ہوم << نیک کام میں دیر کیسی - الطاف جمیل شاہ

نیک کام میں دیر کیسی - الطاف جمیل شاہ

دنیا جو کہ دارالعمل ہے،یہاں انسان زندگی کے مختلف ادوار میں تقسیم ہو کر رہتا ہے۔کبھی بچپن کی معصومیت تو کبھی جوانی کی مستیاں،پھر زندگی اپنی تمام شفقتوں محبتوں کے ساتھ ہی واپسی کا سفر شروع کرتی ہے اور بڑھاپا چلا آتا ہے،جہاں آدمی چاہ کر بھی اپنی حسرتوں اور اپنے تمناؤں کو پورا کرنے سے عاجز ہوکر رہ جاتا ہے۔اب جو یہ چند روزہ زندگی ہے اسے ہم نیکی اور پاکیزگی کی راہ پر بھی ڈھال سکتے ہیں اور ابدی گمراہیوں کی دلدل میں دھنس کر بربادی و ناکامیوں کے اندھیروں کی نذر بھی ہوسکتے ہیں۔بحیثیتِ اہلِ ایمان ہماری ترجیح یہی ہے کہ نیکی کی راہ کو اختیار کیا جاسکے،اور اس پاکیزہ اور نیکی کی راہ پر چلنے میں ہر نیکی کے لئے کوشش کرنا اور جلدی کرنا اہل ایمان کا طرہ امتیاز ہے۔

کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر

وادیِ کشمیر کے جواں سال قلمکار ندیم احمد میر صاحب نے اسی بات کو سمجھانے کے لئے ایک خوبصورت کتابی گلدستہ ترتیب دیا ہے۔ان کی یہ خوبصورت اور بہترین کاوش اس دور میں ایک نوید سکوں ہے کہ نسلِ نو دینی علوم اور مراجع و مآخذ سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے علمی نکات چن کر علمی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر رہے ہیں۔ان کی اس سے پہلے بھی کچھ قلمی کاوشیں منظر عام پر آئی ہوئی ہیں،ندیم احمد میر صاحب نوجوان ہیں علمی و ادبی ذوق سے مالا مال ہیں،مسلسل ان کا علمی و تحقیقی سفر جاری ہے آنے والے ایام میں ان شاء اللّٰہ شاید کوئی بہت بڑا علمی کام انجام دیں گے۔
زیرِ نظر کتاب”نیک کام میں دیر کیسی؟“میں کل آٹھ ابواب ہیں کتاب زیادہ ضخیم نہیں ہے بلکہ ایک سو چودہ صفحات پر مشتمل ہے،کاغذ عمدہ ہے اور الفاظ مناسب ہیں،کتاب کا انتساب ہی اپنے لختِ جگر کے نام کرتے ہوئے اس دعا کا بھی تذکرہ ہے جو ہر کسی صاحبِ ایمان کے دل سے بلند ہوتی ہے جب اسے اولاد کی امید پیدا ہوتی ہے،پھر اپنے لختِ جگر کے لئے نیک دعاؤں سے انتساب کا اختتام کیا ہے۔کتاب کافی دلچسپ بھی ہے اور معلوماتی بھی۔پیش لفظ جو محترم ندیم احمد میر صاحب نے رقم کیا ہے،اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مؤلف مذکور کس قدر زبان و موضوع پر گرفت رکھتے ہیں۔مؤلف مزکور پیش لفظ میں رقم طراز ہیں جس سے کتاب کا موضوع بخوبی واضح ہوتا ہے لکھتے ہیں:
”تاریخ کے اوراق پر ان نفوس قدسیہ کی سیرت جھلکتی ہے جو نیکی کے جانباز سپاہی تھے اور نیک کاموں میں سبقت لینا ان کا شیوہ ہوا کرتا تھا۔وہ نیکی کے منارہ نور تھے اور نیکی کی خاطر اگلی صفوں میں جگہ بنانا ان کا طرہ امتیاز تھا۔انہوں نے دین کی راہ میں پیش آنے والی مصیبتوں کا صبر استقامت کے ساتھ استقبال کیا اور بڑے سے بڑے خطروں کو خاطر میں نہیں لایا بلکہ نہایت اطمنان سے بامقصد زندگی گزاری۔“(ص ١٠)
دوسرے صفحے پر اسی بات کو سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یہ وہ لوگ تھے جو پہاڑوں جیسی استقامت،سمندر جیسی گہرائی اور آسمان جیسی وسعت رکھتے تھے۔ان کا وجود بادِ نسیم کی طرح پژمردہ جسموں میں جان ڈالتا تھا۔ان کا کردار چودھویں چاند کی طرح شفاف تھا یہ مبارک ہستیاں پرعزم دریا کی طرح اپنی منزل کی طرح رواں دواں رہتی تھیں۔“(ص ١١)
مصنف مذکور اصل میں ماضی کے اوراق کو سامنے رکھ کر قارئین کتاب کو وہ اسباق یاد دلا رہا ہے جن اسباق کی روشنی اس قدر پُرنور ہے جس کی روشنی کا عکس پاتے ہی قلب و جگر میں ایمانی حلاوت اور انسانی دنیا میں علمی و ادبی عروج ممکن ہوا اور اہلِ ایمان کے لئے اپنے ماضی میں وہ گراں قدر عظیم شخصیات میسر ہوئیں،جن کے علم و ادب نیکی و پاکیزگی کا ایک دنیا معترف ہے۔سو مصنف مذکور نے ایک ادیبانہ کاوش کو اختیار کرکے قارئین کو ان کا زمانہ یاد دلایا ہے۔مصنف محترم اپنے ماضی سے ہی روشنی کو کشید نہیں کر رہا ہے بلکہ حال سے بھی وہ اس قدر واقف ہے کہ قلب و جگر کے لہو کو جلا جلا کر اپنے حال کا المیہ کچھ اس درد سے بیان کر رہا ہے کہ جی مایوسیوں کے اندھیرے سے بھی رونق نور کی رمق محسوس کر رہا ہے۔موجود زمانے میں نیکی اور صالح مزاجی کا فقدان ہے اور اس المیہ کو جناب یوں بیان کر رہے ہیں:
”بدقسمتی سے ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں نیک کاموں میں سبقت لینے کا رجحان بہت کم پایا جاتا ہے۔یہ رنج و افسوس کی بات ہے کہ کاہلی،سستی،تضیع اوقات اور کام کو ٹالنے جیسی عادات آج ہماری پہچان بن چکی ہیں۔نیک کاموں میں مسابقت اختیار کرنے کے بجائے انسان دنیا کو اپنے شب و روز کی کوششوں کا محور سمجھ بیٹھا ہے۔“(ص ١٢)
یہ اقتباس ان اہل ایمان کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے،جن کے قلوب ایمانی حرارت و حلاوت سے روشناس ہوں اور وہ روشنی کے طالب ہوں تو انہیں چاہئے اپنی سستی و کاہلی اور تضیع وقت کے غیر انسانی کام کو چھوڑ کر اپنی شخصیت میں نکھار لانے کی سعی کریں اور خود کے وجود کو ایمانی تعلیمات سے روشناس کر کے نعمتِ ایمانی سے جذبہ پاکر مستعدی کا مظاہرہ کریں۔نیکی اور صالح راہ میں چلنے کے لئے مصنف مذکور نے کتاب کے ابتدائی موضوع انسانی زندگی مقصد کے نام سے شروع کیا ہے جس میں کاہلی،کم ہمتی،سستی کے جذبات کی نفی اور استقامت اور مستعدی کے جذبہ کی ترغیب دی ہے۔ان صفحات میں جابجا قرآنی آیات اور فرموداتِ نبویﷺ موجود ہیں،جن سے کتاب کی افادیت مزید وسیع ہوگئی ہے،کئی جگہوں پر اشعار سے بھی کتاب کو رونق بخشی گئی ہے۔ایک صفحہ پر مولانا عامر عثمانیؒ کا ایک شعر نظر آیا تو یاد آیا مؤلف کا قلب بھی وہیں مسرت و شادمانی محسوس کر رہا ہے،جہاں راقم کا دل بھی اٹکا ہوا ہے۔ایسے ہی کئی صفحات پر اشعار پڑھنے ملتے ہیں جس سے واضح ہورہا ہے کہ مؤلف کا ادبی ذوق بھی کافی عروج پر ہے۔
نیک کام میں جلدی کرنے کی ترغیب اللّٰہ تعالٰی نے بھی دی ہے اور احادیثِ نبویﷺ میں بھی اس کی ترغیب دی گئی ہے۔چند آیات و احادیث حوالہ ناظرین کیا جا رہا ہے:
أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ (المؤمنون:61) ”یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کر رہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں۔“
إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ(الانبیاء:90) ”یہ بزرگ لوگ(انبیاء)نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈرخوف سے پکارا کرتے تھے۔“
انبیاء کرامؑ کا وصف رہا ہے نیکی میں جلدی کا اور اھل ایمان کا یہ کام معروف ہے کہ وہ نیکی میں جلدی کرتے تھے۔
احادیث رسول کریمﷺ کی روشنی میں نیک میں میں جلدی کرنے کی ترغیب:
بادِرُوا بالأعْمالِ سِتًّا: الدَّجَّالَ، والدُّخانَ، ودابَّةَ الأرْضِ، وطُلُوعَ الشَّمْسِ مِن مَغْرِبِها، وأَمْرَ العامَّةِ، وخُوَيْصَّةَ أحَدِكُمْ.(صحيح مسلم:2947) ترجمہ:جلدی کرو نیک اعمال کرنے کی چھ چیزوں سے پہلے، ایک دجال کے نکلنے سے، دوسرے دھواں، تیسرے زمین کا جانور،چوتھے آفتاب کا پچھم سے نکلنا، پانچویں قیامت، چھٹے موت۔
اعمال صالحہ پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔
بَادِرُوا بالأعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ المُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا(صحيح مسلم:118) ترجمہ:جلدی جلدی نیک کام کر لو ان فتنوں سے پہلے جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے، صبح کو آدمی ایماندار ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو ایماندار ہو گا اور صبح کو کافر ہو گا اور اپنے دین کو بیچ ڈالے گا دنیا کے مال کے بدلے۔
ایسے ہی اصحاب نبوی علیہ السلام کا جذبہ ایمانی سے سرشار یہ واقعہ سنا سمجھا اور عمل کر لیا:
جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
قالَ رَجُلٌ للنبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ أُحُدٍ أرَأَيْتَ إنْ قُتِلْتُ فأيْنَ أنَا؟ قالَ: في الجَنَّةِ فألْقَى تَمَرَاتٍ في يَدِهِ، ثُمَّ قَاتَلَ حتَّى قُتِلَ(صحيح البخاري:4046) ترجمہ: ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ احد کے موقع پر پوچھا: یا رسول اللہ! اگر میں قتل کر دیا گیا تو میں کہاں جاؤں گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں۔ انہوں نے کھجور پھینک دی جو ان کے ہاتھ میں تھی اور لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ نیکی کی توفیق ملے اس جذبہ کے ساتھ کہ بنا دیر کئے میں اس نیکی کو انجام دوں۔
آخری بات
وادی کی بات کی جائے تو کتابوں کا دور شاید آخری پڑاؤ پر ہے،لوگ کتابوں سے زیادہ بقیہ مشاغل کے اس قدر اسیر ہوئے ہیں کہ کتابیں بند الماریوں سے تاک رہی ہیں کہ کاش کوئی ہاتھ اٹھتا اور انہیں چھولیتا۔میں نے وادی کے کئی مصنفین کو سنا ہے پڑھا ہے ہر کسی کا ایک ہی شکوہ ہے کہ کتابیں ہم تیار تو کرتے ہیں پر المیہ یہ ہے کہ کوئی انہیں پڑھنے کو آمادہ نہیں۔اب جو لوگ کتاب سے شناسائی کا رجحان رکھتے ہیں ان کی کمائی کا دامن اس قدر سکڑا ہوا ہوتا ہے کہ رقم خرچ کرنے کی انہیں استعداد ہی نہیں،ایسے میں بد دل ہو رہے ہیں وہ ارباب قلم و کتاب جو اس مبارک سلسلے سے منسلک ہیں۔ میری التماس رہے گی اپنے احباب سے جہاں آپ بہت سے خرچہ جات کرتے ہیں وہیں گر آپ ندیم احمد میر جیسے مصنفین سے کتابیں لیں گے تو یہ بڑی حوصلہ افزائی ہوگی۔ نو آموز اصحاب قلم و کتاب کے لئے مذکورہ بالا کتاب بھی ایک اچھی اور معیاری کتاب ہے،خریدیں پڑھیں اور اپنوں کو اس کا تحفہ دیں۔