سال نو کا دسواں دن چل رہاہے۔ ایک طرف جہاں لوگ نئے سال کی دہلیز پر دلی خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں اور خوابوں کی سوغاتیں لئے نئی اُمیدوں اور نئے اَرمانوں کا رشتہ باندھ رہے ہیں، وہیں دوسری طرف شاعر نے ۲۰۲۵ کے بارے میں ذاتی خیالات کی چار دیواری میں رہ کریا س وقنوطیت کا اپنا ہی نقشہ کھینچاہے۔ وہ سلگتےعالمی مسائل کی نشست وبرخواست سے لے کر مقامی سیاسی اورمعاشی حالات تک پھیلے آثار سے ا خذ کر رہا ہے کہ اِمسال بھی دنیائےانسانیت میں کچھ بھی ٹھیک ٹھاک نہ ہوگا۔ نہ غزہ میں اَمن آئےگا ، نہ یوکرین، لبنان اوریمن میں لوگ سکون کا سانس لے سکیں گے، حالانکہ رائے عامہ کہتی ہے کہ صدر ٹرمپ MAGA یعنی ’’میک امریکہ گریٹ اَگین‘‘ کی سیاسی راگ الاپتے ہوئے امریکہ کی معیشت پر ہی اپنی توجہات مرکوز کریں گےاور عالمی جنگوں کی بساط بچھانے کی امریکی پالیسی کو لپیٹ کررہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واشنگٹن کے گرانڈیل طاقتور جنگی صنعت کار اپنی فاقہ کشی کی قیمت پرصدرٹرمپ سے متفق ہوکر جنگ وجدل رُکوانے کی حامی بھرلیں گے؟ بعینہٖ روسی صدر پوٹن بھی یوکرین میں اپنی فوج کشی جاری رکھیں گے، اگرچہ جنگ سے یوکرین تباہ وبرباد اور ماسکو تنگ دستی اور اقتصادی بحرانوں کا بھاری معاوضہ ادا کر تا جا رہاہے۔ ا س سال یمن میں ایران نواز حوثی قبائل اور سعودی نواز مخالف دھڑے کی جنگی یلغاریں پورے طور ختم ہوں، اس بات کا امکان نظرنہیں آتا ۔ شام کا میدان فی الحال ٹھنڈا پڑا ہے اورخاموش بھی لگتا ہے، دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے۔
جموں و کشمیر میں اس سال بھی سٹیٹ ہڈ کی بحالی کا خواب شاید اُس وقت تک شرمندۂ تعبیر ہونے سے رہ جائے گا جب تک میری دانست میں سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی کے بانی صدر مفتی سعید مرحوم کی پالیسی اپناتے ہوئے این سی بی بھی جے پی سے ( جو اسمبلی میں اپنی عددی قوت کے اعتبارسے جموں صوبے کی زبان ہے) کسی پاور شیئرنگ فارمولے پر بصد دل آمادہ نہیں ہوتی ۔ ریزرویشن کا مناقشہ اس سال بھی طول کھینچتا چلا جائے گا اور اس کے توسط سے جواں سال ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ کی غیر روایتی یا’’ بغاوتی‘‘ قیادت کا سکہ جمتا جائے گا ۔ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے لئے بجلی صارفین فی کس دوسویونٹ مفت بجلی اور دیگر سہولیات دینے کے حوالے سے بھی ا س سال سیاسی دباؤ کا سامنا کریں گے۔ اُدھر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین اور اپوزیشن لیڈر سجاد غنی لون ایک اہم عوامی مدعا لے کر عدالت ِ عظمیٰ کے دروازے پر انصاف کی فریاد لئے دستک دینے کا برمحل من بنا لیا ہے۔ وہ چونکہ بذات خود اپنے پاسپورٹ ایشو اور پولیس ویری فکیشن کے ہاتھوں پانچ سال طویل انتظار کی اذیت ناک گھڑیاں سہہ چکے ہیں‘ اس لئے لوگوں کی پریشانیوں کا احساس وادراک رکھتے ہیں ۔ لون صاحب چاہتے ہیں کہ جس طرح سپریم کورٹ نےبلڈوزر جسٹس کے نام پر اجتماعی تعذیب سے پرہیز کر نے کا اپنا تاریخی حکم نام جاری کیا‘ اُسی طرح پاسپورٹ اور پولیس ویری فکیشن کے معاملے میں بھی جموں وکشمیر کی سرکاری ا یجنسیوں کو انسانیت کے ناطےکشمیر میں بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ہدایت جاری کرے تاکہ بقول ان کے اجتماعی تعذیب کا سلسلہ متروک ہو۔ شاعر کی پیش گوئی ہے کہ مہنگائی اور بےروزگاری کی دودھاری تلوار بھی بدستور شہر یوں کے سر لٹکتی رہے گی۔
سال۲۰۲۵ کا دنیا بھرمیں والہانہ انداز میں پورےجوش وخروش سے استقبال کیا گیا، شرق وغرب اور عرب وعجم میں لوگوں نے نئے سال کی آمد پر ٹھٹھرتی سردی کے باوجود جشن منائے، بنگڑے ڈالے، ڈھول تاشے بجائے، ناچ نغموں سے دلوں کی دُنیا شادوآباد کی۔ دنیا جانتی ہے کہ اس موقع پر سب کچھ سنجیدگی، شرافت اور متانت سے اختتام کو نہیں پہنچتا ، کہیں کہیں اُم الخبائث (شراب) اور شباب کی ناجائز محفلیں بھی جمتی ہیں۔ یہ چیز سال ِ نو کی تقریبات کو تفریح طبع تک محدود نہیں رکھتی بلکہ سیدھے طورا ن میں حرام کاری کی سیندھ لگادیتی ہے کہ ایسے بدنما واقعات سن کر یا دیکھ کرگھن آتی ہے۔
بہر صورت ہرسال عام لوگ موقع غنیمت جان کر تین سو پینسٹھ دنوں تک دلوں میں قید دبی کچلی خوشیوں، حسرتوں اور آرزوؤں کا اظہار کر تے ہیں مگر بعض مست مولا اخلاقی حدود، شرافت کی تقدس مآبی اور عزت و حیامندی کا دامن تارتار کر تے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید یہ عالمی جشن غیر حکومتی سطح پر اپنی اخلاقی شرائط اور تہذیبی آداب کے ساتھ قوموں اور ملکوں کے بیچ رشتے رابطے بنانے اور امن و مفاہمت، محبت و اُخوت کی جوت جگانے کا نکتۂ آغاز سمجھا جاسکتا، کیونکہ اس کی وساطت سے کسی حدتک عالمی سطح پر جنگ و جدل کی تباہ کاریاں، انسانیت سوز مجرمانہ حرکات اور بغض وعناد کی کوکھ سے جنمی شرارتوں کی آگ بجھا ئی جا سکتی، لوگوں میں افہام وتفہیم اور دوستی کی راہیں استوار ہوسکتیں، دوریاں قربتوں سے بدل سکتیں، قوموں کے درمیان پیچیدہ مسائل حل کرانے کی تیر بہدف سوچیں اورکاوشیں ترغیب پاسکتیں۔ خیرنئے سال کی تقریبات میں شریک لوگ کہیں ریتی رواج کا دامن پکڑنے پر اکتفا کرتے ہیں، مگر کہیں جدت طرازیوں، آتش بازیوں اورقسم قسم کی پارٹیوں سے یکم جنوری کی پوری رات کو رنگین بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ زیادہ تر انھی پارٹیوں میں اخلاق وتہذیب کی دھجیاں اُڑائے جانے والی حرکات سے رنگ میں بھنگ ڈلتاہے۔ اس موقع پر ایک دوسرے کو تہنیتی کارڈز ارسال کر کے بھی لوگوں میں والہانہ دوستی‘ محبت اور اپنائیت کا بھرم رہ جاتاہے ۔ یہ سب روایات کا ایک طویل سلسلہ ہے ۔
نیا سال کا جشن منانا عالمی کلچر کا ایک جزو لاینفک بن چکاہے۔مختلف قومیں اور ممالک اس روز محبت اور بھائی چارے کے پرچم تلے نئے عیسوی سال کا شروعاتی خیرمقدم بڑے دھوم دھام سے کرتے ہیں۔ ا س کے ردعمل میں ہم میں سے تہذیب ِ مغرب کے زیادہ تر ناقدین بوجوہ برہم ہوتے ہیں اور سال ِنو کے جشن پر مذہبی نقطہ ٔ نظر سے حلت وحُرمت اور ثقافتی یلغار کی بحثیں چھیڑتے ہیں۔ یہ بحثیں ضروری ہیں یا غیر ضروری، ا س سوال کو ٹالتے ہوئے میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں ایسی بحث وتکرارسے رَتی بھر فرق نہیں پڑتا کیونکہ نہ یہ سلسلہ تنقیدوں سے آج تک کہیں رکا اور نہ مستقبل میں رکنے کا کوئی امکان ہے۔ ان سے ایک جانب ہماری اپنی جوان نسل انھیں دقیانوسیت کہہ کر مذاق اُڑاتی ہے اور دوسری جانب غیر مسلموں کے اندر خواہ مخواہ مسلم کمیونٹی کے تئیں فضول قسم کے شکوک وشبہات، بدظنی اور منافر ت کی آگ بھڑکتی ہے، بے ہودہ غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، بےمقصد اختلافات کی تخم ریزیاں ہوتی ہے۔ میری ناقص رائے میں نئے سال کے خیرمقدمی جشن کو محض غیر مذہبی زاویہ ٔ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات باعث ِاطمینان محسوس ہوگی کہ کم ازکم اس ایک چیز سے اقوام ِ عالم میں اعلیٰ وادنیٰ کی تفریق، ترقی یافتگی وپسماندگی کا امتیاز اور مہذب وغیر مہذب کی تقسیم وقتی طور دُھندلی ہوجاتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نفرتوں اور کدورتوں کی چبائی دنیا میں اسی بہانے ایک دن تو آتا ہے جو مختلف المذاہب لوگوں کو آپس میں غیر محسو س طریقے پر جوڑتاہے ۔ عیسائی عقیدے کے مطابق ۲۵ ؍ دسمبر کو اسلام کے ایک مایہ ناز پیغمبر سید نا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم پیدائش ہے، اس کی خوشی منانے کا تہوار اُسی دن سے شروع ہوکر یکم جنوری کو ہیپی نیو ائر کے نام سے اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے۔ یہ بات محتاج ِ تشریح نہیں کہ یہ دن اقوام وملل میں ا س حدتک اپنی مقبولیت کا لوہا منوا چکاہے کہ کیا عیسائی، کیا مسلمان، کیا یہودی، کیا ہندو ، دیگر مذاہب ماننے والے بشمول منکرین ِخدا یکم جنوری کو ایک مشترکہ عالمی تہوار کا حصہ بنتے ہیں کہ ساری انسانی دنیا عالمی اُخوت کے رنگ میں رنگی لگتی ہے۔ واضح رہے کہ جس طرح مسلمانوں کی افطار پارٹی کی شرکت سے کوئی غیرمسلم مسلمان نہیں بنتا، بالکل اسی طرح نئے سال کی مبارک باد دینے یا لینے سے کوئی مسلمان اسلام سے خارج ہوتا ہے نہ اس میں داخل ہوتا ہے۔ یہ محض ایک عالمی رسم براری ہے اور گلوبل ولیج والی موجودہ دنیا میںایسی تقاریب کی اہمیت زیادہ سے زیادہ ایک کلچرل ایونٹ تک محددو رہتی ہے اور بس۔
اس سال جشن و مسرت کا سماں اپنےعروج پر تھا کہ عین اُسی وقت عالمی میڈیا پر بریکنگ نیوز چلی کہ امریکہ میں کسی انسان دشمن امریکن شہری نے اپنا ٹرک جشن منانے میں مصروف ایک ہجوم کے اوپر سرراہ چڑھایا، ا س سے موقع پر ہی کئی لوگ دم توڑ بیٹھے اور کئی ایک زخم زخم ہوکر ناکردہ گناہوں کی سزا پاگئے ۔ شیطان صفت قاتل نے یہ انتہائی سنگ دلانہ اور ناقابل ِ معافی جرم کیوں سرانجام دیا ، اس بارے میں ابھی تک وثوق واعتماد سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ قاتل اگر خدانخواستہ اتفاقاً مسلمان نکلتا تو اُسی وقت مسلمانان ِ عالم کے خلاف منفی پروپگنڈے کی میڈیائی ہوڑ شروع ہوجاتی ‘ تمام کلمہ گوؤں کو صلوٰاتیں سنائی جاتیں، اُن کے خلاف کردار کشی کا بیڑہ اُٹھا یا جاتا۔ مسلمان نہ ہونے کی صورت ممکنہ طور کم بخت قاتل کو اب زیادہ سے زیادہ روایتی طور مخبوط ا لحواس یانشہ باز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس جانکاہ خبر پر کف ِا فسوس ملنا انسانیت کا ادنیٰ ترین ثبوت ہے مگر اس بیچ ہمیں یہ تند وتلخ حقیقت بھی ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ سے غزہ پٹی میں انسانی المیوں کی سیاہ تاریخ نئے سال میں بھی اپنے پورے دَم خم کے ساتھ جاری ہے ، یہاں روز انسانی لاشوں کے انبار لگتے ہیں ، نوزائیدہ بچوں سے لے کر عمر رسیدہ فلسطینی مردوزن تک صبح وشام انسان جرم ِ بے گناہی کی پاداش میںزندہ درگور ہو تے جارہے ہیں، چاروں طرف ہیروشیما ونا گاساکی جیسےکھنڈرہی کھنڈر نظر آتےہیں، اُجڑی بستیاں، لاشیں بے گور وکفن، روتے بچے، سینہ کوبی کرتی پردہ نشین خواتین اورزندہ رہنے والے بد نصیب انسانوں کوغذائی اجناس کی زبردست قلت کے الم ناک منا ظر، پانی جیسی بنیادی ضرورت مفقود ‘ ادویات اور طبی سازوسامان عنقا ‘ طب وجراحت تو دُور فسٹ ایڈ کی معمولی ڈبیوں سے محرومی کی تصویریں۔ یہ سب دیکھ کر جو دل نہ دہل جائے وہ انسانی دل نہیں ہوسکتا ۔ بہر کیف گریٹر اسرائیل کے مجوزہ نقشے میں ان خوفناک تباہ کاریوں اور انسانی المیوں کا رنگ بھرنے والے اپنی جگہ مطمئن ہیں کہ فلسطین میں سب کچھ منصوبہ بند پلان کے مطابق مرحلہ وارہورہاہے، جبکہ دنیا کو جنگ وتباہی سے بچانے والا عالمی ادارہ اقوام متحدہ اور اسرائیل وحماس کے مابین ثالثی کا کردار ادا کر نے والے دیگر ممالک نہ تل ابیب کو جنگ بندی پر آمادہ کرواسکےاور نہ ہی حماس سے اسرائیلی یرغمالی رہا کر وانے میں اُنہیں کوئی کامیابی ہوئی۔ کا ش اس دن کا سورج جلدازجلد طلوع ہو جب جنگ رُک جائے، تباہیوں کا اندھا سفر ختم ہواور خرابی ٔبسیار کے بعد دوریاستی فارمولے پر عمل درآمد شروع ہوتا کہ فلسطین کی پچھتر سالہ انسانی ٹریجڈی قصۂ پارینہ بن کررہ جائے۔ فی الحال رواں سال میں بھی یہ فارمولہ دور کی کوڑی یا بے ہدف نیک خواہش ہی بنی رہے گی۔
سال ِ نو میں ہم اگر ایک دوسرے کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار یکم جنوری تک محدود نہ رکھیں بلکہ پورے ما ہ و سال میں اپنوں اور غیروں کے ساتھ ا نہیں خلوص ِ دل کے ساتھ جاری رکھیں تو یہ ہمارے لئے خدائی عبادت جیسی نیکوکاری ہوگی ۔ دُعاہے کہ عیسوی سال کےبعد ہمیں آنے والے ہجری سال کی خوشیاں منانے کا زریں موقع بھی ملے۔
اے میزبانِ رنج وغم مہمانِ روز وشب
خوشیاں کہاں سےپائیں گے ایام آپ سے
غازہ یمن ہوں یو کرین لبنان کےمظلوم
کیا پہنیں گے وہ امن کا احرام آپ سے
ممکن نہیں ہے راحت وآرام آپ سے
اے سالِ نو پا جائیں گے آلام آپ سے
چڑھ جانی ہیں بازارمیںچیزوں کی قیمتیں
لٹ جانے ہیں نادار صبح وشام آپ سے
مہنگائی بڑھے گی بہت گھٹ جائے روزگار
ہوں گے زوال کے یہی کچھ کا م آپ سے
روتے رُلاتے بو گیا چوبیس مسائل
اُنھی کا دیکھ لیں گے ہم انجام آپ سے
نہ اَمن و دوستی کی نہ انصاف کی جے کار
بارہ مہینے ہو ں گےسب بدنام آپ سے
جنتا جو چاہے گی کبھی نیتا نہ چاہے گا
جیتے گا نیتا لوگ ہوں ناکام آپ سے
ہر جھوٹ وشرکے سر سجے یاںتاج ِ امامت
سچ کے عوض تردید گی انعام آپ سے
خدشات وقیاسات یہ ثابت ہوں بے اصل
اللہ کرائے دُور سب اسقام آپ سے
تبصرہ لکھیے