جس معاملے کے متعلق مکمل علم نہ ہو اس پر بحث سے کنارہ کش رہنا ایک عالم کو زیبا ہے اور ناقص علم کی وجہ سے کسی بات کا ٹھٹھہ اڑانا عالم کی علمیت پر ایک سوالیہ نشان تو ہے ہی،، ساتھ میں عنداللہ جوابدہی کا خدشہ بھی ہے. آگے میرے مخاطب تضحیک کرنے والے نہیں بلکہ وہ ہیں جو سنجیدگی سے مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہیں. اسی تمہید پر اکتفا کرتے ہوئے بات کو بڑھاتا ہوں اور اپنے فہم کے مطابق مختصر وضاحت کی جرات کرتا ہوں..!
وحدۃُ الوجود کی اصطلاح سب سے پہلے ابنِ عربی نے استعمال کی. اس کی توضیح دیکھی جائے تو "ہمہ اُوست" جیسے الفاظ سے بظاہر کفریہ نظریے کا گمان ہوتا ہے جبکہ بنیادی طور پر یہ نظریہ نہیں بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے،، مگر جب یہ قلم و قرطاس کے سپرد ہو تو پڑھنے والوں کو نظریہ ہی لگتا ہے. میرا ذاتی خیال ہے کہ یہیں ابنِ عربی سے چُوک ہوئی کہ انہوں نے کیفیات کو الفاظ کا روپ دینے کی کوشش کی جس پر علمائے حقہ کا تذبذب جائز لگتا ہے. مگر ظاہر بین عاقلین نے اسے فلسفے کا موضوع بنا کے رکھ دیا ہے اور خیالات و الفاظ کے داؤ پیچ میں پھنس کے رہ گئے ہیں. مناسب ہے کہ محتاط انداز سے اس کیفیت کو آسان لفظوں میں واضح کرتا چلوں..!
ذکر اذکار کی کثرت سے جب سالک روحانی طور پر قربِ الہٰی کی منزلوں میں محوِ سفر ہوتا ہے تو اس کی کامل توجہ صرف ذاتِ باری تعالیٰ پر مرکوز ہوتی ہے. آپ خود سے کبھی آدھ پون گھنٹہ روزانہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کریں، دنیاوی خیالات پہ پابندی لگا دیں اور اللہ کریم کی ذات کے قرب کا تصور کریں تو چند دن بعد آپ کو احساس ہوگا کہ اس مشق کی پختگی کے نتیجے میں اللہ پاک کا تصور آپ کی سوچوں اور خیالات میں راسخ ہونا شروع ہو گیا ہے. قرآن کی آیت (الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبھم) کے مصداق اُٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اللہ آپ کو اپنے ہمراہ محسوس ہو گا. (شیخ کے تفویض کردہ ذکرِ قلبی خفی سے گناہ کیسے خودبخود چھوٹتے چلے جاتے ہیں،، مزاج اطاعت و نیکی کی طرف کیسے مائل ہوتا ہے، اور گناہ کی کڑواہٹ کیسے محسوس ہوتی ہے، معترض کو اسکا اندازہ نہیں ہو سکتا). اب اسی کیفیت کو شدید تر کرتے جائیں تو شاید آپ کو سمجھ آ سکے کہ ابنِ عربی جب کسی شے کو دیکھتے ہوں گے تو بجائے اُس شے کے،، شے کے خالق کی طرف توجہ جاتی ہو گی. وہ سمجھتے ہوں گے یہ سب کچھ مجاز ہے،، حقیقت وہی ہے جو مجھے نظر آرہی ہے. میں تو جدھر دیکھتا ہوں مجھے اللہ ہی نظر آتا ہے. (ہمہ اُوست ?). جب یہی بات آپ کسی عام بندے کو بتا دیں کہ مجھے ہر شے میں خدا نظر آتا ہے، تو کیا خیال ہے علمائے کفر کا فتوی دیں گے یا نہیں؟ علماء اپنی جگہ درست ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ظاہر پہ فتوی دینے کے مکلف ہیں. منصور حلاج کی یہ کیفیت اتنی شدید تھی کہ وہ خود کو بھی دیکھتا تو کہتا "انا الحق". بھئی اسے حق کے علاوہ کچھ اور نظر آئے تو وہ اپنے قول کو بدلے ناں. اس کی مجبوری ہے، مگر شریعت اس عذر کو نہیں دیکھتی بلکہ سزا تجویز کرتی ہے جو کہ ایک درست عمل ہے. حق یہ ہے کہ خالق اور مخلوق جدا جدا ہیں. وہ حدیثِ قدسی تو آپ کو معلوم ہی ہوگی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں بندے کا ہاتھ، پاؤں وغیرہ بن جاتا ہوں. آپ کو عجیب نہیں لگتا کہ اللہ کیسے انسانی اعضاء میں ڈھل سکتا ہے؟ لیکن علمائے کرام اس کی تاویل تشبیہات کا سہارا لے کر کرتے ہیں. اب اگر یہی حدیث کسی کا حال یا کیفیت بن جائے اور وہ جذبات کے غلبے میں کہہ بیٹھے کہ اللہ میرا ہاتھ ہے نعوذباللہ،، تو؟؟
بات یہ ہے کہ محسوسات کی دنیا ہی الگ ہے. انہیں الفاظوں میں ڈھالنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، اور اگر ضروری بھی ہو تو محتاط اور عامۃ الناس کے فہم کے مطابق بات کی جائے. ابنِ عربی کو بھی اس امر کا خیال رکھنا چاہیے تھا..!
جو احساس آپ کا ہے اُسے ماننے کا میں پابند نہیں ہوں،، اسی طرح آپ میرے احساسات کو ماننے پر مجبور نہیں ہیں. البتہ ہمیں لوگوں کی عقل اور صلاحیت کے مطابق گفتگو کرنی ہوگی. اس میں کفر و شرک کی بات تب آئے گی جب ہم دائرہِ شریعت سے باہر نکلیں گے. اب دیکھیے، اسی وحدۃ الوجود (یعنی حقیقی/اصل وجود صرف ایک ہے،، باقیوں کی کوئی حیثیت نہیں، وہ مجاز ہیں، ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.. قائم بالذات صرف ایک ذات "اللہ" ہے، باقی سب اس کے قائم رکھنے سے قائم ہیں) کو آسان طرز میں نہ سمجھا سکنے یا نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ناقص العلم لوگوں کا کیا نقصان ہوا. انہوں نے جاہلانہ طور پر ہر مخلوق میں خدا کو دیکھنا اور بالآخر درختوں، جانوروں، پتھروں کو خدا مان کر پوجنا شروع کر دیا. اسی تناظر میں تناسخ اور حلول جیسے کفریہ نظریات کو تصوف سے جوڑا گیا اور تصوف کو ہندومت سے مماثلت کا طعنہِ بد سہنا پڑا. صوفی نما جاہلوں نے جوگیوں کا روپ دھار کر خدا کے بجائے اپنی عبادت کرانی شروع کر دی. ایسے گھمبیر حالات میں، کہ جب کوئی وحدۃ الوجود کو چھوڑنے پر راضی نہ ہو، حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اس کے مقابل "وحدۃُ الشہود" کی ترکیب وضع نہ کرتے تو کیا کرتے؟ ان کا مطلب یہ تھا کہ لوگو! یوں نہ کہو کہ ہر شے خدا ہے،، بلکہ یوں کہو کہ ہر شے اس کی موجودگی اور اس کے ہونے کی شہادت دیتی ہے. ہر شے اس کی وحدانیت پر شاہد ہے. (یہی معنی ہے وحدۃ الشہود کا)..!
میں نے اپنی بساط، ناقص سمجھ اور محدود معلومات کے مطابق سہل کلمات میں گزارشات پیش کر دی ہیں. اگر کسی کو اس میں کہیں کفر و شرک کا شائبہ بھی نظر آئے تو بلاتاخیر رد کردے. اس پر کوئی وبال اور گناہ نہیں ہے. اسلامی عقائد کا ماخذ قرآن و سنت ہیں اور ہم سے انھی کے مطابق عقیدہ رکھنے کا تقاضا ہے. کوئی بھی ایسا عقیدہ جو قرآن و سنت سے متصادم ہو، مردود ہے اور تصوفِ اسلامی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے.. بالاصل تصوف کیا ہے؟ یہ ذکرِ الہٰی کے ذریعے دِلوں کے تزکیے اور ان کی اصلاح کا شعبہ ہے. اس کا مقصد ظاہر و باطن کی یکسانیت اور پاکیزگی حاصل کرنا ہے. ہم تصوف کو شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر کماحقہ عمل، عبادات میں یکسوئی اور اعمال میں خلوص بیدار کرنے کا انتہائی مؤثر اور آزمودہ طریقہ (طریقت) سمجھتے ہیں. اور رہبانیت (معاشرے سے لا تعلقی) کو خلافِ اسلام کہتے ہیں. وما علینا الا البلاغ..!!
تبصرہ لکھیے