ہوم << زندگی کا سلیقہ اپنے لیے سیکھیں- صائمہ اکرم چوہدری

زندگی کا سلیقہ اپنے لیے سیکھیں- صائمہ اکرم چوہدری

"وہ PHD کا انٹری ٹیسٹ دینے کراچی آئی تھی اور کچھ وجوہات کی بنا پر اسے دو دن کے بجائے، میرے گھر میں پورا ہفتہ رہنا پڑا، اور یہ پورا ہفتہ میری قوت برداشت پر ایک عظیم امتحان تھا، اور میرا ارادہ تھا کہ اس کی والدہ جہاں کہیں مجھے ملیں گی، میں اسے اونچی ٹانگ والا سیلوٹ ضرور ماروں گی، جو ہمارے فوجی ، واہگہ بارڈ پر پڑوسیوں کے سامنے مارتے ہیں۔ اس لڑکی کے قیام کے دوران میری ہیلپر سوشیلہ نے کوئی چھتیس بار مجھے کہا کہ باجی اگر اس لڑکی کی ماں نے اسے کچھ نہیں سکھایا لیکن تعلیم نے اسے اتنا تو شعور دیا ہوگا کہ وہ کم ازکم اپنی ذاتی صفائی اور اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رہنا سیکھ لیتی، اور صفائی تو آپ لوگوں کے مذہب میں نصف ایمان ہے ۔ سوشیلہ کا کہنا بھی ٹھیک تھا۔
ایک ہفتے میں اس کے نئی بیڈ شیٹ انتہائی غلیظ ہو چکی تھی، اسے اپنے بیڈ پر ٹرے رکھ کر کھانا کھانے کی بُری عادت تھی جس کے نتیجے میں نئی بیڈ شیٹ پر کئی داغ لگ چکے تھے ، ڈریسنگ پر رکھا اس کا ہیئر برش بالوں سے بھرا ہوا تھا، سائِڈ ٹیبل پر چائے کے گندے کپ اور گلاس، چاکلیٹ، بسکٹ، اور چپس کے پیکٹ کے ریپر، اس کے میلے کپڑے، بکھرے جوتے، دوتین دن تو میری ہیلپر نے پورے روم سے سمیٹے اور پھر میں نے اسے منع کر دیا اور اگلے دو تین دن میں ،میں نے اس کی گندگی کی انتہاء کے ساتھ اس کی ڈھٹائی کی انتہا بھی دیکھ لی ۔جب وہ روم سے نکلتی تو پورا کمرہ پانی پت کا میدان بنا ہوتا۔
وہ فخریہ اندازمیں مجھے بتاتی تھی کہ اس کی ماں نے اسے کبھی ہل کر پانی بھی نہیں پینے دیاکیونکہ اس کی والدہ اس سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتی تھیں ، جن کے مطابق میکے میں بچیوں کو عیاشی کروا دو، پتا نہیں سسرال کیسا ملے۔ ان کے سسرال کا تو پتا نہیں لیکن مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اگلوں کو کیسی بہو ملنے والی ہے اور مجھے سوچ کر ہی ان سے ابھی سے ہمدردی ہونے لگی کیونکہ جب آپ کو گندگی محسوس نہ ہو اور پھوہڑ پن آپ کے مزاج کا حصہ بن جائے تو پھر کوئی مائی کا لال یا سسرال ،آپ کو تبدیل نہیں کر سکتا اور ایسی کئی مثالیں میرے اردگرد سانس لیتی ، دوسروں کو بیزار کرتی موجود ہیں۔
اسی طرح اسلام آباد میں ایک فیملی فرینڈ کے ہاں جانا ہوا، پورا گھر بکھرا ہوا اور ان کی دونوں یونیورسٹی جانے والی بیٹیاں مزے سے اپنے اپنے آئی پیڈ منہ پر چپکائے لیٹی تھیں کہ ماں بیمار تھی اور میڈ ایک ہفتے کی چھٹی پر تھی، اور انھیں ڈھنگ سے چائے بھی بنانے نہیں آتی تھی اور ان کے والد بڑے فخر سے ہمیں یہ بات بتا رہے تھے کہ انھوں نے بیٹیوں کو بہت لاڈ سے پالا ہے ، اس لیے انھیں دو جوان بیٹیوں کی موجودگی میں بھی چاَئے ہوٹل سے منگوا کر پلانی پڑی، اور میں بس ان کی بچیوں کی ادائیں ہی دیکھتی رہ گئی ،جنہیں نہ ماں کی بیماری کی ٹینشن تھی اور نہ باپ کے مہمانوں کی، اور جو چائے انھوں نے سرو کی ، وہ ٹرے میں چھلک رہی تھی اور چائے کے ایک کپ کے کنارے بھی ٹوٹے ہوئے تھے۔
آج فرح بھٹو، کی وال پر لڑکیوں کی تربیت کے حوالے سے پوسٹ دیکھی تو بہت سے کمنٹس پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ اس معاملے میں بیٹیوں کی نہیں بلکہ ماؤں کی تربیت کی زیادہ ضرورت ہے، جنھوں نے اولاد کی پڑھائی کوہوا بنا کر انھیں اپنی ہتھیلی کا چھالا بنا لیا ہے ، اور ان کو لگتا ہے کہ بچوں کو صرف اچھے گریڈز کی ضرورت ہے ،اور وقت پڑنے پر وہ سب سیکھ جاتے ہیں ، بلاشبہ وہ سیکھ جاتے ہیں لیکن اس کام میں مہارت آنے تک کا جو وقفہ ہوتا ہے، وہ ان کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے صبر کا امتحان ہوتا ہے ، اور اسی عرصے میں کئی رشتے بنتے اور بگڑ جاتے ہیں۔ کچھ پیاری بہنوں نے اپنے تلخ تجربات کی روشنی میں کمنٹس کر رکھے تھے کہ جو سگھڑ ہوتی ہیں یا جن کو سارے کام آتے ہیں، انہیں کون سا سسرال والے سر پر بٹھا دیتے ہیں، ان پیاری بہنوں سے صرف اتنی گذارش ہے کہ کچھ کام انسان کو اپنی ذات کے لیے بھی کر لینے چاہییں، صفائی نصف ایمان ہے اور اپنے اردگرد کا اچھا ماحول اور اچھا کھانا، صرف سسرالیوں کا ہی نہیں آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے ۔اس لیے یہ سیلقہ کسی اور کو امپریس کرنے کے لیے نہیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سیکھیں اس سے آپ کی اپنی ہی زندگی آسان ہوگی ۔
بہت سال پہلے جب میں کلاس فور کی اسٹوڈنٹ تھی تو میری والدہ نے گھر میں ہم دونوں بہنوں کی برتن دھونے ، گھر کو سمیٹنے اور پوچا مارنے کی ڈیوٹیز لگائی ہوئی تھیں ، جو اس وقت مجھے سخت ناگوار گذرتی تھیں ،ہمارے گھر میں لڑکوں کو بھی کوئی خاص پروٹوکول دینے کا رواج نہیں تھا، دونوں بھائی اپنے کپڑے خود پریس کرتے، اپناکھانا خود نکال کر برتن کچن میں رکھ کر آتے اور اپنے جوتے خود پالش کرتے ،اور ان کی یہ عادتیں آج تک پختہ ہیں. اس معاملے میں انہوں نے کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا۔ میری والدہ کو خاندان والے بہت باتیں سناتے تھے کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو بہت چھوٹی عمر میں کام پر لگا دیا ہے لیکن اس کا یہ فائدہ ہوا کہ بہت بچپن میں ہی ہمیں چیزوں کو سمیٹنا، اور مینج کرنا آگیا۔
پھر مجھے کتابیں پڑھنے اور لکھنے کی لت گئی، اس کے بعد ہوسٹل چلی گئی، اور واپس آئی تو کالج کی لیکچرر شپ مل گئی، اس عرصے میں کوکنگ پس پشت چلی گئی، روٹی بنانی تو بہت بچپن میں ماں نے زبردستی سکھا دی تھی لیکن کوکنگ کی طرف سے میرا ہاتھ "ہولا " تھا کیونکہ گھر میں امی اور بجیا کی موجودگی میں مجھے پریکٹس کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جب بھرے سسرال میں گئی تو شروع میں تو مجھے چیزوں کے حساب کتاب کا ہی پتا نہیں چلتا تھا، اور میری دیورانیاں اس کام میں طاق تھیں اور ہر کام منٹوں میں نبٹا لیتی تھیں، اور میں دیکھتی رہ جاتی۔ آج شادی کے پندرہ سال بعد بھی گھر میں کوئی آٹھ دس مہمان ایک ساتھ آجائِیں تو میں گھبرا جاتی ہوں کیونکہ مجھے کھانے کی مقدار کا ہی اندازہ نہیں ہوتا اور میرا ماننا ہے کہ کوکنگ میں مہارت ہمیشہ پریکٹس سے آتی ہے اور اس کا حل اب میں نے خانساماں رکھ کر نکال لیا ہے ،لیکن میری ماں ہمیشہ کہتی تھی کہ کسی سے کام کروانے کے لیے خود کام کرنا آنا چاہیے، تب ہی انسان کسی اور سے کروا سکتا ہے ورنہ ہیلپر بہت چونا لگاتے ہیں۔
اسی طرح اپنی شادی کے ایک ہفتے کے بعد میں نے اپنی کسی سسرالی رشتے دار کو فون کر کے فروٹ ٹرائفل بنانے کی ریسپی پوچھی تو ڈاکٹر صاھب نے مجھے اس دن بڑے دوستانہ انداز میں یہ بات سمجھائی کہ تم کوکنگ چینلز سے چیزیں بنانا سیکھ لو،لیکن کسی رشتے دار کی ہیلپ مت لو، ورنہ ساری زندگی یہ بات سننے کو ملے گی کہ اسے کھانا تو ہم نے بنانا سکھایا تھا اور بعد میں تم کوکنگ میں ایکسپرٹ بھی ہو جاؤگی تو بھی یہ بات ساری زندگی تمھارے لیے طعنہ بنی رہے گی ،کیونکہ دنیا کی اس معاملے میں یادداشت بہت تیز ہوتی ہے اور لوگ کریڈٹ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔مجھے پندرہ سالوں میں بارہا اس چیز کا احساس ہوا کہ مجھے بہت عرصہ پہلے ہی کوکنگ سیکھ لینی چاہیے تھی تاکہ اب تک میں پرفیکٹ ہو چکی ہوتی ۔ میاں کی بات کی گہرائی کا اندازہ اس دن ہوا جب ان کے کسی دوست کے ہاں دعوت پر جانا ہوا تو ان کی ڈاکٹر بہو کے ہاتھ میں بہت لذت تھی، اور ہم نے کھل کر تعریف کی تو ساس کی طرف سے جلا کٹا جواب ملا، ارے رہنے دیں ،ماں کے گھر سے تو صرف ڈاکٹری کی ڈگری لے کر آئی تھی، اس کو گھر داری اور کھانا بنانا تو ہم نے سکھایا، صرف ڈگریوں سے گھر تھوڑا چلتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی ساس صاحبہ نے اپنی بہو کے پھوہڑ پنے کے قصے نمک مرچ لگا کر سنائے ، اور اس بیچاری کا چہرہ ضبط کی کوشش میں سرخ ہو رہا تھا، تب میں نے ان کی بہو کی خفت مٹانے کے لیے سرسری انداز میں بتایا کہ مجھے تو خود ساری کوکنگ میرے میاں نے سکھائی ہے ، اور یہ بات کچھ غلط بھی نہیں تھی،چکن پلاؤ بنا نا میں نے ڈاکٹر صاحب ہی سے سیکھا تھا لیکن ہر لڑکی کو اتنا اچھا لائف پارٹنر یا سسرال ملے، یہ ضروری نہیں۔
میں آج بھی مانتی ہوں کہ مجھے گھر کو مینج کرنا، ہیلپرز سے کام لینا، ڈسٹنگ کرنا، اور صفائی ستھرائی کے سارے کام بہت اچھی طرح آتے ہیں کیونکہ یہ کام میں نے بہت بچپن میں سیکھ لیے تھے لیکن کوکنگ سے جان چھڑائی تو اس کام میں مہارت آج تک نہیں آسکی، جس کا مجھے بہت افسوس ہے. اب جاب اور اسکرپٹ رائٹنگ میں وقت ہی نہیں ملتا۔ میں اپنی اسٹوڈنٹس کو ایک بات ضرور سمجھاتی ہوں کہ زندگی گذارنے کا سلیقہ اپنے سسرال کے لیے نہیں "اپنی" زندگی کو آسان بنانے کے لیے سیکھیں کیونکہ ایک متوازن اور نفیس ماحول کی آپ کو خود بھی اشد ضرورت ہوتی ہے ، اور اردگرد کا گندا ماحول آپ کی نفسیات پر بھی بہت بُرا اثر ڈالتا ہے ، اس لیے اپنی زندگی میں سلیقہ اپنے لیے پیدا کریں۔ اس سال یورپ کے ٹرپ میں جتنے گھروں میں بھی جانا ہوا، ان کے کھانے کی ٹیبلز، ان کے بچے اور اسپیشلی لڑکے سیٹ کر رہے تھے، کھانے کے بعد برتن، واش کرنے کے لیے مشین میں لگانے کا کام بھی انھی بچوں کے ذمے تھا، اور مجھے یورپ جا کر پتا چلا کہ وہاں بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو سکول کی طرف سے یہ ذمے داری دی جاتی ہے کہ وہ گھر میں والدین کی مدد کر یں گے اور پھر وہ لوگ والدین سے باقاعدہ پوچھتے ہیں ، اس لیے وہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی چھوٹی عمر سے ذمے داری نبھانا سیکھ جاتے ہیں. انھیں ایک مخصوص عمر میں سکول کے بعد، کسی نہ کسی ریسٹورنٹ ، مال یا کسی بھی جگہ پر کوئی نہ کوئی کام بھی کرنا ہوتا ہے، اس سے چھوٹی عمر سے ہی ان میں کمانے کی لگن پیدا ہو جاتی ہے،جبکہ ہمارے ہاں والدین بچوں کی تعلیم، ان کی شادیاں اور پھر شادیوں کے بعد انھیں فنانشلی سیٹ کرنے میں ہی اپنی ساری زندگیاں برباد کر دیتے ہیں ، اور ان میں سے اکثر بچوں کو سیٹ ہونے کے بعد جب پتا چلتا ہے کہ اب والدین کے پاس کچھ نہیں رہا، تو بدقسمتی سے وہ بھی انھیں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ویسے بھی جو چیز بغیر محنت کے حاصل ہو جائے اس کی اہمیت کا احساس بھی کم لوگوں کو ہوتا ہے۔
میں اس رویے کے بھی خلاف ہوں جہاں ہم گھر کی ہر ذمے داری لڑکیوں پر ڈال کر اپنے لڑکوں کو ہڈ حرام اور سست بنا دیتے ہیں، بھائیوں کے سارے کام ان کی بہنوں کے ذمے لگا دیے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ کچن میں سے پانی کا گلاس اٹھا کر خود پانی پینے کے بھی روادار نہیں ہوتے ، میں نے اپنے گھر میں ایسا ماحول کبھی نہیں دیکھا تھا ، اس لیے مجھے کبھی اچھا نہیں لگا کہ ایک ہٹا کٹا نوجوان لیٹا ہوااپنی بہنوں پر حکم چلا رہا ہو۔ میں اپنی فرینڈز اور سب جاننے والیوں سے یہی کہتی ہوں کہ صرف بیٹیوں کو ہی نہیں اپنے بیٹوں کی بھی اس معاملےمیں تربیت کریں ، اور انھیں ملٹی ٹاسکنگ سیکھائیں. سکول ، کالج یا یونیورسٹی جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے ذاتی کاموں کا بوجھ بھی ماں باپ پر ڈال دیں. انھیں اپنے ذاتی کام جیسے کپڑے پریس کرنا، اپنی واڈروب سیٹ کرنا اور اپنے روم کو انسانوں کے رہنے کی جگہ بنانے کا ہنر ضرور سکھائیں، جو چیزیں آپ سکھائیں گے وہ ان کو بُری بھی نہیں لگیں گی، ورنہ دنیا اپنے انداز میں سکھائے گی جو شاید آپ کو پھر بہت چبھے گا . زندگی میں سلیقہ اور نفاست اپنے سسرالیوں کے لیے نہیں اپنی زندگیوں کو آسان اور خوبصورت بنانے کے لیے سیکھیں اور اپنے والدین کو بھی اس کا سکھ دیں ،کیونکہ آپ کے والدین کا بھی آپ کی دی ہوئی آسانی پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا.