پشاور یونیورسٹی سے ڈاکٹر صدیق احمد شاہ صاحب نے رشید یوسفزئی صاحب کا ایک آرٹیکل بھیجا اور اس میں موجود مختلف فقہی مسائل پر تبصرہ مانگا۔ فی الحال اس میں ایک مسئلے پر اپنا تبصرہ نقل کر رہے ہیں۔ رشید یوسفزئی صاحب کا کہنا ہے:
"راقم اثم جسمانی، جنسی و رومانوی امور میں محدث، فقیہ امام ابن ابی لیلی کے فقہی مسلک پر ہے ۔۔۔ احقر کے امام، محدث، فقیہ امام ابن ابی لیلی رحمہ اللہ کے مذہب پر مسلمان مرد بیک وقت اٹھارہ بیویاں نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ دیگر فقہاء، خصوصا امام ابوحنیفہ رح کی بہ نسبت امام ابن ابی لیلی عربی محاورہ و روز مرہ پر زیادہ قوی عبور رکھتے تھے ۔۔۔ امام ابوحنیفہ کی عربی دانی پر علمائے عرب معترض تھے ۔۔۔ ہمارے امام، ابن ابی لیلی رحمہ اللہ کے مطابق قرآن مجید میں تعدد ازواج بارے قرانی آیت میں ”مثنی و ثلث و ربع“ یعنی شادی کرو دو دو، تین تین، چار چار لڑکیوں سے، جو علماء چار بیویاں مراد لیتے ہیں، وہ نزول قران و عہد نبوی کے محاوراتی کلچر سے واقف نہیں۔ "مثنی و ثلث و ربع" محاورہ تھا اور اس سے مراد “زیادہ سے زیادہ” ہے۔ عموما اہلیان حجاز اس سے اٹھارہ تک مراد لیتے تھے۔ لہذا قرانی حکم ہے کہ مؤمنین بیک وقت اٹھارہ تک بیویاں رکھ سکتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ علمائے اسلام اس پر متفق ہے کہ تعدد ازواج یعنی Polygamy سنت مؤکدہ ہے اور باعث اجر و ثواب دارین۔"
ابن ابی لیلی [76-148ھ] تابعی، فقیہ اور کوفہ کے مفتی اور قاضی تھے۔ حدیث کے معاملے میں ائمہ جرح وتعدیل میں سے بڑی تعداد نے جیسا کہ شعبہ، امام احمد، ابو حاتم الرازی، امام دار قطنی اور ابن حبان رحمہم اللہ وغیرہ نے ان کے حافظے پر شدید نقد کی ہے۔ اگرچہ فقیہ کے طور ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ پہلے ان کے شاگرد تھے لیکن کسی مسئلے میں اختلاف کے سبب پھر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھنا شروع ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے دونوں اساتذہ کے فقہی اختلافات پر کتاب بھی لکھی جو کہ «اختلاف أبي حنيفة وابن أبي ليلى» کے عنوان شائع شدہ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس کتاب کے مسائل پر اپنی کتاب "الأم" میں تبصرہ کیا ہے۔
جب ہم نے رشید یوسفزئی صاحب کی یہ تحریر پڑھی تو سب سے پہلے قاضی ابو یوسف علیہ الرحمہ کی کتاب ہی ذہن میں آئی کہ شاید یہاں یہ مسئلہ موجود ہو کیونکہ رشید یوسفزئی صاحب کے مضمون میں کوئی حوالہ موجود نہیں تھا۔ لیکن اس کتاب میں نکاح کے مسائل تفصیل سے دیکھے، وہاں قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ نے اپنے دونوں اساتذہ کے کسی ایسے اختلاف کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے بعد فقہ حنفی کی کتابیں دیکھنا شروع کیں تو فتح القدیر شرح ہدایہ میں ابن الہمام الحنفی رحمہ اللہ سے ایک قول مل گیا۔ وہ فرماتے ہیں:
«وأجاز الروافض تسعا من الحرائر. ونقل عن النخعي وابن أبي ليلى، وأجاز الخوارج ثماني عشرة. وحكي عن بعض الناس إباحة أي عدد شاء بلا حصر. وجه الأول أنه بين العدد المحلل بمثنى وثلاث ورباع بحرف الجمع والحاصل من ذلك تسع. وجه الثاني ذلك، إلا أن مثنى وثلاث ورباع معدول عن عدد مكرر على ما عرف في العربية فيصير الحاصل ثمانية عشر. وكأن وجه الثالث العمومات من نحو {فانكحوا ما طاب لكم من النساء} ولفظ مثنى إلى آخره تعداد عرفي له لا قيد، كما يقال خذ من البحر ما شئت قربة وقربتين وثلاثا. ويخص الأولين تزوجه صلى الله عليه وسلم تسعا، والأصل عدم الخصوصية إلا بدليل.» [«فتح القدير للكمال بن الهمام - ط الحلبي» (3/ 239)] ابن الہمام رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ روافض کی ایک جماعت نے ایک ساتھ نو شادیوں کو جائز کہا ہے۔ اور امام نخعی اور ابن ابن لیلی سے بھی یہ منقول ہے کہ نو شادیاں جائز ہیں۔ اور خوارج کے نزدیک اٹھارہ شادیاں جائز ہیں۔ پہلے موقف کی دلیل یہ بیان کی گئی کہ آیت مبارکہ میں "واؤ" جمع کے لیے ہے۔ پس آیت "فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع" میں دو، تین اور چار کو جمع کریں گے تو نو بن جائیں گی۔ دوسرے موقف کی دلیل یہ ہے کہ مثنی سے مراد دو نہیں بلکہ عربی محاورہ میں دو دو ہیں۔ اور ثلاث سے تین تین اور رباع سے چار چار ہیں۔ اس طرح ان کو جمع کرنے سے اٹھارہ بن جاتی ہیں۔ اور تیسرا قول یہ بھی کہ اصل تعداد مقرر نہیں ہے، جتنی مرضی شادیاں کر لو۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب محاورے میں کسی کو کہا جاتا ہے کہ سمندر سے ایک لوٹا، دو لوٹے یا تین لوٹے لے لو تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جتنا مرضی لے لو، کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
دیکھیں، عربی محاورے کے مطابق "مثنی وثلاث ورباع" کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے: دو دو، تین تین تین اور چار چار چار چار یعنی مثنی سے مراد دو، دو مرتبہ اور ثلاث سے مراد تین، تین مرتبہ اور رباع سے مراد چار، چار مرتبہ ہے۔ اس طرح کل تعداد انتیس بن جاتی ہے۔ پس جنہوں نے چار شادیوں پر اکتفا نہیں کیا، ان میں بھی اختلاف ہے۔ کوئی نو، کوئی اٹھارہ، کوئی انتیس اور کوئی لا تعداد شادیوں کا قائل ہے۔ پس جب وہ دلیل کی روشنی میں وجہ ترجیح قائم کریں گے کہ نو، اٹھارہ، انتیس اور لا تعداد میں سے کون سا قول راجح ہے، تو چار پر اکتفا کرنے والے بھی دلیل کی روشنی میں وجہ ترجیح قائم کر سکتے ہیں کہ چار کا قول راجح ہے۔
رشید یوسفزئی صاحب نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر عجمی ہونے کا لمبا چوڑا طعن کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کی عربی کمزور تھی کیونکہ وہ افغانی النسل تھے جبکہ ابن ابی لیلی عربی النسل تھے اور عربی محاورے کو بہتر جانتے تھے لہذا اٹھارہ کا قول راجح ہے۔
یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ رشید یو سفزئی صاحب نے ابھی اس بات کا کوئی حوالہ نہیں دیا کہ ابن ابی لیلی کے نزدیک اٹھارہ شادیاں جائز ہیں۔ دوسری بات یہ کہ عجمی ہونا عالم ہونے میں مانع نہیں ہے۔ غیر عرب دنیا کے علماء، عجمی الاصل ہیں۔ تیسرا یہ کہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد تو عربی النسل تھے، انہوں نے پھر عرب محاورے کا وہ معنی کیوں نہ کیا جو رشید یوسفزئی صاحب کر رہے ہیں۔ بلکہ ان ائمہ کے بعد ہزاروں فقہاء اور محدثین ایسے ہو گزرے ہیں جو عربی النسل تھے لیکن ان میں سے کسی کو بھی یہ محاورہ سمجھ نہیں آیا! بلکہ امام فراء وغیرہ جیسے لغت کے ائمہ نے محاورہ عرب کے مطابق چار سے زائد کا معنی مراد لینے سے انکار کیا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا تو عربی میں دیوان شائع شدہ ہے۔ وہ نسب میں قریشی تھے اور علماء کے شاعر کے لقب سے معروف تھے۔ انہوں نے بھی اپنی کتاب "الام" میں ایک عنوان «ما جاء في عدد ما يحل من الحرائر والإماء وما تحل به الفروج» [ «الأم» للإمام الشافعي (5/ 155 ط الفكر)] باندھا ہے کہ جس میں ثابت کیا ہے کہ ایک مرد کے لیے ایک ہی وقت میں چار سے زیادہ نکاح کرنا حرام ہے۔ اور اس میں دلیل سنت کو بنایا ہے یعنی غیلان بن سلمہ اور نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہما کی روایات کو۔ غیلان بن سلمہ کے بارے امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے پر حکم دیا تھا کہ اپنی دس بیویوں سے چار کو باقی رکھ لو۔
اب ہم اس استدلال کو زیر بحث لاتے ہیں کہ جس کے تحت نو بیویاں جائز کی جاتی ہیں۔ دیکھیں، آیت مبارکہ {فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ} (النساء: 3) میں "واؤ" جمع کے لیے نہیں بلکہ "تخییر" کے لیے ہے جیسا کہ قرآن مجید کی آیت مبارکہ {أُولِي أجْنحَةٍ مَثْنَى وَثَلاث وَرُباع) {فاطر: 1) میں ہے۔ اس آیت میں فرشتوں کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان میں کچھ دو دو، کچھ تین تین اور کچھ چار چار پَروں والے ہیں۔ اب یہاں جمع مراد نہیں ہے کہ فرشتوں میں سے اٹھارہ پروں والے ہیں۔ متکلم کا اصلا مقصود دو دو یا تین تین یا چار چار پَروں والے ہیں یعنی"واو" یہاں "یا" کے معنی میں ہے یعنی "او" کے معنی میں۔ یہی معنی تعداد ازواج کی آیت میں بھی ہے کہ تم دو دو یا تین تین یا چار چار عورتوں سے نکاح کر لو۔
دوسرا یہ کہ اگر یہاں نو بیویاں مراد ہوتیں تو اس کے بعد {فَإنْ خِفْتُمْ أَلَاّ تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةٌ أَوْ مَا مَلَكَتْ أيْمَانُكُم} (النساء: 3) یہ آیت یوں نہ ہوتی کہ اگر تمہیں عدل نہ کر سکنے کا ڈر ہو تو ایک ہی پر اکتفا کر لو۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ دو میں عدل نہ کر سکنے کا ڈر ہو تو ایک پر اکتفا کر لو یعنی کم از کم عدد یعنی دو سے ایک کم پر اکتفا کر لو۔ دوسری صورت میں یعنی نو کی اجازت کی صورت میں یہ آیت پھر یوں ہوتی کہ اگر عدل نہ کرنے کا ڈر ہو تو پھر آٹھ پر اکتفا کر لو۔ جب آیت سے نکل ہی نو رہی ہیں تو حکم نو شادیاں کرنے کا ہے۔ یعنی واو جمع کی ہے تو اصل حکم نو شادیاں کرنے کا ہوا لہذا پھر معنی تو یہی بنتا تھا کہ اگر نو میں عدل نہ کر سکتے ہو تو پھر آٹھ کر لو لیکن ایسا نہیں کہا۔ بلکہ کہا کہ ایک کر لو۔ دوسری صورت میں معنی یہ بنتا ہے کہ اگر نو میں عدل نہ کر سکتے ہو تو ایک پر اکتفا کر لو تو یہ بھی معنی مقصود کلام نہیں بن سکتا۔
تیسرا فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ اس آیت میں "تداخل" ہے یعنی مثنی، ثلاث میں داخل ہے اور ثلاث، رباع میں داخل ہے۔ اور یہ قرآن کا اسلوب ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿قُلۡ أَئِنَّكُمۡ لَتَكۡفُرُونَ بِٱلَّذِي خَلَقَ ٱلۡأَرۡضَ فِي يَوۡمَيۡنِ﴾ [فصلت: 9] ثم قال عز وجل: ﴿وَجَعَلَ فِيهَا رَوَٰسِيَ مِن فَوۡقِهَا وَبَٰرَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَآ أَقۡوَٰتَهَا فِيٓ أَرۡبَعَةِ أَيَّامٖ ﴾ [فصلت: 10]۔ یہاں اللہ عزوجل نے پہلے یہ فرمایا کہ زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ چار دنوں میں اس میں پہاڑ گاڑ دیے۔ اس کے بعد فرمایا: ﴿فَقَضَىٰهُنَّ سَبۡعَ سَمَٰوَاتٖ فِي يَوۡمَيۡنِ ﴾ [فصلت: 12] کہ دو دنوں میں آسمان کو بنا دیا۔ اس طرح تو یہ آٹھ دن ہو گئے جبکہ قرآن مجید میں دوسرے کئی ایک مقامات پر چھ دنوں کا ہی ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں دوسرے مقام پر جن چار دنوں کا ذکر ہے، اس میں پہلے دو دن بھی داخل ہیں۔
رہی یہ دلیل کہ آپ علیہ السلام کی وفات ہوئی اور آپ کی نو بیویاں تھیں، تو یہ آپ علیہ السلام کا خاصہ ہے کہ آپ کو ایک ساتھ نو بیویاں رکھنے کی اجازت تھی۔ اور غیلان بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں واضح طور موجود ہے کہ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کی دس بیویاں تھیں۔ آپ علیہ السلام نے انہیں چار بیویاں رکھنے کی اجازت دی اور بقیہ کو طلاق دینے کا حکم دیا۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ کبار محدثین نے اس روایت پر جرح کی ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام بخاری، ابو زرعہ الرازی، ابو حاتم الرازی اور امام طحاوی رحمہم اللہ وغیرہ نے اس روایت کو غیر صحیح، غیر محفوظ یا ضعیف وغیرہ کہا ہے۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ کے نزدیک اس روایت کے تمام طرق معلول ہیں۔ البتہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے موقوفا صحیح کہا ہے۔ تو اس حدیث کو حجت بنانا ایک مختلف فیہ ظنی دلیل کی حد تک ہو سکتا ہے۔
رہی نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کہ انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے پانچ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار رکھنے کا حکم دیا۔ اس روایت کو بھی ابن الملقن، نواب صدیق حسن خان، علامہ البانی، شیخ شعیب ارنووط رحمہم اللہ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ البتہ امام شوکانی کے نزدیک "حسن لغیرہ" اور ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق "حسن" درجے کی روایت ہے۔ امام شافعی کا کہنا ہے کہ یہ روایت محل اختلاف میں حجت بن سکتی ہے۔ خیر، یہ روایت بھی ایک مختلف فیہ ظنی دلیل ہے یعنی ایسی قطعی دلیل نہیں ہے کہ جو مخالف پر حجت بن سکے لیکن کسی مجتہد کے ذاتی اطمینان کے لیے کافی دلیل ہے۔
یہ دونوں روایات اگرچہ ضعیف درجے میں مان بھی لی جائیں لیکن ان کے ساتھ ایک دلیل ایسی ہے جو ان کے مفہوم کو قطعی بنا دیتی ہے اور وہ امت کے اجماع کی دلیل ہے کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین سے چار شادیوں کا ذکر تو کثرت سے ملتا ہے، اس سے زیادہ کا نہیں جبکہ اس سے زیادہ وہ لونڈیاں رکھ لیتے تھے۔ فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ لونڈیوں کی تعداد مختص نہیں ہے، وہ جتنی بھی رکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن بیویوں کی تعداد چار ہی ہے۔ پس امت کا قولی وعملی اجماع اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید کی ان آیات کا وہی معنی ومفہوم ہے جو خیر القرون میں سمجھا گیا کہ چار سے زیادہ کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
پس ہماری نظر میں یہ تفسیر، قرآن مجید کی ایسی تفسیر ہے جو شاونزم کی عکاس ہے۔ اس دور میں جینڈر ڈسکریمینیشن نے جہاں عورتوں کو متاثر کیا اور انہیں لگا کہ آج تک مردوں نے قرآن مجید کی تفسیر کی ہے لہذا عورتوں کی الگ سے کوئی قرآنی تفسیر ہونی چاہیے لہذا انہوں نے کئی ایک "نسائی تفاسیر" مرتب کر دی ہیں یعنی ایسی تفاسیر کہ جن کے ذریعے قرآن مجید کی آیات کی ایسی تشریح کی جائے جو عورتوں کے حق میں جاتی ہو۔ اب یہی کام رد عمل میں مردوں نے بھی شروع کر دیا ہے کہ قرآنی آیات کو زیادہ سے زیادہ مردوں کے حق میں موڑیں۔ قرآن مجید کی ایسی تفاسیر جو شاونزم کی عکاس ہیں، در حقیقت قرآن مجید کی فیمنسٹ تفاسیر کا رد عمل ہیں۔ یہ تفاسیر اور قرآنی معانی سبجیکٹو زیادہ ہیں جبکہ آبجیکٹو کم ہیں۔ ہمیں متن اور ٹیکسٹ کو سمجھنا ہے جیسا کہ وہ ہے، اپنے ذاتی نظریات کو ممکن حد تک اس سے علیحدہ رکھتے ہوئے، اور یہ تبھی ممکن ہے جبکہ آپ ٹیکسٹ کے علاوہ کسی اور خارجی مصدر کو اس ٹیکسٹ اور متن کا شارح اور اس پر حاکم مان لیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، اجماع امت اور سلف کے لغوی فہم کو۔ جزاکم اللہ خیرا
تبصرہ لکھیے