میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق افغان طالبان کے قطر آفس کے سربراہ عباس ستنکزئی کی قیادت میں طالبان کے وفد نے 18 سے 22 جولائی کے دوران چین کا دورہ کیا، جو کہ طالبان کے مطابق چینی حکومت کی دعوت پر کیا گیا۔ طالبان ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے دنیا میں بہت سے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور چین ان میں سے ایک ہے۔ طالبان کے مطابق چینی حکومت کو افغانستان پر بیرونی قبضے اور قابض فورسز کی جانب سے عوام پر کی گئی زیادتیوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا، اور ان ایشوز کو عالمی فورمز پر اٹھانے میں چین سے مدد کی درخواست کی گئی ۔
افغان طالبان کے دوسر ے ممالک کے ساتھ تعلقات کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے پاکستان اور ایران پر طالبان کے ساتھ تعلقات کے الزامات لگتے رہے ہیں، حال ہی میں روس سے تعلقات کی استواری کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں اور بعض نے تو یہ بھی دعوی کیا کہ بھارت بھی ان سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے. بعض یورپی اور دوسری کمپنیز بھی افغانستان میں اپنا کام مکمل کرنے کے لیے طالبان کو پیسے دیتی رہی ہیں، لیکن چین کے ساتھ طالبان کے تعلقات پہلی بار منظر عام پر آئے ہیں جو کہ خطے کے لیے بڑ ی اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے، اور اس وقت امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، اور اگلے چند برسوں میں امریکہ کو پچھاڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ طالبان کے اس دورہ چین کو افغانستان میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
سال کے آغاز میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لیے بننے والے چار ملکی گروپ میں افغانستان، امریکہ اور پاکستان کے علاوہ چین بھی شامل تھا۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے مطابق، طالبان کابل کو جنگ سے آزاد علاقہ قرار دینے پر رضا مند ہو چکے تھے مگر مئی 2016 میں طالبان سربراہ پر امریکی ڈرون حملے کے بعد یہ چار ملکی گروپ عملا غیر مئوثر ہوگیا، اور طالبان کی جانب سے ملا منصور کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کاروائیوں میں اضافے کے اعلان کی وجہ سے مذاکرات کا دروازہ تقریبا بند ہوگیاتھا، لیکن اس دورے سے مذاکرات کے امکانات دوبارہ روشن ہو گئے ہیں۔ دورے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ چین نہ صرف افغانستان میں امریکی کردار سے غیر مطمئن ہے بلکہ خطے کے مسائل کے حل کے حوالے سے اپنے کردار میں میں اضافے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، کیونکہ خطے میں بدامنی، چین کے معاشی مفادات کےلیے سے نقصان دہ ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ سی پیک جیسے بڑے منصوبوں کی کامیابی کے لیے خطے میں امن کا ہونا ضروری ہے۔
سی پیک، افغانستان کے لیے بھی ایک نعمت سے کم نہیں،اس وقت کابل کا سمندر کے ساتھ سب سے مختصر اور سستا ترین روٹ بذریعہ کراچی ہی ہے اور گوادر کے آپریشنل ہونے کے بعد، گوادر روٹ اور بھی سستا ہو جائےگا، کیونکہ اس کے ذریعے سمندری فاصلہ اور بھی کم ہو جائے گا، لیکن بدقسمتی سے بھارت کے زیراثر افغان حکومت، سی پیک کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر رہی۔ نریندر مودی چند چھوٹے منصوبوں کو سی پیک کے متبادل کے طور پیش کر نے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں. اس کے مقابلے میں سی پیک کا بجٹ اور اثر بہت بڑا ہے جس کا خطے میں کسی بھی دوسرے معاشی منصوبے کے ساتھ مقابلہ و موازنہ ناممکن ہے۔ اس صورتحال کا سراسر نقصان افغان عوام کو برداشت کرنا پڑےگا۔ چین یہ چاہتا ہے کہ افغانستان بھی سی پیک سے فائدہ اٹھائے، جس سے یقینا افغانستان میں خوشحالی کے ساتھ امن و استحکام آئے گا۔
چین کے ساتھ تعلقات افغان طالبان کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے لیے اپنی سنجیدگی کا اظہار کریں اور دنیا کے سامنے افغانستان میں مستقل امن کے لیے اپنا لائحہ عمل پیش کریں، جو قابل عمل اور تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ چین طالبان کو، اپنے شدت پسندی سے متاثر، مغربی علاقے زن جیانگ کے حوالے سے بڑا خطرہ تصور کرتا رہا ہے، اور اس دورے میں چینی حکومت نے یقینا اپنے تحفظات طالبان وفد کے سامنے پیش کیے ہوں گے، اور ہو سکتا ہے کہ ان تحفظات کو دور کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہو۔ اگر چین کے تحفظات دور ہو جاتے ہیں، تو وہ عالمی برادری کو افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا اور بعد میں پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے قائل کر سکتا ہے۔ اس دورے سے خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
تبصرہ لکھیے