بچپن میں کہیں سنا تھا نماز ہمیں بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
عبادت کی روح کو محسوس کیے بغیر اس بات پر یقین سا ہوگیا تھا ۔ مگر معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ کیسے ؟
کبھی لگتا تھا شاید زندگی میں ایک ڈسپلن آجاتا ہوگا ، برے کاموں کے لیے وقت نہیں نکل پاتا ہوگا جب پانچ بار پاک صاف ہوکر اپنے رب کے روبرو کھڑے ہونے کی عادت ہوجاتی ہوگی۔
تب یہ بھی تو معلوم نہیں تھا نا کہ بے حیائی کیا ہوتی ہے ؟ اور یہ کہ برے کاموں کی فہرست صرف طویل نہیں بہت تفصیلی بھی ہے۔
اس وقت نماز کو ایک نئے سرے سے سمجھ رہی ہوں۔کیونکہ دل اور روح کے بے حد بے آرام ہوجانے کا زمانہ آیا ہے اور سکون کا واحد مقام نماز پہ میسر آنے لگا ہے۔
ابھی زیادہ کچھ نہیں ، نماز کی ایک ہی دعا پر غور و فکر میں لگی ہوں۔۔۔ اور وہ ہے سیدھے راستے پر چلنے کی دعا ! جو دعائیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں خود سکھائی ہیں وہ بڑی گہری ، بہت دلچسپ ہوتی ہیں۔قرآن ویسے ہی emotional intelligence پر بھرپور مدد کرتا ہے۔
اب جانا ہے یہ جو ہم مانگتے ہیں نا کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ، اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے خود بتایا ہے نا کہ یہ مانگنا ہے۔۔۔ یہ دعا ہمیں overthinking سے بچاتی ہے۔
سچ میں۔۔۔۔میں نے زندگی کے چار سال جرنلنگ اور میڈیٹیشن سیکھتے سکھاتے لگا دیے ہیں مگر جو تاثیر یہ دعا رکھتی ہے اس معاملے میں کہ ہم اوور تھنکنگ سے بچ سکیں اور ایک سیدھی ، سلجھی ، سچی ، اچھی سوچ کو پکڑ سکیں۔۔۔ یہ اسی دعا میں ہے۔
آپ عاجز ہوجاتے ہیں ، آپ اپنی کمزوریوں اور اپنی سوچ کی الجھن کا اقرار کرتے ہیں اس رب کے آگے جو آپ کے دماغ ، دل ، روح اور وجود کا خالق ہے۔
پھر آپ اس سے رہنمائی مانگتے ہیں۔
سچ کہوں تو چوبیس ، پچیس تک یہ آسان نہیں ہوتا کہ ہم اپنی کمزوریاں یا غلطیاں مان لیں۔ یا اپنے نفس کی تاریکیوں کو پہچانیں یا اس کا ذکر بھی کرسکیں۔۔۔
یہ چوبیس کے بعد جوانی کی عبادت کا ایک نیا ہی دور شروع ہوتا ہے۔اگر آپ خود پر تھوڑی سی بھی محنت کررہے ہوں۔۔۔ تو ہدایت کے لیے یہ ایک سنہری عمر ہے !
آپ جذبات اور احساسات کے رب کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں بیوقوف ہوں یا ہوسکتا ہوں ! میں غلطیاں کررہا ہوں اور لگنے لگا ہے یہ اب بڑھتی جارہی ہیں۔میں موٹی کتابیں پڑھنے اور ملکوں ملکوں گھومنے کے بعد بھی قاصر ہوں کہ خود کو علم والا کہہ سکوں۔
ایک وقت آتا ہے جب آپ یہ جاننے کے باوجود کہ رب سینوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہے ، اپنے رب سے خود کہہ رہے ہوتے ہیں اور بڑے شوق ، بہت جوش ، اپنا پن محسوس کرتے ہوئے ، بے حد درد سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میرا سینہ اِن باتوں اور اُن لوگوں میں بھینچ جاتا ہے ، آپ اپنے بازو کے زور سے پانیوں کے گھڑے سر پر دھر لینے کی عمر میں بس اپنے رب سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کون سے لہجے تھکا رہے ہیں ، زبان کن باتوں پر اٹکتی ہے ، کن چہروں کا سامنا کرنے سے خوف آتا ہے۔
آپ اللہ اکبر پہلے کہتے ہیں اور یہ دعا بعد میں مانگتے ہیں۔ یعنی آپ اپنے رب کی بڑائی اور عظمت کا اقرار کرنے کے بعد بھی یہ کہتے ہیں کہ آپ خوف بھی رکھتے ہیں۔انسانوں کا ، اپنے جذبات کا ، آپ کی ہٹ دھرمی کے بڑھ جانے کا ، اپنے نفس کی غلامی کا ، اپنے بیوقوف رویے کا خوف۔۔۔ ہر طرح کا خوف۔۔
۔
بے حیائی اور برے کام کا خوف ! بے حیا انسان ، وہ بھی تو ہوسکتا ہے جو اپنے رب کی نعمتوں سے انکار کرکے صرف آزمائشوں کو شمار کرتا پھرے۔۔۔
برا کام وہ بھی تو ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر موجود اچھائی کرنے کی طاقت اور جرات سے انکاری رہے۔۔۔نیکی سے سستی دکھاتا رہے !
غم کو سرہانے بٹھانا اور دعا کو نہ دہرانا بھی تو کسی درجے پر ایک برا کام ہی ہے۔
اور تب آپ مانگتے ہیں مجھے سیدھے راستے پر چلا ! یہ جو سیدھا راستہ ہے نا یہ محض کوئی مذہبی پگڈنڈی نہیں ، شخصیت کی ہر ہر کمزوری سے دور کسی ایسی وادی کا راستہ ہوتا ہے جہاں آپ سلجھے ہوئے ، نیک دل ، خوبصورت دماغ اور سچے کھرے نوجوان بن کر چل سکیں۔
ہدایت مانگتے ہیں آپ ! اور ہدایت تو یہ بھی ہے کہ آپ کی جوانی کھوٹ سے پاک ، امید سے بھرپور ، دعاؤں سے بھری ہوئی ، بہترین سوچ پر مبنی ہو۔
مثلاً میں آج کل کبھی بہت رو دوں تو فوراً سے کہتی ہوں اھدنا الصراط المستقیم ۔۔۔۔ کہ میں اپنے رب سے کہتی ہوں مجھے یاس کی وادیوں میں گم نہ کر ! مجھے امید اور ایمان کے بلند پہاڑوں کے پیالوں میں زندہ رکھ !
اور پھر میں سوچ رہی ہوں کہ یہ جو آیت ہے نا اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ۔۔۔ یہ ہے سورہ عنکبوت میں !
عنکبوت مکڑے کے جالے سے جڑا ہے !
اور میری عمر میں ہم باہر اور اپنے اندر کی دنیا کے ان گنت جالوں میں پھنس جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
پھر ہم الرحمن سے مانگتے ہیں جیسا کہ اس نے ہمیں سکھایا ۔۔۔
ہمیں سیدھے راستے پر چلا !
تبصرہ لکھیے