جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمیشہ جستجو ہی کی ہے. بچپن سے ہی مطالعے کا شوق ہے۔ 4 سال کی عمر سے ہی اخبار پڑھنا شروع کردیا تھا۔ سسپنس ڈائجسٹ 7 سال کی عمر میں پڑھنا شروع کیا تھا۔ جتنے بڑے انبیائے کرام کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے ان کے متعلق پڑھا۔ سیدنا محمد عربی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے متعلق بھی تفصیلاً پڑھا، بلکہ امت اخبار پڑھا ہی اسی لیے کرتا تھا کہ اس کے اسلامی صفحے پر اسلامی واقعات ہواکرتے تھے۔ رومن جولیس سیزر ہو یونان کا سکندراعظم ہو یا پھر تاریخ رقم کرنے والا ہینی بال، فاطمی، عباسی، اموی حکومتوں سے خانہ بدوشی سے آدھی دنیا تک حکومت کرنے والے منگول ہوں، سلجوقی، ایل خانی، مملوک، غوری، غزنوی اور مغلوں سمیت کوئی ایسی سلطنت شاید ہی رہی ہو جس کے متعلق نہ پڑھا ہو۔
کوئی بھی کتاب ملتی لکھاری کا نام دیکھے اور دائیں بائیں کی تفریق کیے بغیر پڑھا. جون ایلیا سے عشق تھا اور آج بھی ہے کاش کہ لوگ جون کو سمجھ پائیں۔ پتا ہی نہ چلا کہ کب امر جلیل اور رئیس امروہی کو پڑھتے پڑھتے سوشلسٹ بن گیا کیونکہ معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ اسلام کے دشمن اور سوشلسٹ ہیں۔ کسی نے بتایا تھا نہ کہیں پڑھا تھا۔ اسلام سے سوشلزم کا سفر کیسے طے ہوا؟ پتہ ہی نہ چل سکا۔ جو کتابیں پڑھیں ان میں کارل مارکس اور بھگت سنگھ ہیرو تھے۔ صرف کتابوں کے مطالعے نے سوچ اور فکر تبدیل کردی، زاویہ نگاہ بدل دیا۔ اسلام سے زیادہ سوشلزم کو پڑھنے کا موقع ملا مگر ایمان میں ذرا برابر فرق نہیں آیا، ویسا ہی مسلمان تھا جیسے پہلے تھا، ہاں صرف سوچنے سمجھنے ضرور لگ گیا تھا.
ذرا سوچیں !
دوران مطالعہ کہیں بھی ایسی تعلیمات نہیں ملیں جس میں دوسروں کو برا کہا گیا ہو، ان کی تذلیل کی گئی ہو، بداخلاقی کا درس دیا گیا ہو، بلاتحقیق الزام لگانے کی بات کی گئی ہو۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ محدود سوچ اور صرف اپنی معلومات اور سنی سنائی پر یقین کامل رکھتے ہیں، سچ وہی ہے جو ہم سننا چاہتے ہیں، حق وہی ہے جس پر ہم خود ہیں، حقیقت وہی ہے جو ہم سمجھتے ہیں، ہم تک سب ٹھیک باقی سب غلط ہیں۔ یہ وہ بنیادی سوچ ہے جس نے ہمیں طبقاتی تقسیم کا شکار کیا، اس سے فرقہ واریت، لسانیت اور تعصب جنم لیتے ہیں اور انتہا پسند فروغ پاتی ہے۔
دیکھیں!
اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم لکھتے وقت نہیں دیکھتے کہ ہم کیا لکھ رہے ہیں اور پڑھنے والے پر اس کا کیا اثر پڑے گا. اگر میں نے کہیں پڑھ لیا ہوتا کہ امرجلیل دہریہ اور اسلام دشمن ہے تو کبھی بھی اس کی تحاریر نہ پڑھتا چاہے اس نے سچ لکھا ہو یا جھوٹ ۔ اسی طرح کسی سے سن لیتا تو بھی اس کے متعلق رائے تبدیل ہوجاتی اور ایک منفرد لکھاری کی تحریروں سے محروم ہو جاتا۔ ہمارا لکھنا اور ہمارا بولنا معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے، اسی سے سوچ بنتی بگڑتی ہے. کسی کو پڑھے جانے بغیر اس کے بارے میں رائے قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
خرف آخر !
کتاب انسان کی سوچ بناتی بگاڑتی ہے ، معتدل بھی بناتی ہے اور انتہاپسند بھی۔ ہمارا دین کہتا ہے کہ فرقوں سے بچو، تفرقوں میں نہ پڑو۔ چاہے مذہبی ہو سیاسی ہو معاشرتی ہو سماجی ہوطبقاتی ہو، ہر قسم کی تفریق سے بچنا دراصل اسلام ہے۔ ایسی ہر فکر سے دور ہوجائیں جو آپ کو تقسیم کی طرف لے جائے، جو بھائی کو بھائی کا دشمن بنائے۔ ایسی ہر کتاب کو پڑھنے سے گریز کریں جو دوسروں سے نفرت کا درس دے۔ ایسے ہر شخص سے دورہوجائیں جو بولے تو تفرقے اور دشمنی کی بات کرے اور بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دے۔ہمارا حال اور ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اسلام کے بنیادی فرائض بالکل واضح ہیں، ان سے انحراف دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے۔ بنیادی فرائض واحکامات کے علاوہ غور و فکر کریں اور آنکھیں بند کر کے یقین نہ کریں۔
تبصرہ لکھیے