ہوم << میری کہانی : پچاس برسوں کی پچاس کہانیاں - طاہر علی بندیشہ

میری کہانی : پچاس برسوں کی پچاس کہانیاں - طاہر علی بندیشہ

میری کہانی : پچاس برسوں کی پچاس کہانیاں
مصنف : صاحب السمو شیخ محمد بن راشد حاکمِ دبی
کامیابی محنت اور لگن سے مشروط ہے اور محنت کرنے کی توفیق بھی قِسمت کے ہی مرہونِ مِنّت ہوتی ہے۔
یہ بات طے ہے کہ جتنے بڑے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے زندگی میں کچھ غیرمعمولی (extraordinary) کیا ہے وہ قسمت کے دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ محنت کی بھٹی سے گزر کر ہی کُندن بنتے ہیں۔ حاکمِ دبی شیخ محمد بن راشد نے ۲۰۱۷ میں اپنی جدّوجہد کے پچاس سال مکمل ہونے پر اپنی کہانی ( جو کی متحدہ امارات اور دبی کی کہانی بھی ہے ) زینتِ قِرطاس کی ، جس میں انہوں نے اپنے بچپن سے لے کر دوہزار سترہ تک کے چیدہ چیدہ واقعات کو قلمبند کیا۔ یہ کتاب متحدہ امارات اور دبی کی ترقی کے اہم اہم پوائنٹس بتاتی ہے اور امارات کی مختصر تاریخ کی بھی کچھ جھلکیاں پیش کرتی ہے۔
کتاب پچاس ابواب میں مُنقَسم ہے۔ جس میں دبی اور امارات کی منتخب اور اہم تاریخی واقعات کی بازگشت ہے اور جب دبی ترقی کرنے کے لیے کوشاں تھا تو آس پاس کے ممالک ایران عراق بیروت شام کویت وغیرہ میں کیا چل رہا تھا اِس کی بھی ایک سرسری سی داستان ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے۔
شیخ محمد کو اُن کے والد کچھ عرصہ صحراء میں اپنے دوست حمید کے پاس چھوڑے رکھا تاکہ وہ صحراء کی وسعت کو اپنے اندر سمو سکیں اور شکار کے رموز و اسرار سیکھ پائیں۔ حمید عمہی ، شیخ محمد کے بستر میں چھوٹے چھوٹے بچھو چھوڑ دیا کرتا تھا جو رات کو شیخ کو ڈستے تھے بعد میں علم ہوا کہ حمید یہ حرکت جان بوجھ کر کرتا تھا تاکہ شیخ کے جسم میں صحراء کے موذی حشرات الارض کے زہر مقابل قدرتی قوتِ مدافعت پیدا ہو سکے۔ اُن کے والد گرامی کہا کرتے تھے صحراء میں رہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اپنی بے ثباتی کا علم ہو سکے اور صحراء میں رہنے والے کو غرور و تکبر زیب نہیں دیتا ۔
شیخ محمد کی تربیت کے لیے انہیں اپنے عوام کو قریب سے دیکھنے کے لیے شیخ راشد نے انہیں ہر طرح کی تربیت سے گزارا ، صحراء میں بدوؤں کے ساتھ شکار پر زندہ رہنے کی تربیت ، سمندر میں غوطہ خوروں کے ساتھ غوطہ خوری کی تربیت ، جب ایک سخت طوفان آیا تو شیخ راشد نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو ہراول دستے کے طور پر بھیجا لوگوں کی مدد کے لیے اور پھر لندن میں عسکری تعلیم و تربیت کا انتظام بھی کیا گیا ۔
اپنے دادا کے جنازہ کی یاد لکھتے ہیں “ ان کا جنازہ لے جاتے ہویے میرے والد نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا، نہیں معلوم کہ یہ شدتِ غم کی وجہ سے تھا یا وہ چاہتے تھے کہ یہ منظر میری آنکھوں میں نقش ہو جائے ، میں آج تک نہیں سمجھ پایا “۔
لکھتے ہیں “ ایک حکمران کا بدترین فیصلہ غلط مشیروں کا اِنتخاب ہوتا ہے”۔
زمانہ کیسے پلٹیاں کھاتا ہے ایک وقت تھا سَن ۱۹۵۹ شیخ راشد اپنے بیٹے شیخ محمد کے ہمراہ لندن پہنچے برطانیہ کے وزیر اعظم مورس ہیرلڈ میکملن سے اِس غرض سے ملاقات کرنے کے لیے کہ وہ انہیں دبی میں بھی ایئرپورٹ بنانے کی اجازت دیں ، اس سے پہلے بس شارجہ میں ہی ایئرپورٹ تھا۔ اور یہ اجازت ایک طویل بحث مباحثے کے بعد ملی تھی اور پھر 2014 میں اسی برطانیہ کا ایک اخبار خبر لگاتا ہے کہ دبی ایئرپورٹ لندن ہیتھرو ایئرپورٹ کو سالانہ مسافروں کو وصول کرنے میں بازی لے گیا ہے۔
1966 میں انگلستان بھیجے گئے تعیلم حاصل کرنے کے لیے تو وہاں کے کلچر بارے میں لکھتے ہیں “ مجھے اِن کی یہ بات پسند آئی کہ کھانا کھاتے وقت مخلتف موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے ہیں “۔
قدیم عربوں سے لے کر عصری عربوں تک گھوڑا اُن کی زندگی میں ایک اہم فرد کے طور پر شامل رہا ہے۔ عرب گھوڑوں سے بیٹوں کی طرح پیار کرتے ہیں اور وہ ان کی بات سمجھتے ہیں۔
شیخ محمد نے اس کتاب میں اپنے دو گھوڑوں کا ذکر کیا ہے ۔ ایک گھوڑی جس کا نام اُم حَلج رکھا گیا وہ اُن کی پہلی گھوڑی تھی جسے انہوں نے دبی ریس میں بنا زین اُس پر سواری کرتے ہوئے دوڑایا اور اول آئے تھے۔ بعد ازاں وہ گھوڑی اُن کے بڑے بھائی نے اُن سے طلب کر لی اپنےذاتی اصطبل میں شامل کرنے کے لیے اور یہ اُن کے لیے ایک اعزاز تھا۔ گھوڑی سے جدائی کا دکھ تھا اور اس بات کی خوشی بھی کہ میرے بڑے بھائی نے مجھے یہ اعزاز بخشا ہے۔
ایک گھوڑا تھا دبی ملینیم اُس کا نام رکھا گیا اُس کو کیا ہی محبت کے ساتھ یاد کیا ہے پورا ایک باب اُس پر باندھا ہے۔ (اُس کی الگ سے پوسٹ لگائی جائے گی )۔
“ والد صاحب ، گھوڑے اور دبی میرے بچپن کی یادیں ہیں اور یہی آخر تک میرے ساتھ رہیں گی۔ گھوڑے فخر ، خود اعتمادی اور طاقت کی علامت ہیں۔ یہی میرے والد کی صفات تھیں اور یہی دبی شہر کی ہیں”۔
شیخ زاید آل نہیان کو وہ اپنے استاد ، مرشد ، دوسرا پدر اور راہنما مانتے ہیں۔
جب وزیر دفاع تھے تو ان کو دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا ۔ سارا پیسہ بجٹ پر ہی لگانا ہے یا اپنے لوگوں کے لیے فلاحی ریاست بنانی ہے۔
لکھتے ہیں “ لوگوں کی طرح ملکوں کو بھی کبھی کچھ مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں، ان کو ترقی کی جنگ یا سیاسی جنگ میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، ان کو اپنے وسائل ملک کی فلاح و ترقی پر لگانے یا جنگوں میں اپنے وسائل کو ضائع کرنے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، ان کا انتخاب کیا ہوگا، امن یا جنگ؟ میں اس حوالے سے جب سوچتا ہوں تو مجھے ۱۹۷۹ کی وہ یاد آتی ہے جب میں نے فیصلہ کیا تھا کہ بجٹ پر پیسے کم خرچوں گے اور اپنے لوگوں کی فلاح و ببود پر زیادہ اور چالیس سال بعد آپ ان فیصلوں کے نتائج کو زیادہ واضح نظر سے دیکھ سکتے ہیں”۔
“ جب مجھے وزیر دفاع بنایا گیا تو لوگوں کے مسائل اور مشکلات کو قریب سے دیکھنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ دفاع اور فوجی بجٹ کو محدود کیا جائے، کیونکہ ہمیں اسکول، ہسپتال، سڑکوں اور گھروں کی تعمیر کی اشد ضرورت تھی۔ وزیر دفاع ہونے کی حیثیت سے شاید میری بات کچھ عجیب محسوس ہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ اگر توازن برقرار نہ رکھا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ فوج خستہ حال لوگوں کے گروہ اور بنجر زمین کے ٹکڑے کی رکھوالی کر رہی ہوگی۔ کسی بھی ملک کی عظمت اور قوت کا دارومدار اس کی عسکری قوت پر نہیں ہوتا، بلکہ یہ راز اس کے لوگوں کی خوشحالی میں مضمر ہے”۔
وہ کہتے ہیں کہ شیخ زاید آلِ نہیان نے کہا تھا کہ سیاست ہماری عرب دنیا میں کسی فائدے کی نہیں ہے اور ہم نے اپنا سارا زور ترقی پر لگا دیا اور آج چالیس سال کے بعد جبکہ یہ مدت قوموں کی زندگی میں محض پلک جھپکنے جیسی ہے بہت وضاحت کے ساتھ آپ جنگ اور امن کے درمیان کیے گئے انتخاب کے نتائج دیکھ سکتے ہیں جب آپ سب کچھ داؤ پر لگا دیں ، آیا ترقی کے لیے یا اپنے سیاسی مقاصد کے لیے۔
جب ایمرٹس ایئرلائن کا آغاز کیا گیا تو پی آئی اے سے دو طیارے لیز پر لے کر یہ سروس شروع کی گئی۔ 25 اکتوبر 1985 کو پہلی پرواز دبئی سے کراچی روانہ ہوئی، جس میں اپنے بڑے بھائی حاکم دبی شیخ مکتوم کے ہمراہ وہ خود بھی موجود تھے۔ یہ لمحہ ان کے لیے انتہائی پرجوش تھا، اور آج ایمرٹس دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں شمار ہوتی ہے۔
۱۹۰۲ میں شیخ مکتوم نے درآمدات پر تمام کسٹم ڈیوٹی ختم کر کے دبی کو ترقی کی اک نئی شاہراہ پر ڈال دیا۔
جب 1968 میں متحدہ عرب امارات کا قیام عمل میں آیا تو شمالی خیمے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو عموماً عرب دنیا میں نہیں ہوتا، اور شاید اگلی کئی دہائیوں تک نہ ہو۔ دبئی اور ابوظہبی کے دونوں حکمرانوں نے صدارت کے عہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شیخ زاید نے کہا کہ شیخ راشد اس عہدے کے لیے مناسب ہیں، جبکہ شیخ راشد نے شیخ زاید کو اس منصب کے لیے ترجیح دی۔ اس موضوع پر طویل گفتگو اور بحث کے بعد شیخ زاید نے بالآخر یہ عہدہ قبول کیا۔
“آج جب میں دیگر عرب ممالک کی صورتحال دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جنہوں نے اپنے ملکی حالات کو تباہ کر دیا اور اپنی بے شمار دولت ضائع کر دی اور ترقی کے کئی قیمتی سال اس بات پر گنوا دیے کہ حکمران کون بنے گا “۔

Comments

Avatar photo

طاہر علی بندیشہ

طاہر علی بندیشہ دبئی میں مقیم ہیں، شعبہ قانون سے وابستہ ہیں۔ وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنی کتاب دوستی کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ کتابوں اور سفر کے شوقین ہیں، مادری زبان پنجابی سے گہری محبت ہے، اس کی ترویج کےلیے سرگرم رہتے ہیں

Click here to post a comment