جنابِ عمر عبداللہ صاحب!
السلام علیکم
آپ محترم کو ‘ این سی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ ‘ انڈیاالائنس کے قائدین اور قانون ساز اسمبلی کے نومنتخبہ ارکان کو الیکشن میں قابل قدر کامیابی پردل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد اور نیک خواہشات کا نذرانہ
ا س دعا کے ساتھ کہ بارگاہ ِ ایزدی سے آپ سب کو جموں کشمیر کی ماند پڑی رونقیں دوبارہ بحال کرنے کی توفیق اور کامیابی ملے۔
نامزد وزیراعلیٰ صاحب:
آپ کو یہ بتانے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں کہ الیکشن میں نہ جیت کوئی مستقل چیز ہوتی ہے کہ ہمیشہ کسی فرد یا جماعت کی مقدر بنی رہے ‘ نہ ہار کوئی ناقابلِ تغیر حالت ہوتی ہے کہ اس کا ڈ سا ہو اہر بار فتح و
کامرانی سے لازماً محروم رہے ۔ اس لیے میرے ادنیٰ خیال میں کسی کو اپنی جیت پر اِترانا چاہیے نہ کسی کو اپنی ہار سے نااُمید و مایوس ہونا چاہیے۔ آج تک سیاسی دنیا میں یہی چلن دیکھا گیا کہ کبھی کسی اُمیدوار یا جماعت کا اقبال عروج پر رہتا ہے ‘کبھی کسی کا مقدر زوال وذلت کی زنجیروں میں جکڑ جاتا ہے۔ عام طور پر سیاسی عروج وزوال کی کہانیاں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ ایسی کہانیاں زیادہ تر حالات وحوادث کی کھیتی میں اُگتی ہیں ‘ ضروری نہیں کہ اس فصل کی کٹائیاں کسی لگے بندھے موسم کی پابند ہوں‘ بسااوقات زمانے کے اُلٹ پھیر اور اتفاقی حادثات کی کرم فرمائی سے بھی ان کا بیچ خود بخود پلاٹ ‘ کرداراور کلائمکس میں ڈھل کر کھڑی سیاسی فصل کی شکل اختیارکرتا ہے ‘ پھر پرانت پرانت کے سیاست دان خالص اپنے مفاد کے لئےپکی فصل کاٹتے ہیں ۔ وہ رائے عامہ کی سیلزمین شپ کے ذریعےا پنی مارکیٹنگ کہیں نعرہ بازی کے شور وغوغا سے ‘ کہیں جملہ بازیوں کے ہنر سے ‘ کہیں مکمل خاموشی کے پردوں میں کر گزرتے ہیں۔ یہ ایک محنت طلب ذہنی مزدوری ہوتی ہے جو کبھی منافع بخش ثابت ہوتی ہے اور کبھی نقصان وہ۔ انتخابی سیاست کی کاشت کاری بھی زیادہ تر مسائل اور وعدے وعید کی اسی بوائی کٹائی کے چکرسے مشروط ہوتی ہے ۔ میری سمجھ میں آپ کی تازہ شاندار وجاندار کامیابی اگر اسی بوائی کٹائی کے زاویہ ٔ نگاہ سے دیکھی جائے تو شاید یہ کہنا قرین انصاف ہوگا کہ نیشنل کانفرنس سمیت کشمیرکی کم وبیش تمام علاقائی پارٹیوں نے انتخابی وعدوں کے اپنے اپنے باورچی خانے میں آنجہانی دفعہ ۳۷۰ کے فصل سے خیالی پکوان بنانے اور قیاسی دسترخوان بچھانے کا خوب چرچاکیا ‘ پھر صلائے عام دی آیئے ہمارے حق میں ووٹ کی پرچی ڈال کر اس خلائی خوان کا مزا لیجئے۔ سیاسی پکوانوں کےاس غل غپاڑے میں کشمیر ‘ پیر پنچال اور وادی ٔ چناب کی زیادہ تر مسلم آبادی نے صرف این سی کے منشوری عہدنامے پر مکمل اعتماد کیااور یہ خوش اُمیدی قائم کی کہ صرف آپ ان کی’’ کھوئی ہوئی شناخت کی بازیابی‘‘ کر نے کےاہل ہیں ۔ حالانکہ آپ کے والد گرامی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پولنگ سے قبل ہی صاف کردیا تھا کہ یہ کام راتوں رات ہونے والانہیں بلکہ ہمیں سوسال تک ریاست کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لئے اسی طرح مسلسل کشمکش کرنا ہوگی جیسے اسے ختم کر نے والوں نے پچاس ساٹھ برس تک جہد ِمسلسل کی ۔ بالفاظ دیگر یہ معاملہ طویل مدتی سیاسی‘ مذاکراتی اور قانونی جدوجہد پر محیط ہے جس کا فوری ثمرہ ملنا بعیدازامکان ہے۔ لوگوں نے اُن کی بات من وعن مان لی۔ اس کے بالکل اُلٹ میں جموں کے ہندو بھائیوں میں دفعہ ۳۷۰ کی واپسی جیساکوئی نعرہ تھاہی نہیں اور انہوں نے بی جے پی کے حق میں اپناووٹ ڈالا۔ بالفاظ دیگر کشمیر اور جموں میں ایک سیاسی دراڑ انتخابی نتائج کی صورت میں متشکل ہوئی ۔عام آدمی پارٹی ہریانہ میں خالی ہاتھ رہی مگر ڈودہ میں معرج ملک کی صورت میں اس نے اپنا کھاتہ کھولا۔ یہ ہے انتخابی سیاست کی ستم ظریفیاں!!!
جناب عالی !
یاد کیجئے ستمبر۲۰۱۴کے اُن ڈراؤنے ایام کو جب کشمیر کے طول وعرض میں تباہ کن سیلاب آیا ہواتھا۔یہ سیلا ب واقعی ہم سب پر نامہربان قدرت کی قہر مانی تھی۔اس نے جہاں وادیٔ کشمیر پر نحوست کا بینڈ بجادیا‘ وہی حالات وحوادث کی تاک میں بیٹھی پی ڈی پی کو کشمیر کی سیلاب زدہ کھیتی میں اپنی سیاسی کاشت کاری کا بھر پور حوصلہ بھی دیا ۔ تاریخ کا یہ بھیانک سیلاب ان دنوں اہل ِ کشمیر کے رواں رواں پر بھاری پڑ رہاتھا مگر اپوزیشن پی ڈی پی نے موقع موسم اوردستور دیکھ کر آپ جناب کی’’ عدم موجودگی‘‘ پر واویلا کرکے رائے عامہ اپنے حق میں کر نے کا بیڑہ اُٹھایا تاکہ کشمیری عوام کا بھلاہو نہ ہو مگر اس کی ہم نوائی کا گراف بڑھ سکے اور نیشنل کانفرنس کی مقبولیت پر بٹہ لگے ۔ ا س کا تیر نشانے پر لگا۔ دس سال پرانی اس سیاسی کہانی کا حوالہ دینے کا مقصد یہ بتاناہے کہ کبھی کبھی اَن دیکھے حالات اورحادثات وہ کام کر جاتے ہیں جن کے مقابلے میں سالوں طویل بڑے بڑے منظم منصوبے بے نتیجہ رہتے ہیں۔ اُن دنوں اُدھرآپ کی وزارت ِاعلیٰ کی مدت قریب الاختتام تھی ‘ اِ دھر لگ بھگ سوسال بعدکشمیرکاکوہ دمن ایک تباہ کن سیلاب میں ڈوبا ہواتھا ‘ جہلم سمیت تمام ندی نالوں اور جھیلوں پر بدترین سیلاب قابض تھا ِ‘ انسان غرقآب ہورہے تھے‘ بستیاں اُجڑ رہی تھیں ‘گھر گر رہے تھے‘ لوگ خوردو نوش کی اشیا سے محروم ہورہے تھے۔ ایسے ہنگامہ خیز حالات میں لوگ امداد باہمی کے تحت اپنوں اور غیروں کی جانیں بچانے میں رضاکارانہ طور میدان ِ عمل میں کودے ہوئے تھے مگر سرکاری ڈزاسٹر منیجمنٹ کا سارا نظام درہم برہم ہوچکا تھا ‘ ریاستی انتظامیہ بوجوہ حالات کے سامنے بے دست وپا ہوکر رہ گئی تھی ‘ اس کے کل پُرزے نظروں سے اوجھل تھے‘ نتیجہ یہ کہ حکومتی سطح پر بچاؤ کارروائیوں میں عدم فعالیت کا تاثر عوامی غم وغصے کو تقویت دےگیا ۔ وزیراعلیٰ ہونے کے ناطے اس ساری سچویشن کا ٹھیکرا آپ کے سر پھوڑا گیا۔ چونکہ اتفاق سے یہ الیکشن کا سال تھا اورanti - incumbancy کے علاوہ گھمبیر سیلابی صورت حال میں نیشنل کانفرنس کی سیاسی شبیہ داغ دار کر نے میں پی ڈی پی اپنی معاندانہ کاوشوں کی کاشت جاری رکھے ہوئی تھی۔ آپ بھی اس تلخ حقیقت سے کچھ غافل نہ تھے۔ کشمیر میں سیلاب کی وسیع ترین تباہ کاریوں کے پس منظر میں آپ نے اسمبلی انتخابات کو بجا طور کچھ ماہ کی تاخیر سے کرنے کا معقول موقف اپنا یا تاکہ حکومت کی توجہ عوامی راحت رسانی کے ٹھوس اقدامات پر مرکوز رہے ۔ ایک معقول وقفے کا جواز بنتاتھا تاکہ سیلاب متاثرین مسائل اور غموں کا بوجھ ہلکا کر کے آرام سے پولنگ میں شریک وسہیم ہوں مگر دلی میں آپ کے اس موقف کی پذیرائی نہ ہوئی۔ آپ کی حریف پی ڈی پی لوہے کو گرم دیکھ کر اپنا ہتھوڑا مارنے کے فراق میں تھی ‘ وہ اس بات کی وکالت کرنے لگی کہ الیکشن کسی قیمت پر بھی موخر نہ کئے جائیں ۔ اس پارٹی نے سیلابی ریلوں کی نذر ہوئے لوگوں کے جذباتی نفسیاتی اور معاشی دھچکوں کو درکنار کر کے الیکشن وقت پر کا راگ الاپنا جاری رکھا‘ یہاں تک کہ الیکشن کمیشن نے ریاستی اسمبلی الیکشن کا اعلان کیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ جموں کشمیر اسمبلی میں آپ کی نشستیں کم ہوئیں ‘ پی ڈی پی بتیس سیٹیں لے کر اپنا پلڑہ بھاری کر نے میں کامیاب ہوئی۔جموں میں بھاجپا کو پہلی بار پچیس سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ آپ کی پارٹی نے رزلٹ آنے کے بعد کوئی دیر کئے بغیر کشمیریوں کے جذبات کے احترام میں مفتی محمد سعید کو اپنی حمایت کی غیر مشروط پیش کش کی تاکہ بی جے پی کو ریاستی حکومت کا حصہ بنےسے باز رکھا جاسکے مگر این سی کی اَن سنی ہوئی ‘ساگر صاحب نے حکومت سے باہر رہ کر حمایت کی آفر بھی دی ‘ پی ڈی پی نے اسے شان ِ بے نیازی سے ٹھکرایا۔ پھر ریاست میں کیا کیا ہو ا‘ اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ آخر ش بی جے پی نےمحبوبہ مفتی صاحبہ کی حمایت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ‘ ریاست میں گورنر راج نافذ کیا گیا‘ چلتے چلتے ۵؍اگست ۲۰۱۹ کی صبح کو دفعہ ۳۷۰ کی تنسیخ کا پارلیمنٹ میں ایک تاریخ ساز فیصلہ لیا گیا ۔ آگے کی کہانی کی آپ کے ساتھ ساری ساتھ دنیاعینی گواہ ہے ۔
آج آپ کے انتخابی اتحاد کو کشمیر نے سر آنکھوں پر بٹھایا اور کسی حد تک جموں کے پیر پنچال اور چناب ویلی نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ آپ کو جو بھاری عوامی منڈیٹ ملا ہے‘ اسے آپ کارگاہِ قدرت کی جانب سےایک بلیغ اشارہ سمجھیں کہ ایک بار پھر آپ آزمائش کے پُل ِصراط پر لاکھڑے کئے گئے ہیں تاکہ یہ دیکھا جائے کہ آپ جموں کشمیر کی نیا پار لگاتے ہیں یا صرف اقتدار کے مزے لوٹ کر وہی پٹ کتھا لکھ ڈالتے ہیں جو آج تک یہاں کے اکثر حکمرانوں نے لکھ لکھ کر اپنی عمریں تخت وتاج کے عیش کدے میں گزاریں اور عوام کے دکھ درد بانٹنے یا اُن کے چھوٹے بڑے مسائل حل کر نے سے دانستہ اعراض کیا۔ میری ذاتی رائے میں آپ چونکہ گزشتہ دس سال تک کرسی سے باہر رہ کر زمانے کا بہت سارا سردگرم دیکھ چکے ہیں‘ اس لئے اُمید ہے آپ ا س بار عوام کے زخموں اور جذبات کا پاس ولحاظ کرکے ان کے اعتماد کی کشتی کو کبھی بھی ڈگمگا نے نہیں دیں گے ‘ آپ اُن کی معصوم توقعات پرپورا اُترنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے ‘ بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ تاریخ کی نگاہوں کو اس بدنصیب سرزمین کی رہبری اور رفاقت کے لئے جس قدر آور رہنما دیکھنے کی دہائیوں سے حسرت ہے‘وہ آپ اپنی بے تکان محنتوں اور مثالی سیاست دانی سے دیکھنا نصیب کریں گے اور جموں کشمیر میں یکساں ترقیاتی اور جذباتی جڑاؤ کا دور دورہ کریں گے۔
جناب والا!
یہ ایک کھلاراز ہے کہ اسمبلی انتخابات میں آپ نے کانگریس سے مل کر جو متاثرکن کارکردگی دکھائی ‘ اُ س کا توڑ کم ازکم کشمیر کی حدود میں بی جے پی‘ پی ڈی پی‘ اپنی پارٹی‘ پیپلز پارٹی‘ آزاد پروگریسیوڈیموکریٹک پارٹی‘ عوامی اتحاد پارٹی‘ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں‘ ووٹ کٹوا پراکسی کہلانے والے کنڈیٹوں کالشکر وغیرہم مل کر بھی نہ کرسکے‘ کیونکہ عوام کی ناقابلِ شکست قوت آپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ یاد رکھیے جن لوگوں نے این سی کو اس بار اپنے اعتماد اور یقین کے قابل سمجھا ‘اُن میں آپ کی پارٹی کے جان نثارورکر اور دیرینہ ووٹر ہی شامل نہیں تھے بلکہ وہ خاموش اکثریت بھی آپ کی ہم نوائی اور حمایت میں پیش پیش رہی جو جموںکشمیر میں زور زبردستی کے کلچر‘ سیاسی گھٹن‘ تعلیم یافتہ بے روزگاری ‘ مہنگائی‘ کساد بازاری‘ رشوت ستانی‘ بدنظمی ‘ منشیات کی بدترین وبا‘ بلدیاتی مسائل کے انبار سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ لوگ فی گھر دو دوسو یونٹ مفت بجلی کی فراہمی کے بشمول برقی رو کی بے ترتیب اور غیر اعلانیہ کٹوتی سے نجات دلانے والے وعدے سے بھی آپ کی جانب راغب ہوئے۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔مزیدبرآں عوام آپ سے اُمید رکھتے ہیں کہ آپ کی سرکردگی میں کشمیریوں کو مسلکی پھوٹ اورخلفشار ی خانوں میں بانٹ کر اُنہیں آپس میں بلاوجہ لڑوانے کی شرپسندانہ سازشوں کا خاتمہ ہوگا ‘ نیز لوگ چاہتے ہیں کہ آپ یہاں کی جواں نسل کو مزاریں اور جیلیں آبادکر نے سے روکتے ہوئے ایک ایسا نیا کشمیر بنانےکی جانب راغب کریں گے‘ جہاں نوخیز نسل کے لئے اسکولوں اور کالجوں کاجال بچھا ہو ‘ وہ زندگی میں کچھ اچھا کرنے کے قابل بن جائے ‘ عوام کی خواہش ہے آپ خالی
پڑ ی سر کاری ونیم سرکاری ملازمتوں پر رُکی پڑیں بھرتیاں کروائیں گے‘ اور ساتھ ہی سیاحتی اور کاروباری ترقیوں کے نئے امکانات تلاشنے میں بھر پور سیاسی اور انتظامی قیادت کر یں گے ۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ پُر آشوب حالات میں بھاری بھرکم عوامی منڈیٹ نے آپ کے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری ڈالی ہے کہ جو لوگ جرم ِ بے گناہی کی پاداش میں ‘ یا کسی ہلکی اور قابل ِ معافی خطا غلطی لغزش یا معمولی نوعیت کے جرم میں جیلیں کاٹ رہے ہیں ‘ انہیں از راہ ِ انسانیت جیل کی کال کوٹھریوں سے چھٹکارادلائیں ‘ جن کی پولیس ویری فکیشن فائیلیں متعلقہ دفاتر میں سالوں سے دُھول چاٹ رہی ہیں ‘ اُن پرجلد کارروائی کا بندوبست کرائیں ‘ جن کے پاسپورٹ بے اصل شک وشبہ یاغلط بیانی کی بنا پرزیرالتوا‘ معطل یا منسوخ کئے گئے ہیں ‘ آپ اُن کے کیسوں پر ہمدردانہ نظرثانی کروائیں گے۔ایسے سارے معاملوں میں ایسی تازہ دم ‘ انسانیت نواز اور امن پرورانہ پالیسی اختیار کی جائے کہ کسی شہری کی زندگی خواہ مخواہ اجیرن ہو کر نہ رہے ۔ آپ کی انتخابی جیت کی وزیراعظم مودی جی نے بھی بہت سراہنا کی ہے ۔ اُمید کی جانی چاہیے ان کے تہنیتی بیان میں بین السطور یہ پیغام چھپاہے کہ جموں کشمیر کے وسیع ترمفا دمیں مرکز کی طرف سے نئی یوٹی حکومت سے نرمی‘ معاملہ فہمی اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے گا ۔ لوگ دل سے چاہتے ہیں کہ آپ کی سربراہی میں دلی سے بے معنی محاذ آرائی کے بجائے دوطرفہ دوستانہ افہام وتفہیم کو تقویت ملے جیسے کہ ہمسایہ ملکوں کے تئیں بھی سرد مہری کی برف پگھلنے لگی ہے ۔ دلی کے ساتھ محاذ آرائی کشمیر کے لئے نہ ماضی میں کسی صورت مفید ثابت ہوئی اور نہ مستقبل میں اس سے خیر یا بھلائی متوقع ہے ۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دل سے دل جوڑنا وقت کی پکار ہے ۔
بایں ہمہ سٹیٹ ہُڈ کی بحالی آپ کی اولین سیاسی ترجیح ہونی چاہیے۔ ا س سلسلے میں وزیرداخلہ امیت شا اور پرائم منسٹر مودی جی کے متعدد وعدے اور سپریم کورٹ کی ہدایات آپ کے پارٹی منشور سے مکمل طور ہم آہنگ ہیں اور قوی امکان ہے یہ معاملہ جلد ہی حل ہوگا۔ البتہ آپ کو جموں صوبے کی اہم ترین سیاسی قوت بی جے پی کی صورت میں اپوزیشن کے مضبوط قلعے کو بھی بہ دلائل قائل کرکے اعتماد میں لینا ہوگا کہ کشمیر کے دل کو دلی سے ملانے کے مودی فلسفے کو عملانے کے ضمن میں سٹیٹ ہڈ کی بحالی مرکز کی طرف سے اعتماد سازی کا اہم ترین اقدام ہوگا ۔ یہ آئینی مشن جموں کشمیر کے عوام کے لئے مشترکہ طور بہتر ہے ۔ اس کے علاوہ دربار مو کے نظام کو پھر سے رائج کر واکے جموں کے عوامی اور کاروباری حلقوں کے تئیں آپ کا حساس ہونا زمانے کی اذان ہے ۔
میرا یہ مکتوب کئی اور باتیں قلم بند کر نے کا متقاضی ہے مگر طوالت آڑے آرہی ہے ۔ البتہ یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ جس طرح گاندربل میں اپنے کاغذات نامزدگی داخل کر تے ہوئے آپ نے اپنی ٹوپی کا واسطہ دے کر لوگوں سے اپیل کی کہ اس کی حفاطت کریں ‘ اورلوگوں نے آپ کی مبارک ٹوپی کی جگہ آپ کو تاجداری کا شرف بخشا۔ اب آپ کو بھی اپنے ووٹروں اور جموں کشمیر میں رہنے والے تمام طبقات کی ٹوپیوں اور سرچادروں کی تعظیم کر تے ہوئے آنے والے پانچ سال میں جموں کشمیر کو امن و آشتی کا گہوار ‘ تعمیروترقی کا مرکز اور بقائے باہم کی کامیاب تجربہ گاہ بنانے میں رات دن کام کر کے شیر کشمیر ثانی ہونے کا سکہ دلوں میں بٹھانا ہو گا۔
تبصرہ لکھیے