جموں کشمیر میں تین مراحل پرمشتمل اسمبلی انتخابات کا پہلاپڑاؤ ۱۸؍ ستمبر کو سخت حفاطتی بندوبست کے درمیان پُرامن طریقے اور خوش گوار ماحول میں طے ہو ا۔ پہلے مرحلے پر وادی ٔ کشمیر اور جموں ڈویژن کی کل ملاکر۲۴ سیٹوں کے لئے ۲۱۹؍اُمیدواروں نے قسمت آزمائی کی ۔ اس بار نیشنل کانفرنس ۔ کانگریس الائنس کے علاوہ پی ڈی پی ‘ پیپلز کانفرنس‘ اپنی پارٹی‘ عوامی اتحاد پارٹی ‘ کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ ‘آزاد ڈیموکریٹک پارٹی اور روایت سے ہٹ کر ایک کثیر تعداد میں آزاد اُمیدوار اسمبلی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ۱۹۸۷ کے بعد بدنام زمانہ الیکشن دھاندلیوں کے بعد یہ پہلی بار ہے جب ممنوعہ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ امیدوار بھی پلوامہ‘ کولگام‘ شوپیان اور دیو سر میں فسٹ فیز کی انتخابی دنگل میں شریک رہے۔ووٹروں کی کل تعداد ۲۳؍ لاکھ تھی ‘ پولنگ کی شرح 59 فیصد رہی ۔۳۲۷۶ پولنگ مراکز کی طرف رُ خ کر کے رائے دہندگان نے اپنے جمہوری حق کا بڑھ چڑھ کر استعمال کیا ۔ مئی کے پارلیمانی پولنگ کی طرح اس بار بھی مقامی لوگوں میں اسمبلی الیکشن کے تعلق سے کافی جوش وخروش دیکھا گیا ۔ یہ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کو جموں کشمیر کو آئین ِ ہند میں دئے گئےخصوصی درجے کی تنسیخ کے بعد لوگوں کی پہلی وسیع الاثر سیاسی پیش قدمی ہے ۔ پہلے مرحلے کی پولنگ میں انڈیا الائنس سمیت بی جے پی اور پی ڈی پی وغیرہ کے کئی سابقہ ایم ایل ایز کی قسمت کا فیصلہ اس وقت ووٹنگ مشینوں میں محفوظ ہے ۔انتخابی عمل کی شروعات کا نیک شگون یہ بھی ہے کہ پولنگ کے دوران کہیں سے کسی ناخوشگوار واقعے کی کوئی اطلاع نہ آئی۔ شاید عوام الناس میں بالغ نظری‘ سیاسی شعور اور جمہوریت نوازی کی اہمیت سمجھ میں آگئی ۔ ا لیکشن عمل میں عوام کی غیر معمولی دلچسپی سے لگتا ہے کہ عام آدمی سمجھتا ہے حق رائے دہی کی قدروقیمت کیا ہے ‘ وہ کس طرح اس حق کا صحیح استعمال کرکے اپنی تقدیر آپ بنانے کامجاز ہوسکتا ہے۔ مثبت سوچ کی اسی نہج کے چلتے اب کی بار لوگ اپنے حق ِرائے دہی کو کافی اہمیت دے رہےہیں ۔ اگرچہ الیکشن مہم میں تادیر گہماگہمی کی جگہ سستی پائی گئی مگر انجینئر رشید کی تہاڑ جیل سے مختصرمدت کی رہائی سے شہ سرخیوں کا درجۂ حرارت بہت بڑھ گیا ۔ تاہم میری کوتاہ بین نگاہ میں تادم تحریر کسی خاص پارٹی یا کسی مخصوص آزاد اُمیدوار کے حق میں کوئی انتخابی لہر چل رہی ہو‘ ایسا تاثر انتخابی میدان کے مناظر سے اخذ نہیں ہو رہا۔ البتہ مبصرین کا قیاس ہے کہ عام ووٹروں کا میلان انڈیا الائنس کی طرف کچھ زیادہ ہے۔ پھر بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ عام ووٹر پولنگ بُوتھ کے اندر کس من پسند جماعت کے پلڑے میں اپنے اعتماد کا وزن ڈال دے گا ‘ کس آزاد اُمیدوار کے سر اپنی بے محابہ حمایت کا سہرا باندھ لے گا ۔ یہ ایک سربستہ راز ہے جسے ۸؍ اکتوبر کو ای وی ایم مشینیں کچھ ہی گھنٹوں کے اندر نتائج کی صورت میں اُگل دیں گی ۔ فی الحال ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں سیاست کی ہانڈی میں بہت سارے انتخابی منشوروں کے کاغذی خواب پک رہے ہیں ‘ بہت سارے خوش نما وعدوں کے خیالی جنت بن رہے ہیں‘ بہت سارےنعروں اور نغموں کا بے ہنگم شور سیاسی رسوئی میں بھاپ بن کر اِدھر اُدھر پھیل رہاہے۔ بایں ہمہ بہت تعجب وتاسف کے ساتھ لکھ رہاہوں کہ کئی ایک لیڈران کے پاس عوام کو دینےکے لئے کوئی اچھا پروگرام یا نقشِ راہ ہے ہی نہیں‘ اس لئے تلخ نوائیوں ‘ طعنہ بازیوں ‘ الزام تراشیوں ‘ دشنام طرازیوں ‘ لچر باتوں اورناشائستہ تقریروں کا چُورن انتخابی رسوئی میں لاکر خود اپنا سیاسی پکوان بے لطف ہونے کا پتہ دیتے ہیں ۔ جہاں بعض تجزیہ کار منقسم منڈیٹ اور معلق ا سمبلی کی پیش گوئی کر رہے ہیں‘ وہیں کچھ مبصرین چمتکاروں کی قصہ گوئیاں کر رہے ہیں ۔
ہماری سیاسی قیادت کوئی کرہ ٔ ارض سے کٹی ہوئی مخلوق نہیں کہ نہ جانتی ہو کہ موجودہ حالات میں اُن پر عوام کے وسیع تر مفا د میں بہبود وبھلائی کے حوالے سے کیا سیاسی فرائض عائد ہوتے ہیں ۔ وہ صد فی صدجانتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال سے یہاں منتخب حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ایک گھمبیر سیاسی خلا قائم رہا اور اس خلا میں زمینی حقیقتوں سےنابلد افسر شاہی کا راج تاج رہا جس سے عوام کا کوئی بھلا نہ ہونا اور حالات کے منہ زور گھوڑے کی لگام کسی کی پکڑ میں آنا قابل ِ فہم ہے۔ ہمارے ان نباض وتجربہ کار سیاسی لیڈروں کو آپ اور ہم سے زیادہ اس حقیقت کا ادراک ہے کہ پچھلے پانچ برس سے غیر محدودطاقت سے لیس حالات کاتیزگام گھوڑا جموں کشمیر میں بلاروک ٹوک اپنی من مانیاں کرتارہا‘عام آدمی بے دست و پا ہوتارہا ‘ عدم شنوائی کے تیر سہتے ہوئے سیاسی و معاشی طور حاشیئے پر دھکیلے جاتا رہا‘ دل کی آواز خوف کے لاکھ پردوں میں چھپانےپر کس کس عنوان سے مجبور ہوتا رہا۔ یہ ساری رام کہانی سیاسی قائدین اور ہمارے اہل دانش سمیت عوام پر دن کے اُجالے کی طرح عیاں وبیاںہے ۔ بہر حال اسمبلی الیکشن نے عوام میں یہ ایک اُمید جگائی ہے کہ اب کوئی اپنا ہمدرد اور ہم زبان عوامی نمائندہ بن کرایوان میں موجودہوگا جو ان کی بپتا سن لے گا‘ اُن کے دُکھ درد بانٹے کا حوصلہ دکھائے گا ‘ اُن کے مسائل کا ازالہ کرے گا ‘ اُنہیں علی الخصوص بےروزگاری‘ مہنگائی ‘ سماجی نابرابری ‘ منشیات اور اخلاقی مفاسد کے تھپیڑوں سے نجات دلائےگا‘ مگر بصد افسوس یہ بات ہم جموں کشمیر کی بڑی سیاسی پارٹیوں اور اُن کے بلند قامت سیاسی قائدین کے بارے میں نہیں کہہ سکتے ہیں کہ آیا وہ بھی الیکشن کے حوالے سے عوام کی اس صحت مندسوچ سے کوئی ہم آہنگی رکھتے ہیں ۔ نہیں قطعاً نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو اُن کے درمیان ا س وقت اتحاد واتفاق کی مشعل فروزاں ہوتی اور اُن کی تمام تر دلچسپیوں اور کدوکاوش کی تان اپنے سیاسی مخالفین اور انتخابی رقیبوں کو نیچا دکھا کر گدی نشین ہونے پر نہ ٹوٹتی ‘وہ اپنی ذاتی ترجیحات کے حصار سے باہرآ کر بے لوث عوامی خدمت کے لئے اتحاد کی رسی کو تھامنے سے گریزاں نہ ہوتے۔ شاید قدرت کو ہمارے ان کرم فرما لیڈروں کے سیاسی فہم وتدبر کی آزمائش کے علاوہ عوامی خدمت کے ان کے زبانی کلامی دعوؤں کی قلعی کھولنا مطلوب ہے تاکہ دنیا سر کی آنکھوں سے دیکھ کر خود فیصلہ کرے کہ یہاں کی بڑی پارٹیاں بڑی سوچ اور کشادہ دلی کی مالک ہیں یانہیں۔
شاید ہی کوئی اس منہ بولتی حقیقت سےا نکار کرسکتاہے کہ تاریخ کےموجودہ نازک موڑ پر کشمیر کے بڑی بڑی سیاسی ہستیاں اسمبلی الیکشن کو جموں کشمیر عوام کے جمہوری حقوق کی پاسداری اور کھوئے ہوئے سیاسی وقار کی بازیابی سے زیادہ اپنے ہوس ِ اقتدار کی تشفی کا سامان بنائے ہوئے ہیں ‘ یہ لوگ ووٹنگ کو صرف اپنی سیاسی دوکانیں چمکانےکا گورکھ دھندا سمجھ کر آگے بڑھ رہے ہیں‘ ایسے میں قوم کی ڈوبتی نیا کو منجدھار سے نکا ل باہر کرنے میں اُن سے کو ئی کارآمد حکمت عملی وضع ہونا پتھروں میں زعفران کے پھول ڈھونڈنے کے برابرہوگا۔ انتخابات میں ان کی کارکردگی جیسی بھی رہے مگر کم ازکم قدرت کے کڑے امتحان میں بڑی جماعتوں کے بڑے قائدین فی الحال فیل ہوتے نظرآ رہے ہیں ۔ اُن سے گپ کار سیاسی اتحاد کے ننھے پودے کی آبیاری کا حق بھی ادا نہ ہوا‘ انہیں پری پولنگ انتخابی اتحادسے کشمیریوں کو بانت بانت کی بولیوں اور پرانت پرانت کی ٹولیوں میں بٹنے کی بجائے ایک ہی مشترکہ منزل کی طرف رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینے کی توفیق بھی نہ ملی۔
جموں کشمیر کے تمام بہی خواہوں کا ماننا ہے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کے پس منظر میں جموں کشمیر کے مختلف ا لخیال سیاسی قائدین کو چاہیے تھا کہ اسمبلی الیکشن کواپنی زخمی ا نا ؤں ‘ شخصیاتی ٹکراؤں اور جماعتی عصبیتوں کی نذر نہ کرتے بلکہ زخم زخم عوام کے کامیاب مستقبل کی پلاننگ
کر نے کے لئے ایک دوسرے کی جانب مخلصانہ تعاون ا وراعتماد کا ہاتھ بڑھاتے۔ ان کے لئے لداخیوں کے دل کی دھڑکن بنے ماحولیاتی ایکٹویسٹ صونم وانگچک کی مثال ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے‘ جنہوں نے خلوص واستقامت اور ایثارسے لیس ہوکر لیہہ کی ایل اے بی اور کرگل کی کرگل ڈیموکریٹک الائنس( کے ڈی اے) کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لاکر خطے کے لوگوں کو متحدہ آواز اور متفقہ موقف پر مجتمع کیا اور مرکز سے آئین ہند کے شیڈول ۶ کے تحت خطے کو اسپیشل درجہ دئے جانے کی معقول مانگ کی ‘ اپنا یہ برحق مطالبہ
( جس کا مرکزی حکومت نے لداخیوں کو ہمارے ریاستی درجہ کی بحالی جیسے وعدے کی مانند ا آشواسن دیا ہے ) منوانے کے لئے کئی دن تک لہیہ کی کڑاکے کی سردیوں میں پُر امن بھوک ہڑتال جاری رکھی۔ کیا اس سے انسپائریشن لیتے ہوئے ہمارے بڑے قائدین دل اور سر جوڑ کر لوگوں کی عمومی بھلائی کے لئے رواں الیکشن کے لئے ایک ڈھیلا ڈھالا ہی سہی کوئی قابل ِ عمل کم ازکم مشترکہ پروگرام طے کرنےمیں جست نہیں لگا سکتے تھے ؟کیا لوگوں کو ایک متفقہ یک نکاتی نصب العین دےکرخطے کی عزت وآبرو کی رکھوالی کا بیڑا اُن سے اُٹھایا نہ جاسکتا تھا؟ آخرلیڈرانِ کرام کے لئے عوام سے ایک ہی سُرتال میں یہ کہہ کر ووٹ مانگنے میں کیا چیز مانع ہوئی کہ لوگو! تم ہمیں ووٹ دو‘ہم تمہارے دبے کچلے جذبات اور روز مرہ پیچیدہ مسائل کو اسمبلی میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملاکر بخوبی اُجاگر کرنے کا عہد وپیمان دیتے ہیں ‘ ہم تمہیں بے روزگاری‘ مہنگائی‘ عدم شنوائی اور بے توقیری کی قعر مذلت سے نکال باہر کرنے کا قول وقرار کر تے ہیں۔کیا یہ ضروری تھا کہ اس بار بھی انتخابی عمل کو محض کسی ایک سیاسی شخصیت کووزیراعلیٰ کی مسند پر بٹھانےاور کابینہ کی خالی پڑی کرسیوں کو بھرنے کی روایت کے اعادے تک محدود رکھنا مناسب تھا؟ خیر جو
ہوا سو ہو ا۔ اہل ِوطن کی آزمودہ کار سیاسی قیادت اب بھی اپنا مابعد انتخابات سیاسی اتحاد ترتیب دے کر بیک زبان دیش اور دُنیا کو پیغام دے سکتی ہےکہ جموں کشمیر کے لوگ جمہوریت پسندہیں ‘ وہ اپنے سیاسی مسائل کا جمہوری حل ڈھونڈنے میں پختہ یقین رکھتے ہیں ‘ وہ آئین ِ ہند کے بنیادی حقو ق کی اساس پر اپنے کھوئے ہوئےسیاسی وقار کی بازیابی چاہتے ہیں ۔ اس نوع کے تازہ دم سیاسی اتحاد کے لئے قائدین کوخطے کے مقاد میں چار وناچارآگے بڑھنا ہوگا ۔
افسوس کہ فی الوقت قائدین اپنے شخصی اختلافات اور ذاتی اقتدار کو لوگوں کے مفادات پر فوقیت دیتے ہوئے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں مصروف نظر آتے ہیں : کوئی خود کو کنگ میکر کہتا پھرتا ہے ‘ کوئی اپنے سوا ہر دوسرے لیڈر کو بھاجپا کی بی ٹیم سی ٹیم زی ٹیم ہونے کی افواہیں پھیلا رہاہے‘ کوئی الیکشن رزلٹ کا انتظار کئے بغیراپنی خیالی جیت کے جشن میں بھنگڑے ڈالتا ہے کہ ہم ہیں وہ جو اسمبلی میں اپنی عددی قوت کے بل پر فیصلہ کریں گے کہ حکومت کس کی بنے ‘کس کی نہ بنے ۔باوجود یکہ بھاجپا کے کئی اُمیدوار علامتی طورکشمیرمیں کھڑے ہیں‘ پھر بھی کوئی اپنے حریف کوبی جے پی کا پراکسی قرار دئے جارہا ہے ‘ کوئی کسی اور ہی فسانے چھیڑ کر عوامی مسائل پر ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا‘ کوئی اپنی ٹوپی کا سوال دے کر لوگوں کی ہمدردیاں جیتنے کی جذباتی اپیل آزماتا ہے ‘ کوئی اپنے سابقہ سیاسی حلیفوں کے خلاف غدار ہے غدار ہے کا نعرہ الاپتا ہے ‘ کوئی ادب ‘تہذیب‘ شائستہ کلامی اور سنجیدہ گفتگو کی تمام حدیں پار کر کے سرراہ اپنے سیاسی ناقدین کی خبر لینے کے نئے ریکارڈ بنا نےمیں لگاہے‘ کوئی مسئلہ کشمیر کی ہمالیائی چٹان سے اپنا سر ٹکرانے کا دکھاوا کرکے تقریروں کے چھلاوے چلاتا ہے ‘ کوئی خود کو دودھ کا دُھلا ثابت
کر نے میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتا ہے‘ کوئی آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کا سبزباغ دکھا کر اپنے لئے ووٹ کا کھل جا سم سم کا فراڈیہ گیم کھیل رہا ہے‘ کوئی دودھ کی نہریں اور شہد کے چشمے بہانے کے جھوٹے وعدے دئے جا رہا ہے۔ رہی بات الیکشن لڑنے والے پُراسرار آزاد اُمیدواروں ‘ متعددکاغذی جماعتوں اور میدان میں بطور کنڈیٹ موجود ’’پُراز مطلب بھیڑ‘‘ کی‘ اس بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ بناہواہے ‘ ان لوگوں پر زیادہ تر ووٹ کٹوا اور پراکسی ہونے کی پھبتیاں کسی جارہی ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
غرض جس طرح ماضی میں کشمیریوں کو باڑے کا ٹٹو سمجھ کر سیاست کار اُن کا جذباتی استحصال کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے‘ آج بھی بد قسمتی سےکم وبیش معاملہ و یسے کاویسا ہے۔ بایں ہمہ ہمیں یہ امرواقع نہیں بھولنا چاہیے کہ خطے کے تمام طبقات کے لئے یہ ایک ایسا تاریخ ساز سنہری موقع ہے جب ہم۵؍ اگست ۲۰۱۹کو دفعہ ۳۷۰ پر مارے گئے شب خون سے لگے زخموں پر ووٹ کی پرچی کا مرہم لگا سکتے ہیں ‘ جب ہم اپنے سیاسی خسارے ‘ احساس ِ زیاں اور مجروح جذبات پر اشک شوئی کے بجائے نئے حالات وحقائق کی روشنی میں بغیر کسی خارجی اور داخلی دبا ؤخوف اور ڈر کےوشال دیش کے اندر اپنے شاندار سیاسی ومعاشی مستقبل کی تعمیر کے لئے اَنتھک سفر کی نیک
شروعات کر سکتے ہیں۔ اس صحت مند سوچ کے برعکس جب مختلف جماعتوں میں بٹی ہماری ٹاپ سیاسی لیڈرشپ الیکشن کے زریں موقع کو بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچائی میں ضائع کرے ‘ باہم دگر جوتم پیزار ہونے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھے‘ ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ دیتے جائے ‘ تو اسے لوگوں کی کم نصیبی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے ؟
میں آئینہ ہوں دکھاتا ہوں داغ چہرے کے
جسے خراب لگے سامنے سے ہٹ جائے
ہمارے مسلمہ سیاسی قائدین کو سمجھنا چاہیے کہ وقت بدلتے کوئی زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ اگر ان حضرات کا حافظہ بہت زیادہ کمزور نہ ہواہو تو اُنہیں یاد ہوگا کہ چشم ِ فلک نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب یہاں کا چپہ چپہ ‘ گلی گلی‘ بستی بستی شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کی بے انتہا محبت کے سحرمیں جنون کی حدتک گرفتار تھی ‘گردش ِ افلاک نے جب اس بلند قامت قائد کی کرشمہ ساز شخصیت کا اقبال کرسی کی چار ٹانگوں تک محدود کرڈالا توہردل عزیز شیخ صاحب کی عوامی مقبولیت میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ زمانے کی آنکھ نے وہ دن بھی دیکھے جب حریت لیڈروں کو لوگوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا تو وقتی لہر سے یہ لوگ ہم ہستی میں اتنا بھٹک گئے کہ انہیں اپنے پیروں تلے زمین نظر نہ آئی اور کبھی سبقت لسانی کا گناہ کر بیٹھے ‘ کبھی اپنے دروازے بندکر کے پارلیمانی وفدکے معزز ارکان کو خالی ہاتھ واپس لوٹایا ‘ اور اب آج کی تاریخ میںاُن کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ۔ اس لئے سیاست کے بے رحم مدوجزر کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمارےبڑے سیاسی قائدین سے دست بستہ گزارش ہے کہ ابھی بھی حالات کو سنبھالا دیا جاسکتا ہے ‘ انہیں رواںا سمبلی الیکشن کو غنیمت جان کر بیچ منجدھار میں پھنسے جموں کشمیر کو ساحل مراد تک لانے میں کرسی سے زیادہ عوامی مفادات سے وفاداری کا ثبوت دینا چاہیے۔ انہیں فوراًسے پیش تر مابعد انتخابات وسیع البنیاد اتحاد کے لئے ابھی سے ذہین وفطین کھیون ہار بنتے ہوئے مثبت کاوشیں شروع کر نی چاہیے ؎
دلوں میں حُب ِ وطن ہے اگر تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو
تبصرہ لکھیے