سامنے ٹی وی پر ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کی تصاویر چل رہی تھیں جن میں بقول ایران کے 200 سے زائد راکٹ اور میزائل فائر کیے گئے۔
یہ ایک اداس کر دینے والا منظر تھا۔ پچھلی دفعہ ایران نے شام میں اپنے سفارت خانے پر حملے کے جواب میں ایسا ہی حملہ کیا تھا۔ تب بھی اسرائیل کا کچھ نہ ہوا، اب بھی شاید ایسا ہی ہو۔ تاہم، اداسی کی وجہ یہ نہیں تھی۔ پریشانی اس بات پہ تھی کہ یہ بات ظاہر ہو گئی کہ ایران کے پاس اسرائیل کی کاروائیوں کا کوئی مؤثر جواب نہیں۔ یاد رہے اپ کی بار مبینہ طور پر اسماعیل ہانیہ اور سید حسن نصر اللہ کا بدلہ لیا جانا تھا۔ اب تک ایران کی طرف سے اس معاملے میں مکمل خاموشی تھی اور اسے حکمت اور پلاننگ قرار دیا جا رہا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ شاید ایران اب بھی کوئی جوابی کاروائی نہ کرتا لیکن ایرانی صدر کے بظاہر ایک غیر محتاط بیان کی وجہ سے ایران کو یہ حملہ کرنا پڑا، جس نے ایران کی بے بسی اور اسرائیل کے مشرق وسطی کا سپر پاور ہونے کے خواب کو قریب قریب پورا کر دیا۔ ایرانی صدر نے کہا تھا، ہمیں یہ کہا گیا کہ کہ اسماعیل ہانیہ کا بدلہ نہ لیا جائے تو جنگ بندی ہو سکتی ہے۔ گویا انہوں نے یہ بات تسلیم کر لی کہ ایران اپنے تمام تر دعووں اور وعدوں کے باوجود اسماعیل خانہ کی قتل کا بدلہ لینے سے پیچھے ہٹ چکا تھا۔ اس بات نے ایران کی ساکھ کو خاطر خواہ دھچکہ پہنچایا، خاص طور پر ان حلقوں میں جو ایران کے ایماء پر مختلف محاذوں پر سرگرم عمل ہیں۔ حسن نصر اللہ صاحب کی شہادت نے ایران پر دباؤ بہت بڑھا دیا تھا جو صدر کے اس بیان کے بعد اور بھی زیادہ ہو گیا اور ایران کو بادی النظر میں نسبتاً عجلت میں یہ حملہ کرنا پڑا۔ اس حملہ کے خدو خال سے لگتا ہے اس میں نہ تو خاص پلاننگ کی گئی اور نہ ہی اس کے کوئی دورس تزویراتی اہداف تھے۔ بلکہ اس سے نہ صرف یہ نقصان ہؤا کہ ایران کی اسرائیل کے مقابل موجودہ جنگی صلاحیت سب پر آشکار ہو گئی بلکہ اسرائیل کو پھر سے "Right to Retaliate" بھی مل گیا.
یہ مشرقِ وسطی میں جاری جیو پالیٹکس کے تناظر میں ایک حوصلہ شکن صورتحال ہے۔ مشرق وسطی میں ایران وہ اخری ملک رہا جو کسی نہ کسی حد تک اسرائیل کے توسیعی عزائم کا مقابلہ کر رہا تھا۔ بادی نظر میں یہ سلسلہ بھی ایرانی صلاحیت کی بند مُٹھی کھل جانے کے بعد اب تقریباً تمام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس میں سب سے بڑا نقصان ان قوتوں گروہوں اور افراد کا ہوا جو ایران کے لیے جنگی میدان سنبھالے ہوئے تھے ان سب کو اس بات کا علم ہو گیا کہ وقت پڑنے پر ایران نہ صرف ان کا دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ اپنے قومی مفاد کے لیے ان کی قربانیوں کو یکسر نظر انداز بھی کر سکتا ہے۔
پچھلے چند ماہ ایران کے لیے بہت سخت رہے۔ برسوں پر محیط ان کی محنت کو اسرائیل نے مسمار کر دیا۔ ان کے انٹیلیجنس نیٹ ورک کے لوگ اور بہت سے اہم حلیف چن چن کر مار دیے گئے، اور یہ سب کچھ اسرائیل نے کسی بڑے جنگی معرکے کے بغیر کیا۔ اسرائیل کے ان حملوں نے ایران کو تو نقصان پہنچایا ہی لیکن عرب دنیا کی تو چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ اپنے جاسوسی نیٹ ورک کی بدولت اسرائیل نے جیسے اپنے اہداف کو راستے سے ہٹایا وہ حیران کن تھا لیکن دل دہلا دینے والی بات یہ رہی کہ سب سے زیادہ جاسوس اسے اس ملک میں حاصل رہے جس سے اس کی براہ راست مخاصمت تھی۔ عرب دنیا میں یہ بات بہت تشویش سے دیکھی گئی ہوگی کہ اگر ایران میں اس کے اپنے شہری اسرائیل کے جاسوسوں کی صورت اتنی اعلی سطح پر موجود ہیں تو خود عرب دنیا میں کیا حال ہوگا۔
ایران اپنی صلاحیت سے قطع نظر مشرق وسطی میں اسرائیل مخالف آواز رہا ہے۔ عرب ممالک تو پہلے ہی اسرائیل کے سامنے نیم سجدے کی حالت میں ہیں۔ اسرائیل نے اپنی کاروائیوں سے ان کی تو کمر ہی توڑ دی۔ اتنے نقصانات اٹھا کر ایران نے کم ازکم ان حلقوں کا پروپیگنڈہ جھوٹ ثابت کر دیا جو ایران اسرائیل چپقلش کو "نورا کشتی" کہنے پر مصر رہتے تھے۔
اسرائیل اس خطے کے لیے عصرِ حاضر کا بخت نصر اور ٹائٹس رومی بننے کی راہ پر ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ مشرق وسطی کے ممالک اور اپنے اپ کو مسلمان کہنے والے دیگر ممالک کس راہ پر ہیں۔ کیا وہ اپنے سامنے اتی اس یقینی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی بنا سکیں گے، یا اس سب سے بے نیاز اب بھی صرف مسلک اور فقہ کی جنگیں ہی لڑتے رہیں گے۔
تبصرہ لکھیے