ہوم << معاملہ پاکستانی ویمنز فٹ بال ٹیم کا، اعتراض، سوال ، جواب - عامر خاکوانی

معاملہ پاکستانی ویمنز فٹ بال ٹیم کا، اعتراض، سوال ، جواب - عامر خاکوانی

آج شام کو ایک پوسٹ شیئر کی جس میں پاکستان ویمنز فٹ بال ٹیم اور مالدیپ ویمنز فٹ بال ٹیم کے میچ کی تصویر تھی،یہ میچ دس دن قبل ساف چیمپئن شپ میں ہوا۔ تصویر میں دو پاکستانی کھلاڑی اور دو ہی مالدیپی کھلاڑی کھیل رہی تھیں۔ مالدیپی کھلاڑیوں نے جسم ڈھانپنے والا لباس پہن رکھا تھا، انہون نے نیکر کے نیچے ٹخنوں تک لیگنگز یا انرز پہن رکھا تھا جبکہ پاکستانی کھلاڑیوں نے چھوٹی نیکر پہن رکھی تھی جس میں تھائیز یعنی رانیں عیاں تھیں۔
پوسٹ میں اعتراض کیا گیا کہ مالدیپ کی لڑکیاں جو لباس پہن سکتی ہیں، پاکستان جیسے اسلامی ملک کی قومی ٹیم کی کھلاڑی وہ لباس کیوں نہیں پہن سکتیں ۔ مجھے اس پوسٹ سے اتفاق تھا، اس لئے شیئر کر دیا۔ اس پر خاصا شور مچا، بہت سے اعتراضات، طعنے ، طنز ملے، یہ پوسٹ دراصل ان کا جواب سمجھ لیں یا یہ کہہ لیں میرا مفصل نقطہ نظر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بات : میں خواتین کے کھیلوں کا مخالف نہیں ۔ ہرگز نہیں۔ البتہ میرے خیال میں وہ کچھ حدود وقیود میں ہونے چاہئیں۔ لباس ساتر ہوں اور ان کی کوریج میں شائستگی برتی جائے ، حتیٰ الامکان جو شائستگی ، تہذیب اور احتیاط برتی جا سکتی ہے وہ برتی جائے ۔
دوسری بات : انفرادی طور پر میری رائے مختلف ہوسکتی ہے۔ میرے نزدیک خواتین کے کھیل صرف خواتین کے لئے ہوں تو زیادہ بہتر ہے، ان کی تصاویر، ویڈیوز ، لائیو ٹیلی کاسٹ سب کے لئے نہ ہو تاکہ وہ زیادہ کمفرٹیبل رہیں۔ جیسے ہمارے خواتین تعلیمی اداروں میں سپورٹس ایکٹویٹیز ہیں۔ اپنے محفوظ ، کمرٹیبل ماحول میں بچیاں بے شک کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، والی بال ، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس یا دوسرے ایتھلیٹکس وغیرہ کھیلیں۔
میں ان کھیلوں کی کوریج اخبارات میں کرنے کا حامی بھی نہیں ہوں اور نہ مرد فوٹوگرافرز کی وہاں موجودگی کا، کیونکہ مجھے اندازہ ہے کہ کئی فوٹوگرافرز مخصوص زاویوں سے نامناسب تصاویر کھینچتے ہیں، اپنی نفسی تسکین وغیرہ کے لئے ۔ میں اپنی بہن، بیوی یا بیٹی کے لئے یہ قطعاً پسند نہیں کروں گا کہ اس کے بھاگنے دوڑنے، کھیلنے کی تصاویر اخبارات میں چھپیں یا ٹی وی پر نشر ہوں۔ یہ میری ذاتی چوائس ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ خواتین کے حوالے سے شرعی احکامات اور پابندیاں ہیں۔ تاہم میں دوسروں پر اسے مسلط کرنے کا حامی نہیں، البتہ اس کی ترغیب دینے کا قائل ہوں۔
تیسری بات: اپنی اس رائے اور تحٖفظات کے باوجود میں نے کبھی قومی ویمنز کرکٹ ٹیم پر اعتراض نہیں کیا۔ اس لئے کہ ان کا لباس بہرحال ساتر ہوتا ہے، لانگ شرٹ، ٹرائوزر وغیرہ۔ ۔ ہماری ٹینس کی لڑکیاں کھیلتی ہیں یا بیڈمنٹن کی، وہ بھی اسی لباس میں ۔1989میں سیف گیمز پاکستان میں ہوئی، نان سٹاپ کوریج ہوئی، اس مین انڈین خواتین کھلاڑی مختصر نیکر ، شرٹ میں ملبوس تھیں جبکہ ہماری دونوں خواتین کھلاڑی شائستہ ساتر لباس میں تھیں۔ ایک کھلاڑی نازو شکور جو جاوید میانداد کی بھابھی بھی بنیں، انہوں نے تو مکس ڈبلز میں گولڈ میڈل بھی جیتا تھا۔ لباس ان کے کھیل میں آڑے نہیں آیا۔
میری البتہ یہ رائے ہے کہ ان کی کوریج کرتے ہوئے احتیاط اور سلیقے سے کام لینا چاہیے، ایسے زاویوں سے ہرگز تصاویر نہ بنائی جائیں اور نہ وہ نشر ہوں جس میں کسی بچی کی شرٹ ہٹ جائے ، پیچھے سے آکورڈ نظر آئے یا پسینے وغیرہ سے کپڑے چپکے ہوں۔ ایسے میں قدرے لانگ شاٹس سے کام چلایا جائے۔ مقصد صرف ہے کہ ایسی تصاویر نہ بنیں جس سے اس بچی کے گھر والے اور وہ خود آکورڈ محسوس کرے۔
چوتھی بات : اب آئیں اس حالیہ تنازع کی طرف۔
میرے نزدیک پاکستان کی ویمنز قومی ٹیم ، ویمنز ہاکی ٹیم یا کسی بھی دوسرے کھیل میں ملک کی نمائندہ کرنے والی ٹیم کوساتر لباس پہن کر کھیلنا چاہیے ، ورنہ نہ کھیلیں۔ یہ کون سا جبر یا ایسا مسئلہ ہے کہ نہ کھیلے تو انسانی حقوق سلب ہوجائیں گے۔
فٹ بال ٹیم کی خواتین کھلاڑیوں پر یہ ہرگز پابندی نہیں کہ وہ گھٹنوں سے اونچی چھوٹی نیکر پہن کر کھیلیں جن میں ان کی رانیں ننگی ہوں ۔ وہ آرام سے نیکر کے ساتھ نیچے لیگنگز یا انرز پہن لیں جو ٹخنوں کے ساتھ ہوں ۔ اس سے کم از کم شرعی ستر پورا ہوجائے گااور جو منفی تاثر پیدا ہوتا ہے وہ نہیں ہوگا۔ یہی ویمنز ہاکی ٹیم کی کھلاڑیوں کو کرنا چاہیے یا دیگر کھیلوں میں بھی۔
میرے نزدیک تو سوئمنگ مقابلوں میں بھی اگر مختصر لباس پہن کر پیراکی کرنا ہے تو نہ کریں۔ ویسے بھی عالمی مقابلوں میں آخری نمبر پر ہی آنا ہے، ملک وقوم کا مذاق تو نہ بنوائیں۔
اعتراضات پر جانے سے پہلے ہمارے پیارے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی اس حوالے سے رائے نقل کرنا چاہوں گا۔ وہ لکھتے ہیں ؛ ’’اس ضمن میں اتنا ہی کافی ہے کہ یہ "ذوق" کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ڈسپلن کی بات یے۔ بحیثیت مسلمان جو ہدایت ہمیں اللہ تعالی نے دی ہے ہم اس کے پابند ہیں۔ خدا نے عورت اور مرد دونوں کے لیے لباس اور سماج میں نقل و حرکت کے ضوابط دیے ہیں اور ہمیں اس کا ہر صورتحال میں پاس رکھنا یے۔‘‘
اب رہی بات اعتراضات کی تو ان کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں ۔
پہلا اعتراض : آپ چاہتے ہیں لڑکیاں برقع پہن کر کھیلیں ؟
یہ احمقانہ مطالبہ کس نے کیا ہے ؟ کوئی پاگل ہی یہ مشورہ دے گا۔ ہم تو صرف یہ کہ رہے ہیں کچھ تو ڈیسنسی ہوتی ہے، کچھ تو خیال کر لیں۔ کیا ہمارے گلی محلے، بازار، کالج یونیورسٹی میں لڑکیاں مردوں کے سامنے مختصر نیکر پہن کر جایا کرتی ہیں ؟ اگر نہیں تو ایسی کیا آفت آ گئی کہ کیمروں کے سامنے، مرد کرائوڈ کے سامنے عالمی ٹورنامنٹ میں پاکستانی قومی ٹیم کی لڑکیاں ایسی نیکریں پہن کر کھیل رہی ہیں؟
انہیں خود ہی کچھ خیال کر لینا چاہیے، کم از کم گھٹنوں تک شارٹس اور نیچے لمبی جرابیں ہی پہن لیتیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ان بچیوں کے والدین ، بھائیوں نے انہیں کیسے اجازت دے دی ؟
دوسرا اعتراض: آپ لباس پر کیسے بات کر سکتے ہیں؟ یہ ہر ایک کی ذاتی چوائس اور اس کا حق ہے، اس کے والدین اعتراض کریں تو کریں آپ کون ہوتے ہیں وغیرہ
جواب: یہ ذاتی چوائس یا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر یہ بچیاں اپنے طور پر اپنے کسی کلب وغیرہ میں کھیل رہی ہوتیں تو ہم اسے بے شک ناپسند کرتے ، مگر خاموش رہتے کہ یہ ان کی پرسنل چوائس ہے۔ یہ مگر پاکستان کی قومی ٹیم کی کھلاڑی ہیں۔ یہ پاکستانی قومی کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ یہ ہم سب کی نمائندہ کر رہی ہیں۔ ایک مشرقی اسلامی ملک کی نمائندہ ٹیم کو کچھ تو اسلامی، مشرقی اخلاقیات کا خیال رکھنا چاہیے ۔ جب یہ نیشنل ٹیم کی نمائندہ ہوں گی پھر ان کی پرسنل چوائس کا معاملہ نہیں رہے گا۔
تیسرا اعتراض : آپ نے خود کون سا ڈاڑھی رکھی ہوئی ہے جو ان پر اعتراض کر رہے ہیں ؟
جواب: بھیا میری ڈاڑھی ہونے نہ ہونے سے اس معاملے کا کیا تعلق؟ بات ڈریس کوڈ کی ہو رہی ہے آپ اعتراض تب کریں جب ہم ننگے دھڑنگے یا صرف انڈروئیر پہن کر قومی ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہوں تب آپ ضرور کہیں کہ شرم کریں، پاکستانی قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں تو لباس ڈھنگ کا پہنیں۔
چوتھا اعتراض : آپ یہ پلیٹ فارم اوریا مقبول جان کے لئے چھوڑ دیں۔
جواب: ہم اپنی رائے دے رہے ہیں، اپنے انداز میں۔ اوریا مقبول جان صاحب سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر اگر وہ فحاشی کے خلاف بات کریں گے ، ساتر لباس پہننے کی بات کریں گے تو وہ ٹھیک ہے۔ صرف اوریا صاحب کی مخالفت میں کیا ہم سب اسلامی احکامات کو بھی رد کر دیں ؟ ظاہر ہے نہیں۔
پانچواں اعتراض : وہ کیا ذہنیت ہے جو کھلاڑیوں کا کھیل نہیں ٹانگیں دیکھتی ہے ؟
جواب: فٹ بال ٹانگوں ہی سے کھیلی جاتی ہے ، ظاہر ہے ہاتھ سے نہیں تو کیسے آپ فٹ بال کو دیکھیں اور اس سے ٹکرانے والی ٹانگ کو نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اصل اعتراض یہ ہے کہ ساتر لباس پہننا چاہیے، اسلامی ملک کی نمائندہ قومی ٹیم کی خواتین کھلاڑیوں کو۔ یہ ساتر لباس کا حکم ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے۔ اس سے انکار ہم کس بنیاد پر کر سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔
چھٹا اعتراض : کھیل کے لئے جو لباس استعمال ہوتا ہے، وہی پہننا چاہیے ۔
جواب : یہ عجیب بات ہے، اگر کل کو کسی کھیل کے لئے انڈروئیر پہن کر کھیلنا لازمی ہو تو ہم اپنی بچیوں کو اس کی اجازت دے دیں؟ میں تو ہرگز اپنی بہن، بیوی، بیٹی کے لئے ایسا پسند نہیں کرتا۔ کوئی بھی باغیرت پاکستانی ایسا نہیں کرے گا۔ دوسرا یہ کہ اگر کھیل کے قوانین میں اجازت تھی تو مالدیپ کی چند کھلاڑیوں نے ایسا کر رکھا تھا۔
ساتواں اعتراض : آپ کے خیال میں شٹل کاک پہن کر کھیلنا چاہیے ؟
جواب: ہرگز نہیں۔ یہ احمقانہ مشورہ میں تونہیں دے سکتا۔ اوپر میں نے وضاحت سے اپنی بات کہہ دی ہے۔ جسے اب بھی سمجھ نہیں آئی، اسے میں نہیں سمجھا سکتا۔
آٹھواں اعتراض : سر اگر کسی نے سوئمنگ پول میں جانا ہو تو وہ دھوتی پہن کر تو نہیں جائے گا؟
جواب: بات یہ ہے کہ انفرادی طور پر سوئمنگ پول میں جانا الگ بات ہے، ہمارے بہت سے کلبوں میں خواتین کے لئے الگ سوئمنگ پول ہوتے ہیں جہاں بے پردگی نہیں ہوتی۔ سوئمنگ کے لئے بھی بکنی پہن کر جانا پبلکلی جانا یا اسے ٹی وی پر نشر کرنا میرے نزدیک تو زیادتی اور افسوسناک ہے۔
مجھے تو شدید دکھ ہوگا اگر آپ لوگوں کی بہن بیٹیاں ایسا کریں، کیونکہ میں تو اپنی گھر کی بچیوں کے لئے ہرگز ایسا پسند نہیں کرتا۔ میرے نزدیک تو ایسی صورت میں ان کھیلوں میں شامل نہ ہونا ہی مناسب ہے۔
نواں اعتراض : کھونٹے سے باندھ کر رکھنا چاہیے، آپ کا اصل اعتراض شائد یہ ہے ؟
جواب : ہرگز نہیں۔ ہماری ویمن کرکٹ ٹیم پچھلے دس پندرہ سال سے کھیل رہی ہے۔ میں کرکٹ پر مسلسل لکھتا رہتا ہوں، آئے روز کسی نہ کسی میچ پر تبصرہ لکھ رہا ہوتا ہوں۔ کبھی دیکھا کہ میں نے مطالبہ کیا ہو کہ ویمن کرکٹ ٹیم پر پابندی لگائی جائے۔ میں ذاتی طور پر شائد یہ پسند نہ کروں کہ میری بیٹی ویمن کرکٹ کھیلے۔ مگر جو لوگ اپنی بچیوں کو اس کے لئے بھیجنے کو تیار ہیں اور یہ بچیاں ساتر لباس میں کھیل رہی ہیں تو ہم اپنے کچھ تحفظات کے باوجود اس پر خاموش رہتے ہیں۔
تو یہ ہرگز نہیں کہ لڑکیان کھونٹے سے بندھی رہیں۔ کیوں بھئی ؟ وہ ڈاکٹڑ بنیں، ٹیچر بنیں، یونیورسٹیوں میں پڑھائیں، انجینئر بنیں، فوج میں جائیں، پولیس میں جائیں۔ سول سروس کا امتحان پاس کر کے فارن سروس میں جائیں، آڑکیٹکٹ ، سافٹ ویئر انجینئر، ڈیزائنر، وکیل کچھ بھی بنیں۔ کس نے روکا ہے؟ ہماری اپنی بچیاں کالج یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔
دسواں اعتراض : فٹ بال جیسا کھیل مکمل لباس پہن کر کھیلا نہیں جا سکتا، جسم کو ہوا لگنا ضروری ہے ورنہ کھلاڑی نیچے گر جائے گا یعنی گر جائے گی۔
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا درست نہیں۔ ہم اپنے سکول کالج کے زمانے میں ٹراوزر پہن کر گھنٹوں فٹ بال کھیلتے رہتے تھے، کبھی کچھ نہیں ہوا۔ سعودی عرب اور بعض دیگر ممالک کی خواتین ایتھلیٹس حجاب اور پورے ساتر لباس کے ساتھ کھیلوں میں حصہ لیتی ہیں۔ ابھی ایک بڑے عالمی مقابلے میں چار سو میٹر ریس ایک حجاب والی لڑکی نے جیتی جس نے ٹانگیں ڈھانپی ہوئی تھیں۔
دوسرا یہ کہ مالدیپ کی لڑکیوں نے اگر جسم ڈھانپا ہوا تھا تو وہ کون سا گر گئی تھیں۔ تیسرا یہ کہ اگر ایسی میڈیکل ایمرجنسی ہے تو پھر نہ کھیلیں۔ کون سا یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے کہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنی ہے ، ہر حال میں کرنی ہے۔
گیارھواں اعتراض : (طنزیہ انداز میں )اوہو اسلام خطرے میں آ گیا۔
جواب: اسلام تو خطرے میں نہیں آٰیا، البتہ ہمارے اعتراض پر ہمارے لبرلز، سیکولرز ضرور چکرا گئے، بھڑک اٹھے اور یکایک میری پوسٹ پر حملہ آور ہوگئے جیسے ساتر لباس پہن لیا جائے تو نجانے کیا قیامت آ جائے گی
بارھواں اعتراض : کھیل کیسا کھیلا اس پر بات نہیں ہوئی۔ کبھی ہم خواتین نے بھی آپ مردوں کے لباس پر بات کی ہے؟کھیل میں کارکردگی پر بات کریں نہ کہ لباس پر ۔
جواب : آپ خواتین اگر مردوں پر کوئی اعتراض بنتا ہے تو ضرور کریں، کس نے روکا ہے ؟ اگر آپ لوگون ںے اعتراض نہیں کیا تو یہ آپ کی غلطی ہے۔ دوسرا مردوں کا ستر خواتین کے ستر سے مختلف ہے یہ تو معلوم ہی ہوگا۔ تیسرا یہ کہ بات سمپل ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس کی قومی ٹیم کو اس ملک کی اسلامی اخلاقیات کی پابندی کرنی چاہیے ۔ ویسے کیا لاہور، کراچی وغیرہ کے کسی گلے محلے کے گرائونڈ میں لڑکیاں مختصر نیکر پہن کر کھیل سکتی ہیں ؟ کیا ان کے بھائی، باپ اور دیگر عزیز واقارب برداشت کریں گے بلکہ ان کی مائوں ہی کو یقیناً اعتراض ہوگا۔
یہی پاکستانی اخلاقیات ہے۔ سکھ اور ہندو، عیسائی لڑکیاں بھی ساتر لباس پہنچتی ہیں پاکستان میں۔ تو کارکردگی کا سوال تو بعد کا ہے، پہلے تو یہ ہے کہ جو ٹیم پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہے کیا وہ واقعی پاکستان کی نمائندہ ہے یا ایک مصنوعی، گھٹیا لبرل کلچر کی نمائندہ ہے۔
باقی کچھ اعتراضات مکس سے ہیں۔ بات مگر وہی ہے کہ جس کا دل چاہے جو مرضی کرے، بے شک وہ فحاشی ہو، عریانیت ہو یا کچھ اور ، وہ چاہے جس قدر غیر اخلاقی ہو، ان ڈیسنٹ ہو، اس پر بات ہرگز نہ کرو۔ کیوں بھئی ؟ انفرادی طور پر کوئی ایسا کرتا ہے تو چلیں ہم بھی اگنور کر لیتے ہیں۔ جب قومی ٹیم کا حصہ ہو، پاکستانی قوم کی نمائندگی کی جا رہی ہو تو پھر کیوں نہ خیال کیا جائے۔
یہ کام ویسے ہماری فٹ بال فیڈریشن کا ہے۔ اسے قومی ویمنز ٹیم کے لئے ساتر ڈریس کوڈ بنانا چاہیے۔ مگر جب تک وہ نہ کرے، ہماری بچیوں کو خود ہی کچھ خیال کر لینا چاہیے۔ ان کے والدین، بھائی بہنوں ہی کو چاہیے کہ ان بچیوں کو کسی حد تک ڈیسنٹ اور ساتر لباس پہننے کی تلقین کریں۔ اس میں کیا برائی اور حرج ہے ؟ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی ہمیں پیروی کرنی چاہیے، اگر کہیں مشکل ہے تو جس حد تک ہو سکتا ہے، وہاں تک تو جایا جائے،ا س امید کے ساتھ کہ کمی خامی اللہ معاف کر دے گا۔