ الغفران: عربی ادب کی ڈیوائن کامیڈی - ابوالحسین آزاد

رسالۃ الغفران: عربی ادب کی ڈیوائن کامیڈی - ابوالحسین آزاد

حلب کے ایک ادیب ابن القارح نے ابو العلاء مَعَرِّی کو خط لکھا، مَعَرِّی نے جواب لکھا تو عربی ادب کا منفرد ترین شاہکار تخلیق ہو گیا، اسی شاہکار کو ”رسالۃ الغفران“ کہا جاتا ہے۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں: دوسرے حصے میں تو ابن القارح کے خط کا لفظ بہ لفظ جواب دیا گیا ہے، پہلا حصہ ہی اصل شاہکار ہے۔ جس میں مَعَرِّی ابن القارح کو بتاتا ہے کہ آپ کا والا نامہ موصول ہوا، اس کی ابتدامیں آپ نے خدا کی جو حمد و ثنا کی ہےمجھے دکھائی دے رہا ہے کہ اُس کی برکت سے آپ فردوسِ اعلیٰ میں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ ابن القارح کو جنت، جہنم اور محشر کی سیرکراتا ہے۔

آغاز جنت سے ہوتا ہے جہاں ابن القارح ائمۂ لغت و ادب اصمعی، کسائی اور سیبویہ وغیرہ کے ساتھ جنت میں مجلس لگا کر بیٹھا ہوتا ہے،دورانِ گفت گو جاہلی شاعر اعشیٰ کی بات آتی ہے تو وہ آہ بھر کر کہتے ہیں کہ کاش اعشی نے اسلام قبول کر لیا ہوتا تو آج وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتا۔ ابن القارح اعشی کے اشعار پڑھتا ہوا مجلس سے اٹھتا ہے اور جنت کی سیر کو نکل پڑتا ہے۔ رستے میں اُسےایک خوب صورت جوان ملتا ہے اور بتاتا ہے کہ تم جس شخص کے اشعار گنگنا رہے ہو وہ میں ہوں۔ ”تم اعشیٰ ہو؟تمھاری آنکھیں ٹھیک ہو گئیں؟ تم جوان ہوگئے؟ تم جنت میں کیسے؟“
”میں نے پیغمبرؑ کی مدح لکھی تھی لیکن قریش نے مجھے اُن تک پہنچنے سے روک دیا، روزِ محشر مجھے فرشتے دوزخ میں گھسیٹ کر لے جانے لگے تو میں نے پیغمبرؑ کے سامنے اپنا وہی نعتیہ قصیدہ پیش کر کے سفارش چاہی، جس پر مجھے بخش دیا گیا۔“

آگے جا کر جنت میں اسے معلقات کے شاعر زہیر کا محل نظر آتا ہے، زہیر بتاتا ہے کہ چوں کہ وہ بعثت سے پہلے وفات پا گیا تھا اور وہ خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا تھا اس لیے اُس کی بخشش کر دی گئی ہے۔ ایک اور جاہلی شاعر عبید بتاتا ہے کہ اُس کا ایک شعر کافی مشہور ہوا تھا، اُسے جہنم میں ڈالا گیا لیکن چوں کہ اُس کا یہ شعر لوگوں کی زبان پر تھا چناں چہ وقت گزرنے کے ساتھ اُس کا عذاب کم ہوتا گیا حتی کہ ایک دن وہ جنت میں پہنچا دیا گیا۔ شعر یہ تھا:
من يسأل الناس يحرمه
وسائل الله لايخيب

(لوگو ں سے مانگنے والا محروم ہو جاتا ہے لیکن اللہ سے مانگنے والا محروم نہیں رہتا۔)
ایک اور جاہلی شاعر عدی بن زید بھی جنت میں ہوتا ہے کیوں کہ وہ دینِ مسیح کا پیروکار تھا اور بعثت سے پہلے وفات پا گیا تھا۔
ابن القارح بے شمار لوگوں سے ملتا ہے اور ہر ایک سے یہی پوچھتا ہے کہ تمھاری مغفرت کیسے ہوئی؟ اسی سوال کی نسبت سے رسالے کا نام بھی غفران یعنی مغفرت ہے۔ ابن القارح ان سب شعرا اور ادیبوں سے شاعری اور ادب کے مختلف سوالات بھی پوچھتا ہے لیکن اُسے حیرت ہوتی ہے کہ ان میں سے اکثر شعرا اپنے کلام بھول چکے ہیں۔ محشر کی سختی نے اُن کے حافظے کو شدید متاثر کیا، اب وہ جنت میں لہو و لعب اور شغل میلے میں مصروف ہونے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔

ابن القارح جنت میں شکار کو نکلتا ہے ، ایک نیل گائے پہ تیر باندھ کر اُسے مارنے ہی لگتا ہے کہ نیل گائے کہتی ہے مجھے نہ مارو، میں جنت کے جانوروں میں سے نہیں۔ میں تو مومنین کی مدد کرنے کے انعام کے طور پر جنت میں بھیجی گئی ہوں۔اسی طرح وہ ایک زیبرے کو مارنے لگتا ہے تو وہ بھی اسے یہی کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ دنیا میں میری کھال سے ایک نیک آدمی نے مشکیزہ بنایا جس سے مومنین طہارت حاصل کرتے تھے اس لیے اب انعام کے طورپر مجھے جنت بھیج دیا گیا۔ ابن القارح اس پہ بہت حیران ہوتا ہے اور انھیں کہتا ہے کہ تم کوئی نشانی تو لگاؤ تاکہ پتا چلے کہ تمھارا شکار نہیں کرنا۔ آگے ابو ذؤیب ہذلی سونے کے ایک برتن میں اپنی اونٹنی کا دودھ دوہ رہے ہوتے ہیں۔ ”دودھ کی نہروں کے ہوتے ہوئے اونٹی کا دودھ کیوں دوہ رہے ہیں؟“ ہذلی جواب دیتے ہیں کہ بس لطف اندوزی کے لیے۔

نابغہ ذبیانی اور نابغہ جعدی بھی جنت میں ہوتے ہیں۔ ادبی گفت گو کے دوران اعشی اور جعدی کی لڑائی ہو جاتی ہے۔جعدی سونے کا لوٹا اٹھا کر اعشیٰ کو دے مارتا ہے۔ لبید آکر اُن کی صلح کراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنت میں ایسی حرکتیں مناسب نہیں۔بگلوں کی ڈار نیچے اتر کر حوروں میں بدل جاتی ہے، ابن القارح کہتا ہے کیوں نہ ہم ان سے شادی کرلیں۔ لبید: ”نہیں ، اہلِ جنت ہمیں بگلوں کے شوہر کہنے لگیں گے۔“

چلتے چلتے ابن القارح عفریتوں کی جنت میں جا پہنچتا ہے، یہ انسانوں کی جنت کی بنسبت تاریک ہوتی ہے، اسے وہاں وہ جن بھی ملتا ہے جس کا ذکر سورۂ جن میں ہے۔ وہ جنوں کی شاعری کے بارے میں پوچھتا ہے تو جن کہتا ہے: شاعری تو ہے ہی جنات کی، انسانوں کو تو شاعری کی اتنی ہی سمجھ ہے جتنی گائے کو ریاضی اور فلکیات کی۔ ہم امرؤ القیس کی قفا نبك جیسے ہزاروں شعر ہر طرح کے اعراب کے ساتھ کہہ سکتے ہیں۔ پھر وہ اپنےعجیب و غریب اشعار سناتا ہے:
مكة أقوت من بني الدردبيس
فما لجني بها من حسيس

نیز ایمان لانے سے پہلے اپنی سرکشی کے قصے سناتا ہے۔ وہیں ابن القارح جنت میں ایک شیر اور بھیڑیے کو بھی دیکھتا ہے جو مزے کے ساتھ ہرنوں کا شکار کر رہے ہوتے ہیں۔ اسے بہت حیرت ہوتی ہے کہ یہ ان کا یہاں کیا کام؟ شیر بتاتا ہے کہ وہ عتبہ بن ابی لہب کو مارنے کی جزا میں جنت میں آیا ہے جب کہ بھیڑیا اہبان بن قیس کو پیغمبر کے بارے میں بتانے کے انعام کے طورپر جنت میں آیا ہے۔

وہیں جنت میں نور سے محروم ایک کٹیا سی بھی ہوتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ جاہلی شاعر حطیئہ کی ہے:”تمھاری مغفرت کیسے ہوئی؟“ حطیئہ کہتا ہے کہ میں نے ایک سچا شعر کہا تھا اس کی برکت سے بخشا گیا۔ شعر یہ تھا:
أرى لي وجها شوه الله خلقه
فقبح من وجه و قبح حامله!
(میرا چہرہ ایسا ہے کہ خدا نے اُسے بدصورت پیدا کیا ہے۔ یہ چہرہ بھی قبیح ہے اور اس چہرے والا بھی قیبح۔)

اس کے بعد ابن القارح کا دل کرتا ہے کہ وہ جنت کی شراب پیے۔ وہ شراب پیتا ہے تو اسے جاہلی شاعر کے ان اشعار کا مطلب سمجھ میں آتا ہے:
أعاذل لو شربت الخمر حتى
يظل لكل أنملة دبيب
إذا لعذرتني وعلمت أني
لما أتلفت من مالي مصيب

(اے ملامت کرنے والے اگر تو اتنی شراب پی کہ تمھیں اپنے پوروں میں چیونٹیاں رینگتی محسوس ہونے لگیں تو تم مجھے برا بھلا کہنا ترک کر دو گے اور جان جاؤ گے کہ میں نے اس شراب کے لیے جو مال ضائع کیا ہے وہ ٹھیک کیا ہے۔)

جنت کی مغنیات گانے گاتی ہیں ، اور جاہلی اور اموی عہد کے رند مشرب شاعروں کے یہ اشعار پڑھتی ہیں جنھیں سن کر تمام اہلِ جنت جھوم اٹھتے ہیں:
هبت تلوم و ليست ساعة اللاحي
هلا انتظرت بهذا اللوم إصباحي

(وہ مجھے رات کے اس پہر ملامت کر رہی ہے حالاں کہ یہ ملامت کرنے کا وقت نہیں ہے۔ کاش تم ملامت کرنے کے لیے صبح کا انتظار کر لیتیں۔)
وقلن: تمتع ليلة النأي هذه
فإنك مرجوم غدا أو مسَيف

(ان عورتوں نے کہا: آج کی اس شبِ موسیقی سے خوب لطف اٹھاؤ کیوں کہ صبح ممکن ہے تمھیں سنگسار کر دیا جائے یا تم جنگ میں مارے جاؤ۔)

جنت کے شعرا ویسے تو اپنی شاعری بھول چکے ہوتے ہیں لیکن لبید بتاتا ہے کہ اُس کے ان اشعار کو جنت کے سب سے بہترین اشعار قرار دے کر تمام اہلِ جنت کی زبان پہ جاری کر دیا گیا ہے:
إن تقوى ربنا خير نفل
وبإذن الله ريثي و عجل

(ہمارے رب کا تقوی بہترین عمل ہے۔ میری جلد بازی اور سکون سب خدا کے حکم سے ہے۔)

لبید کی بات سن کر سب اہلِ جنت سبحان اللہ کہتے ہیں۔
اس کے بعد ابن القارح جہنم کی سیر پہ جاتا ہے تو وہاں وہ مختلف جاہلی اور اموی شعرا کو ملتا ہے، امرؤ القیس، اخطل، بشار، عمرو بن کلثوم اور طرفہ وغیرہ۔ وہ ان کی حالت پہ افسوس کرتا ہے، ہر اک کے پاس جاکر اُس کی شاعری پڑھتا ہے، اُن سے باتیں کرتا ہے اور رنج و اندوہ کے ساتھ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ طرفہ نے علو نفسی، خودداری ، سخاوت اور لاابالی پن کی بابت جو شاعری کی ہوتی ہے ابن القارح اُسے وہ سنا کر کہتا ہے کہ اب تمھاری اپنی اس شاعری کے بارے میں کیا رائے ہے؟ طرفہ کہتا ہے: ”کاش میں ایک شعر بھی نہ کہتا اور وحشیوں اور جاہلوں کے ساتھ جنت میں چلا جاتا۔)
جنت کے ایک کنارے پر، جس سے تھوڑا آگے جہنم ہوتی ہے، اسے خنساء کھڑی ملتی ہیں۔ خنساء کا بھائی صخر زمانۂ جاہلیت میں مارا گیا تھا، خنساء نے اسلام قبول کیا مگر عمر بھر بھائی کے بارے میں مرثیے کہتی رہیں:
وإن صخرا لتأتم الهداة به
كأنه علم في رأسه نار

(راہبر لوگ میرے بھائی صخر کی اقتدا کرتے تھے گویا وہ ایسا عَلَم تھا جس کے سر پہ آگ جل رہی ہو۔)

معری کا ہیرو خنساء کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟ خنساء کہتی ہیں، میں اپنے بھائی صخر کو دیکھنے آئی ہوں، پھر وہ دونوں آگے بڑھ کر جہنم میں جھانکتے ہیں تو صخر بری طرح جل رہا ہوتا ہے، خاص طور پر اس کا سر شعلوں کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔ صخر اپنی بہن خنساء کو دیکھ کر کہتا ہے: تم نے سچ کہا تھا کہ میرا بھائی صخر ایسا علَم ہے جس کے سر میں آگ لگی ہوئی ہے۔

جہنم میں ابن القارح کی ملاقات شیطان سے بھی ہوتی ہے۔ لعنت ملامت کے بعد شیطان ابن القارح سے کہتا ہے کہ میں ایک بات پوچھوں؟ ابن القارح : ہاں پوچھو۔ شیطان: جنت میں غلمان اور شراب ہے۔ دنیا میں تم پر شراب حرام تھی، جنت میں حلال کر دی گئی ہے، تو کیا غلمان بھی ۔۔۔؟
شیطان کی یہ بات سن کر ابن القارح اُسے لعنت ملامت کرتا ہے کہ کیا تمھیں نہیں معلوم کہ وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں، اس کے بعد وہ آگے چل پڑتا ہے اور آخر کار یہ سفر ابن القارح کے جنت میں پہنچنے اور ابدی لطف میں مشغول ہو جانے پہ تمام ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس عجیب و غریب کتاب سے معری کا مقصود کیا ہے؟ اس سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معری اپنے عہد سے بہت آگے کا انسان تھا۔ دینی ، سیاسی اور سماجی قدروں پر تنقید کی وہ روایت جو جدید دنیا میں دو تین صدیوں سے متعارف ہوئی ہے وہ معری کے ہاں ایک معمول کی بات ہے۔ معری بنیادی طور پر ایک قنوطی فلسفی تھا اور اپنے عہد میں تشکیک اور لا ادریت کا بڑا نقیب تھا۔ وہ مذہب کی روایتی اور رائج قدروں کا شدید ناقد اور باغی تھا، لیکن اپنے معاصر زنادقہ اور متشککین کے برعکس اُس کی زندگی زہد، استغناء،رہبانیت، پاک دامنی، خود داری اور بلند ہمتی کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔ معری نے اپنے فلسفے اور پیغام کے گرد متعدد حجاب ڈال رکھے ہیں، اُسے سمجھنے کے لیے دقت نظری، بیدار مغزی اور معری کے ذوق و مشرب سے بنیادی آگاہی ضروری ہے۔

”رسالۃ الغفران“ بادی النظر میں ایک دینی کتاب ہے، خاص طور پر ابن القارح کے جواب والے حصے میں عباسی عہد کے زنادقہ اور متشککین پر جس طرح تنقید کی گئی ہے وہ اول وہلہ میں ”رسالۃ الغفران“ کو ”دین دار لٹریچر“ دکھانے کے لیے کافی ہے۔ علماء اگر معری کے عقیدے کی بابت غیر مطمئن نہ ہوتے تو وہ شاید رسالۃ الغفران میں وہ کوئی نقص نہ ڈھونڈ پاتے۔معری کی بدنامی کے زیرِ اثر غفران میں جو قابلِ اعتراض باتیں ڈھونڈی بھی گئی ہیں وہ اس قسم کی ہیں کہ اس میں متعدد غیر مسلم جاہلی شعرا کو جنت میں دکھایا گیا ہے، اس میں زنادقہ کے اشعار ہیں یا یہ کہ اس میں آخرت کے اُن امور کی خیالی تفصیل بیان کی گئی ہے جو انسانی عقل سے ماورا ہیں۔

لیکن اصل مسئلہ اور ہے، مختلف ادبی اور لسانیاتی بحثیں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب تمسخر اور استہزا کے درجے کو پہنچی ہوئی شدید تنقید بھی ہے۔ یہ مختلف تصورات پر شدید قسم کا احتجاج ہے۔ جنات سے کی گئی تمام گفت گو اور اُن کے عجیب و غریب اشعار (جو یقینا معری کے ذہنِ رسا کی تخلیق ہیں) دراصل عوامی تصورات کا استہزا ہیں۔ ورنہ معری کی شاعری پڑھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ جنات کے متعلق اُس کے خیالات کس قسم کے تھے۔ اپنے دیوان ”لزومیات“ میں معری نے لکھا ہے:
فإِنَّما تلك أخبارٌ مُلَفَّقَةٌ
لخدعةِ الغافلِ الحشويِّ حُوشيتا

(جنات کے انسان کو ڈرانے کی باتیں جھوٹی ہیں جو بے کار غافل آدمی کو دھوکا دینے کے لیے گھڑی گئی ہیں، لہذا ان سے بچ کر رہو۔)

ہمارے لیے جنت ایک مثالی دنیا ہے، معری اُس مثالی دنیا کی تصویر کشی کرتا ہے اور دکھاتا ہے کہ یہ مثالی دنیا لذت اور عشرت کے اُنھی اُصولوں پر قائم ہے جو اس دنیا میں ہم میں سے اکثر لوگوں کو مطمحِ نظر ہوتے ہیں۔ ابو ذؤیب ہذلی کو دودھ دوہتے دکھاکر معری جنت کو انسان کی نامکمل خواہشوں کا عکس ثابت کرنا چاہتا ہے۔ ہم وہاں اُن حسرتوں کی تکمیل چاہتے ہیں جو یہاں پوری نہیں ہو سکیں:

سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے وہ ترا جلوہ گاہ ہو

معری مغفرت کے معیار پر تعجب کرنا چاہتا ہے (رسالے کی تصویر میں وہ اس پر ناخوش بھی دکھائی دیتا ہے) کہ طرفہ، عنترہ، صخر اور عمرو بن کلثوم جیسےبہادر، خود دار، عالی نفس اور دریا دل جہنم میں ہیں جب کہ اِن صفات میں اُن سے فروتر لوگ اپنے بعض جملوں کے باعث جنت میں ہیں۔اِس زندگی میں جس نے ایسے علَم کا کردار ادا کیا جس کے سر پہ مشعل لگی تھی آخرت میں اُس کے سر کو آگ میں جلایا جا رہا ہے۔ پھر جنت بھی اُنھی نعمتوں سے عبارت ہے جن سے لطف اندوزی کی جزا میں صخر و عنترہ جہنم میں جل رہے ہیں۔ معری نے اپنے ایک مشہور قطعے میں خدا سے شکایت کی ہے کہ وہ بندہ جو تیرے فیصلوں پہ ناخوش ہے اس نے زندیق ہی بن جانا ہے۔

معری شراب کے شدید مخالفین میں سے ہے کیوں کہ وہ عقل کے معاملے میں انتہائی محتاط اور حساس ہے۔ معری جنت میں شراب کی فروانی دکھاتا ہے لیکن اُس کا اپنا ذوق و شوق اُسے علم و ادب اور فکر و فن کی محفلیں جمانے پہ اکستاتا ہے، حالاں کہ اہل جنت اب اپنے ہی اشعار بھول چکے ہیں۔ ایسی جنت معری کے کسی کام کی نہیں وہ عمومی رجحانات کے برعکس اپنے معیار کی بہشت قائم کرنا چاہتا ہے۔

معری تصورِ بہشت کے تضادات بھی واضح کر رہا ہے، جنت میں ہرن ، نیل گائے اور زیبرا بھی اپنی نیکیوں یا کسی نیک آدمی کی برکت کے باعث پہنچ گئے ہیں اور بھیڑیا اور شیر بھی، اعشیٰ بھی ہے اور جعدی بھی۔ معری کو یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ اہلِ جنت کے دلوں سے کدورتیں مٹا دی جائیں گی، اسے اس فرمان کی صداقت پر تو اعتماد ہے مگر انسانوں کی فطرت پر نہیں۔ چناں چہ نابغہ جعدی کا لوٹا جنت میں بھی اعشی کے سر پر لگ سکتا ہے۔جنت کا تصور رنج و اندوہ سے خالی ہے لیکن اِس کی عملی تطبیق معری کے لیے مشکل ہے، وہ خنساء اور صخر کی ملاقات کی تصویر میں درد اور غم کے انتہائی سفاک اور بینائی سوز رنگ بھر دیتا ہے۔ صخر کے الفاظ کی تلخی قاری کے لیے جنت کی اکثر نعمتوں کو کڑوا کر دیتی ہے۔

سب سے اہم بات تصورِ جمال کی ہے، ہم جنت میں بھی انھی لذتوں کے متلاشی ہیں جو دنیا میں ہمارے لیے عشرت و لطف کا سبب ہیں۔ معری کی جنت میں مغنیہ اشعار گنگناتی ہے تو وہی رنج و اندوہ، ہجر اور ملامت پہ مبنی شاعری، جو دنیا میں بہ یک وقت ہمارے دل کو جلاتی بھی ہے اور اِس پہ مرہم بھی رکھتی ہے۔ابن القارح جنت کی حوروں سے امرؤ القیس کی ”دارۃ جلجل“ جیسی تفریح کی خواہش کرتا ہے، جو پوری ہو جاتی ہے، وہ امرؤ القیس کے اشعار گنگناتا ہے اور پھر استہزاکرتے ہوئے کہتا ہے: ”امرؤ القیس خود جہنم میں ہے اور میں یہاں اُس کی شاعری سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔“ اس سب کو پڑھتے ہوئے قاری اُس تضاد اور ناہمواری کو صاف محسوس کرتا ہے جو معری ہمیں دکھانا چاہتا ہے، معری کی تشکیک اور تنقید کی تیز دھار پورے رسالے میں خاموشی اور بے رحمی کے ساتھ چل رہی ہے۔ امام ذہبی نے جب رسالۃ الغفران کو مزدکہ اور فراغ ( زندقہ اور لایعنیت) کہا تو انھوں نے بڑی حد تک غفران کے مخفی پیغام کو سمجھنے میں غلطی نہیں کی۔

مختصرے کہ ادب، تخیل اور فکر کا یہ عجیب و غریب شاہکار بہر طور ہماری تہذیب کی ایک بڑی تخلیق ہے، جو عصرِ جاہلی اور صدرِ اسلام کے کینوس پر پیش کی گئی ہے۔ معری کے عقیدے کےدفاع اور رد دونوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، ہم اس بحث نہیں پڑنا چاہتے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ "غفران" اور معری کی شاعری تشکیک اور تنقید کی اُس تحریک کا حصہ ہے جو ہماری تہذیب کے داخل سے اٹھی اور اس تہذیب نے جس خندہ پیشانی، وسعت ظرفی اور تحمل کے ساتھ اِسے اپنے پہلو میں جگہ دی، کسی اور مذہبی معاشرے میں، اور ہمارے اپنے معاشرے میں، اُس کی نظیر ڈھونڈنا کارِ لاحاصل ہے۔

Comments

Avatar photo

ابوالحسین آزاد

ابو الحسین آزاد عربی اور اردو ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ ہمہ جہت وسعت مطالعہ اور منفرد اسلوب تحریر کی وجہ سے علمی حلقوں میں جانے جاتے ہیں۔ کالج میں علوم اسلامیہ کی تدریس سے وابستگی ہے، ایم فل کے طالب علم ہیں۔ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل ہیں۔

Click here to post a comment