ہوم << ایک جوتا- عظمیٰ ظفر

ایک جوتا- عظمیٰ ظفر

شہر کی مشہور سڑک پر تیز رفتار گاڑیاں رواں دواں تھیں، صبح کی بھاگ دوڑ اور روزی کی تلاش میں جانے والے نفوس یا تو من کی چاہ میں بھاگ رہے تھے یا تن کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے گھر سے نکلے تھے۔ آدم کا پیٹ سونے کی وادی بھی نہیں بھر سکتی لہٰذا حضرت آدم تپتی دھوپ میں بے آرام ہونے کو نکل پڑے تھے۔ سب نے اپنے اپنے مرکز پر جلدی پہنچا تھا خواہ دوسرا پیچھے رہ جائے۔

"افففف ایک تو یہ رکشے والے، آگے پیچھے کچھ دیکھتے ہی نہیں اور گھس جاتے ہیں کسی بھی لائن میں"۔
ثاقب نے موٹر سائیکل کا ہینڈل سیدھی طرف گھمایا، اس کی ٹکر ہوتے ہوتے بچی تھی رکشے والے سے۔
رکشے والا اپنی سواریوں کو سوار کرنے میں مصروف تھا۔

"کیا مصیبت ہے، ان موٹر سائیکل والوں کو تو عادت ہوتی ہے گاڑی سے ٹکرانے کی، کراچی میں تو گاڑی چلانا ہی مشکل ہے"۔
کسی گاڑی والے صاحب کا اے سی والی گاڑی میں بھی دماغ گرم ہوگیا تھا۔

شاید کوئی ایکسیڈنٹ ہوا تھا. لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر ثاقب نے موٹر سائیکل کی رفتار ہلکی کی مگر پیچھے سے پاں،، پوں،،، پی،،، کی آواز نے اسے رکنے سے منع کردیا. وہ ناچاہتے ہوئے بھی آگے بڑھ گیا، سڑک کے کنارے ایک پاؤں کا جوتا پڑا تھا ثاقب کا دل اسے دیکھ کر کٹ سا گیا۔

آفس پہنچ کر اس نے سکون کا سانس لیا. اے سی کی ٹھنڈک چٹختے اعصاب کو پرسکون کر رہی تھی۔

"کیوں میاں!!
آج لیٹ ہونے کا ارادہ تھا کیا؟
ذمہ داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے، مگر آجکل کے لڑکے کب سمجھتے ہیں یہ سب۔
میٹینگ کال آگئی ہے آدھے گھنٹے میں آن لائن ہوجانا"۔
رشید صاحب نے اپنے کیبن سے جھانک کر طنزیہ لہجے میں کہا۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے دوسروں کو بلاوجہ ٹوکنے کی، رشید صاحب بھی ان میں سے ایک تھے. ثاقب کو اس جگہ کام کرتے ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا. آئی ٹی ایکسپرٹ تھا. اس کی ترقی اور کامیابی کے چانس جتنے زیادہ نظر آرہے تھے، رشید صاحب اتنا ہی زیادہ اس کی ٹانگ کھینچنے میں لگے رہتے تھے.

"رشید صاحب لیٹ تو نہیں ہوا اللہ کا شکر ہے، لیٹ ہوتے ہوتے بچ گیا۔
اور میں بالکل وقت پر ریڈی ہو جاؤں گا"۔
ثاقب نے لہجے کو نارمل ہی رکھا، وہ صبح صبح تلخ کلامی کرنا نہیں چاہتا تھا۔

"وہ دراصل،،، راستے میں"
ثاقب ٹریفک، ایکسیڈنٹ اور ایک پاؤں کے جوتے کا ذکر کرنے لگا. یہ سب کچھ کہتے ہوئے ایک بار پھر اس کا دل اداس ہوا تھا۔
رشید صاحب اسٹاف میں سب سے سینیئر ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر باس بننے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ دوسرے اسٹاف کو حادثے میں دلچسپی لیتے اور ہمدردی کرتے دیکھ کر ثاقب کی بات سننے کے بعد کوئی تاثر دیے بغیر اپنے کام میں لگ گئے۔

میٹنگ کے بعد سب نے لنچ کی طرف قدم بڑھائے لیکن ثاقب نے جانے سے منع کردیا۔ وہ ایک جوتا اسے بار بار کرب کے سمندر میں اتار رہا تھا۔
"چلو بھئی کینٹین نہیں جانا کیا؟"
اس کے کولیگ فیصل نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں،، میرا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا،،،"
اس نے کنپٹی دبائی۔

"میری تو بھوک ہی اڑ گئی فیصل! سڑک پر پڑا ہوا ایک جوتا مجھے بہت تکلیف دے رہا ہے. کاش میں رک جاتا، وہاں تماش بینوں میں شامل ہونے کے بجائے مدد کر دیتا"۔
ثاقب نے ذہن کو جھٹکتے ہوئے افسوس سے کہا۔

"ارے میاں اب جانے بھی دو، ناجانے روز کتنے حادثے ہوتے ہیں. نکلا ہوگا کوئی لڑکا اپنے گھر سے دروازے کو لات مارتے ہوئے، بڑا جوانی کا زعم ہوتا ہے نا،
باپ کو چار سنائی ہوں گی، ماں کو دھتکارا ہوگا،
بہن کو گھورا ہوگا یا پھر بھائی پر ہاتھ اٹھایا ہوگا، پڑا ہوگا کسی اسپتال میں."
رشید صاحب نے نہایت تلخی سے کہا۔

"تم ابھی تک اس جوتے کو یاد کر رہے ہو، آجکل کے لڑکے ٹھوکروں پر رکھتے ہیں سب کو پھر خود ہی منہ کے بل گرتے ہیں"۔
رشید صاحب نے شاید اپنے گھر کا نقشہ کھینچا تھا یا وہ اولاد کے ہاتھوں ستائے ہوئے تھے جب ہی اتنے تلخ مزاج تھے۔ ثاقب کو اندازہ نہیں تھا، اس کا تو اپنا غم تازہ ہوگیا تھا۔

"یہ،،، یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں رشید صاحب!
جوتا تو کسی کا بھی ہوسکتا ہے، جوان کا بھی بوڑھے کا بھی،
ایسا بھی تو ہوسکتا ہے وہ ایک جوتا کسی باپ کا ہو، جو کفالت کے لیے نکلا ہو.
یا اپنی اس بیٹی کے رشتے کی تلاش میں نکلا ہو جو گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو رہی ہو،
کسی بیٹے کا بھی ہو سکتا ہے جو اپنی ماں کا ماتھا چوم کر اس کی دعاؤں کے حصار میں گھر سے خوشی، خوشی نکلا ہو کہ آج اس کی نوکری کا پہلا دن ہے، اب اس کی ماں کو سلائی نہیں کرنی پڑے گی۔

سڑک پر گرا وہ انسان ایک بھائی بھی ہوسکتا ہے جو اپنی بہن کے جہیز کا نا ختم ہونے والا سامان خریدنے نکلا ہو۔
وہ ایک مجبور تعلیم یافتہ بھی تو ہوسکتا ہے جو روزانہ کی طرح نوکری کی تلاش میں دھکے کھانے نکلا ہو."
ثاقب کا گلا رندھ گیا تھا۔

"یا پھر وہ ایک شوہر بھی تو ہوسکتا ہے جو اپنی بیوی سے کہہ کر نکلا ہو شام میں تیار رہنا، کہیں گھومنے چلیں گے۔"
ثاقب بے حد جذباتی ہوگیا تھا، فیصل نے اس کے کندھے پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا۔
"چلو اب بس کرو۔"
ثاقب نے رشید صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔

"زندگی کبھی ایک رخ نہیں دکھاتی رشید صاحب!
کبھی بھی ایک رخ نہیں دکھاتی.
بس ہم ایسے لوگ ہیں جو اسے اپنی ظاہری آنکھ سے دیکھتے ہیں دل کی آنکھ سے نہیں۔"
ثاقب نے آبدیدہ لہجے میں کہا۔

چند سال پہلے اسی تیز رفتار ٹریفک نے اس کے بڑے بھائی کی جان لے لی تھی، ان کا ایک پاؤں کٹ کر دور جا گرا تھا اور سڑک کے کنارے ایک جوتا پڑا تھا۔ تماش بین گزرتے چلے گئے، مدد گار اس وقت آگے بڑھے جب دیر ہوچکی تھی۔
گھر والوں کے ہاتھ میں آیا تو صرف ایک جوتا۔

Comments

Click here to post a comment