ہوم << خواتین پروفیسرز گرلز کالجز میں کیوں نہیں رہنا چاہتیں؟ - محمد عاصم حفیظ

خواتین پروفیسرز گرلز کالجز میں کیوں نہیں رہنا چاہتیں؟ - محمد عاصم حفیظ

پنجاب کے سرکاری کالجز ان دنوں شدید بحران کا شکار ہیں ۔ ایک محکمانہ پالیسی کے تحت بوائز کالجز کو مخلوط قرار دیا گیا ۔ خواتین پروفیسرز کو سینکڑوں کی تعداد میں بوائز کالجز ٹرانسفر کیا گیا ۔ گرلز کالج ٹیچرز سے خالی ہوئے۔ وہاں نئے پروگرامز شروع نہ ہو سکے تو گرلز نے داخلوں کے لیے انہی بوائز کالجز کا رخ کیا ۔ اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بوائز کالجز میں بی ایس لیول پر ستر سے اسی فیصد گرلز پڑھ رہی ہیں ۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر میں بوائز کالجز کی تعداد پہلے ہی کم377 اور گرلز کالجز کی 448 تھی ۔ پھر پالیسی بنی تو اس وقت صورت حال یہ ہے کہ گرلز 607 کالجز میں داخلہ لے سکتی ہیں اور بوائز کے لیے صرف 222 صرف بوائز اور 155 مخلوط کالجز دستیاب ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق لاہور ڈویژن کے کالجز میں زیر تعلیم گرلز کی تعداد 26000 زیادہ ہے ۔ ۔ شنید یہ ہے کہ یہ بوائز کالجز میں پڑھ رہی ہیں ۔یعنی 87 ہزار کے مقابلے میں 61 ہزار ۔ کئی بوائز کالجز میں دو ہزار سے زائد طالبات بی ایس لیول پر زیر تعلیم ہیں
اس وقت بوائز کالجز کی 1500 سے زائد سیٹیں خواتین تعینات ہیں جبکہ گرلز کی تعداد بی ایس لیول پر ستر فیصد سے زائد۔ ان دنوں ایک بار پھر ٹرانسفرز ہو رہیں ہیں تو بوائز کالجز میں ایک ایک سیٹ پر دس سے بارہ خواتین اپلائی کر چکی ہیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بوائز اور گرلز کالج کی دیوار سانجھی ہے یا بلکل قریب قریب ۔ ایک ہی شہر تو وہاں بھی خواتین پروفیسرز گرلز کالج سے بوائز کالج میں ٹرانسفر کرا رہی ہیں
۔اسی کا ایک دوسرا رخ بھرتیوں میں سامنے آتا ہے ۔ کیونکہ بھرتی الگ الگ کیڈر میں ہوتی ہے
پنجاب پبلک سروس کمیشن کی حالیہ بھرتی میں1359خواتین اور صرف372 مرد لیکچررز کو بھرتی کیاا گیا یعنی 73 فیصد خواتین اور 27 فیصد مرد آسامیاں ۔ اس سے پہلے آنیوالی بھرتیوں میں بھی 2691 خواتین اور 732 مرد لیکچررز کو بھرتی کیا گیا ۔ یعنی 79 فیصد خواتین اور 21 فیصد مرد آسامیاں۔ یعنی ہر پانچ لیکچررز کی بھرتی میں چار خواتین اور صرف ایک مرد کو بھرتی کیا جا رہا ہے ۔
۔کچھ احباب پرجوش انداز میں اسے " لڑکیوں کے لئے تعلیم کے مواقع" کے نام پر بڑا کاررنامہ دے کر خوب حمایت کرتے ہیں ۔ لیکن اگر غور کر یں تو اس سے تو خواتین کے لئے سہولیات اور اور مواقع میں اضافے کی بجائے انہیں محروم رکھا گیا ۔ آپ اس پالیسی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ بوائز کالجز میں تو بی ایس کلاسز شروع ہوئیں ، ایوننگ پروگرامز بھی شروع کئے گئے لیکن انہی کے قریب موجود گرلز کالجز کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا ۔ یعنی گرلز کالجز اپ گریڈیشن ، نئی کلاسز کے اجراء ، نئے پروگرامز شروع کرنے سے محروم رکھے گئے اور ان طالبات کو بوائز کالجز میں داخلے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گرلز کالجز کو بھی اپ گریڈ کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اسی طرح نئے بوائز کالجز کے قیام کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
اسی کا ایک پہلو حالیہ ٹرانسفر پالیسی میں سامنے آیا کہ ترقی پانیوالے 454 مرد پروفیسرز کو دور دراز ٹرانسفر کر دیا گیا کیونکہ بوائز کالجز میں ان کی سیٹوں پر خواتین تعینات تھیں ۔ یہ 455 گھرانے شدید مشکلات اور بہت سے دور دراز نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں ۔
صوبہ بھر میں بوائز کالجز مخلوط ہو جانے کے باعث وہاں کی سینکڑوں سیٹوں پر خواتین پروفیسرز تعینات ہیں اس سے چھوٹے شہروں میں تعینات مرد پروفیسرز جو کہ ٹرانسفر کے خواہشمند ہیں ان کے لئے سیٹیں موجود نہیں ۔ اس " پالیسی" کے تحت ہی اب بھرتیوں میں بوائز کالجز کی سیٹیں تو بھری ہوئی ہیں اس لئے نئی بھرتی کی ضرورت نہیں ۔ یعنی عجیب و غریب پلاننگ یہ ہے کہ ٹرانسفرز تو مخلوط کالجز میں ہو سکتی ہے لیکن بھرتی کے موقعے پر الگ الگ سیٹیں اناؤنس کی جاتی ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مخلو ط کالجز میں خواتین کو" With Seat یا Create New Seat " کے تحت تعینات کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے ۔ مانا کہ وہاں لڑکیوں کے داخلے کے باعث ان کی تعیناتی کا جواز موجود ہے لیکن اس سے کئی پروفیشنل پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئی ہیں ۔خواتین کو ضرور ملازمتیں دیں ، گرلز کالجز بنائیں وہاں نئے بلاک بنائیں نئے کورسز شروع کریں ۔ان کی تعداد بڑھائیں لیکن مردوں کے لئے دستیاب مواقع تو نہ کم کریں ۔ جب آبادی میں توازن برابر ہے تو کم سے کم برابر کے مواقع تو دئیے جائیں ۔ اگر سیٹیں ہی اسی فیصد بمقابلہ بیس کے تناسب سے مشتہر کی جائیں گیں تو ملازمتوں میں بھی تو عدم توازن ہی پیدا ہوگا ۔
قومی پیداوار اور ترقی کے حوالے سے دیکھیں تو یہ کیسی پالیسی ہے کہ ایک گھر کی لڑکی کوتو پڑھا دیا جائے، ملازمت کے مواقع بھی ہوں جبکہ لڑکے کے لئے چانس ہی کئی گنا محدود کر دئیے جائیں ۔
ارباب اختیار اور پالیسی سازوں کو اس ساری صورتحال کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ایک سخت اور جابرانہ پالیسی کے تحت بوائز کے لئے تعلیم اور متوسط و لوئیر مڈل کلاس کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے تعلیم و روزگار کے مواقع انتہائی محدود کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ یقین مانیں یہ کوئی مرد و خواتین کے مقابلے اور حقوق کی جنگ کا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ ایک متوازن سوسائٹی کے قیام کا مسئلہ ہے ۔ اگر ہم تعلیمی و روزگار کی سہولیات کو آبادی کے تناسب سے فراہم نہیں کریں گے ، پالیسی کے زور پر مواقع تین گنا محدود کر دئیے جائیں گے تو اس سے معاشرے کا توازن بگڑے گا جس سے خاندانی ، سماجی نظام میں دیگر کئی مسائل پیدا ہو جائیں گے ۔ اگر ایک متوازن قومی پیداوار اور ترقی کا حصول ہمارا مقصد ہے تو پھر اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا .