ہوم << پاکستان کا جمہوری نظام - وقار علی

پاکستان کا جمہوری نظام - وقار علی

پاکستان میں جمہوری عمل چلتے رہنا چاہیے، آج جمہوریت کی جیت ہوئی، ہم جمہوری عمل کو پٹری سے اترنے نہیں دینا چاہتے وغیرہ کے جملے ہم آئے روز سیاستدانوں سے ٹی وی ٹاک شوز، سیاسی تقاریر اور اخباری بیانات کے ذریعے سنتے پڑھتے ہیں. کوئی بھی ایسا عمل جس میں سیاسی پارٹیوں کا مفاد ہو اُسے "جمہوریت کا حسن" کے نام پر عوام کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ جمہوریت ہے کیا؟ یہ سوال اگر آپ کسی بھی عام شہری سے پوچھیں تو وہ شاید ہی آپ کو اپنے جواب سے مطمئن کرپائے۔ عوام جموریت کے لغوی معنی و مفہوم سے آشنا ہوں نہ ہوں، مگر یہ ضرور پتہ ہوتا ہے کہ موجودہ دور جمہوریت کا ہے یا پھر ڈکٹیٹر شپ کا۔ پاکستان کی 68 سالہ تاریخ میں پاکستانیوں نے دونوں ہی ادوار دیکھے۔
لفظ جمہوریت انگریزی کے لفظ Democracy کا ترجمہ ہے جو دو الفاظ Demos یعنی لوگ اور Kratos یعنی ظاقت و قوت کا مجموعہ ہے۔ جمہوریت کے بارے میں مفکرین نے کئی تعریفیں دی ہیں۔ ارسطو کے مطابق "ہجوم کی حکومت جمہوریت کہلاتی ہے" سیلی کے مطابق "جمہوریت ایسے طرزحکومت کو کہتے ہیں جس میں سب شریک ہوتے ہیں" اور سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق "عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کےلیے جمہوریت کہلاتی ہے". ان مفکرین کی تعریف کی روشنی میں اگر ہم اپنے جمہوری نظام کی بات کریں تو ارسطو اور سیلی کی تعریف بلکل درست بیٹھتی ہے یعنی ایک ہجوم ہی کی حکومت ہے جس میں سب شریک بھی ہیں۔ ایک مخصوص طبقہ جو پچھلے دو تین دہائیوں سے حکمرانی میں مصروف ہے، البتہ ابراہم لنکن کی تعریف اس لیے فٹ نہیں آتی کیونکہ جب بھی پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں، چاہے عام انتخابات ہوں یا پھر ضمنی یا پھر بلدیاتی ہر الیکشن کے بعد اس کی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں. یہی حال مئی 2013 کے عام انتخابات، پھر ضمنی انتخابات، بلدیاتی انتخابات، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات اور اب 21 جولائی 2016 کو آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں بھی ہوا یعنی جب عوام کے ووٹ کا استعمال ہی درست طریقے سے نہ ہو تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے اور اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت عوامی نہیں کیونکہ کوئی نیا چہرہ اسمبلی میں نہیں آیا، وہی پرانے لوگ منتخب ہو کر اسمبلی میں حلف لیتے اور دعوے کرتے نظر آتے ہیں، البتہ حکومت عوام کے لیے ہے یا نہیں، چاہے وفاقی ہو یا پھر صوبائی اس پر بحث کی جاسکتی ہے۔
ہمارے ملک میں موجود جمہوریت اور جمہوری حکومت میں 284 معصوم جانوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا لیکن معاملہ مذمتی بیانات دے کر رفع دفع کردیا گیا، ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے اگر کسی وزیر، لیڈر یا بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیت پر الزامات لگ جائیں اور وہ غلطی سے ثابت بھی ہوجائیں تو بھی انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، ایسی جمہوریت جس میں جو جتنا زیادہ بدعنوان ہے وہ اتنا ہی زیادہ معزز ، باعزت اور محب وطن ہے ، ایسی جمہوریت جس میں عوام کے منتخب نمائندے خود بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اوروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیتے ہیں۔ وزیر اسپتال اور اسکول کے متعلق ٹاک شوز میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر خود وہاں سے نہ تو علاج کرواتے ہیں اور نہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرواتے ہیں۔
مئی 2013ء میں ہونے والے الیکشن کے بعد سے اب تک عوامی نمائندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات اٹھائے ہوں یا نہیں، البتہ پہلے PTI کے استعفے، پھر MQM اور اب پانامہ لیکس کے مسئلے پر خود کو خوب مصروف رکھا۔ ہر پارٹی ہر مسئلے کے لیے اپنے اپنے مطالبات پیش کرتی ہے اور کچھ عرصہ مطالبات مطالبات کھیلنے کے بعد " کچھ لو کچھ دو " کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایک ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے مسئلے کا Happy ending کردیتی ہے۔ ان کے ان مطالبات کے درمیان غریب پستا رہے ، خودسوزی کرے ، غربت سے تنگ آکر گردے بیچنے پر مجبور ہوجائے یا اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتاردے، حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ان حالات میں آسکر وائلڈ کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف" لوگوں کے ڈنڈے کو، لوگوں کے لیے، لوگوں کی پیٹھ پر توڑنا" بلکل فٹ آتا ہے ۔ جتنی محنت ہمارے حکمران جمہوریت کو مضبوط کرنے میں کرتے ہیں، اگر اتنی محنت عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کریں، نمائندے ان کے ترجمان بن کر ان کے مسائل کے حل کے لیے اسمبلی فلور پر آواز اٹھائیں تو یہی عوام حکمرانوں کے قدم سے قدم ملاکر پاکستان کی خوشحالی اور مضبوطی کے لیے کام کریں گے. پھر کسی کو جمہوریت کی گردان کرنے اور یاد دلانے کی ضرورت نہیں رہے گی. آزمانا شرط ہے.

Comments

Click here to post a comment