ہوم << شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ اور مولانا مودودی- معظم معین

شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ اور مولانا مودودی- معظم معین

اصل مسئلہ ہی اپنے دور کے یزید کے سامنے کھڑے ہونے کا ہے۔ چودہ سو برس قبل کے یزید کو تو سب گالیاں دے لیتے ہیں۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے یزید اور ابن زیاد کی چوکھٹ پر سجدہ ریز بھی ہوتے ہیں۔ اگرچہ آج بھی آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے۔۔۔۔ مگر اس نمرود کے سامنے کھڑے ہونے کے بجائے اس سے ڈیل کے لیے سب بے تاب ہیں۔۔۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے "خلافت و ملوکیت" میں امام حسین کی شہادت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مولانا مودودی کے نزدیک امام حسین کی قربانی اسلامی اصولوں اور عدل و انصاف کی بالادستی کے لیے تھی۔ مولانا مودودی کے نزدیک یزید کی حکومت اسلامی اصولوں کے خلاف تھی جس میں باپ کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہو رہا تھا اور اس میں عامۃ المسلمین کی رائے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ امام حسین نے اس کے خلاف علم بلند کیا۔۔۔۔ مولانا مودودی نے امام حسین کی قربانی کو حق و باطل کے درمیان ایک ابدی جنگ کے طور پر دیکھا جس میں حق کی فتح ہمیشہ یقینی ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک کربلا کا واقعہ مسلمانوں کے لئے ایک درس ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمان کو ظلم و جبر کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہئے۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت حسین (رض) نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس لے جاؤ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا تو یہ درست نہیں بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو اور پھر اس سے فیصلہ کرنے دو خواہ میرے قتل کا فیصلہ کردے۔ حضرت حسین (رض) نے یہ نمونہ پیش کیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور وہ غلط راہ پر جا رہی ہو تو اس کے خلاف جدوجہد درست ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسین(رض) نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون کرتے ہیں حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو تو اس کے خلاف اٹھنا ہما شما کا کام نہیں۔ صرف وہ اٹھ سکتا ہے جو فیصلہ کر چکا ہو کہ وہ اٹھے گا خواہ کچھ ہو جائے۔ جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں ان کو صحابہ(رض) کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیے نہ کہ حضرت حسین (رض) کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقع ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی پوزیشن صاف کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔

مولانا مودودی کہتے ہیں کہ امام حسین کی شہادت نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر کسی حکومت یا نظام میں ظلم و ستم اور ناانصافی ہو تو اس کے خلاف کھڑا ہونا عین اسلام ہے۔ امام حسین کا یہ اقدام نہ صرف ان کے وقت کے لیے بلکہ ہر زمانے کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔

علامہ اقبال کے نزدیک امام حسین کی شہادت حق و باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ تھی جس نے اسلام کے حقیقی اصولوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ اقبال نے امام حسین کی قربانی کو ایک روحانی اور اخلاقی جدوجہد کے طور پر پیش کیا۔ ان کے نزدیک کربلا کا واقعہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سبق ہے کہ کیسے حق کی خاطر جان دینا افضل ہے۔

اقبال کہتے ہیں

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل

اقبال نے امام حسین کو دین کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کرنے والے شخص کے طور پر پیش کیا جو کہ ایک عظیم روحانی مقام رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک امام حسین کی قربانی اسلام کے لئے ایک نئے دور کا آغاز تھا جو مسلمانوں کو یہ سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ایمان کی عین روح ہے۔

مولانا مودودی اور علامہ اقبال دونوں نے امام حسین کی شہادت کو اسلامی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس واقعے کو سیاسی اور سماجی پہلوؤں سے دیکھا جبکہ علامہ اقبال نے اس کو روحانی اور اخلاقی نقطہ نظر سے بیان کیا۔ دونوں مفکرین کی رائے ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ امام حسین کی قربانی اسلام کے اصولوں، عدل و انصاف، اور حق کی بالادستی کے لئے تھی، اور یہ قربانی ہر مسلمان کے لئے ایک مثال ہے کہ ظلم و جبر کے خلاف ہمیشہ کھڑا ہونا چاہئے۔

Comments

Click here to post a comment