ہوم << جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے-مہتاب عزیز

جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے-مہتاب عزیز

جنگیں ظن و تخمین کی بُنیاد پر نہیں لڑی جاتیں۔ نہ ہی جنگوں کے حسابات کسی بنئیے کے 'بہی کھاتے' جیسے سود و زیاں کے گوشواروں کی صورت مرتب ہوتے ہیں۔
اگر ایسا ممکن ہوتا تو اطراف کے کمانڈر میدان جنگ کے وسط میں 'مبارز طلبی' کے بجائے میز لگاتے، اور اپنے اپنے فوجیوں اور ہتھیاروں کی تفصیل کا تبادلہ کر کے ہی فتخ او شکست کا فیصلہ کر لیا کرتے۔
اگر مادی پیمانوں پر جنگوں کے فیصلے ہو سکتے تو، 'بدر' میں ابو جہل کا لشکر فاتح ہوتا۔ قادسیہ، اجنادین، اور یرموک کی لڑائیوں سے کوئی مسلمان زندہ واپس نہ آتا۔ حطین، عین جالوت اور ملازکرد جیسے معرکوں کے نتائج یکسر مختلف ہوتے۔
ہماری تاریخ میں تو 'سریہ موتہ' بھی ہے اور 'کربلا کا معرکہ' بھی۔ جبرالٹر کی چٹان پر سفینے نذر آتش کرنے کا منظر بھی محفوظ ہے۔ الجزائریوں کی فرانس کے خلاف جدوجہد ہو یا 'عمر مختار السنوسی' کی اطالوی سامراج سے جنگ، یا پھر 'مہدی سوڈانی' کی برطانوی استعمار سے معرکے، مقابلہ تو کہیں بھی نہیں تھا۔
غرناطہ کی فصیل کے باہر جب فرنڈیڈ اور ازبیلہ کی صیبلی افواج جمع ہو گئیں تو مقابلے کی کوئی صورت باقی نہیں بچی تھی۔ اس موقعہ پر ہمارے سامنے دو کردار آتے ہیں۔
پہلا! 'ابو عبداللہ بن مولائے ابو الحسن' غرناطہ کا آخری حکمران جس نے "وقت کی نزاکت" کو سمجھا، مقابلے کا کوئی فائدہ نہ جانتے ہوئے شکست قبول کی، غرناطہ کی چابیاں عیسائی حکمرانوں کے حوالے کرکے اپنی جان اور مال بچا کر نکل گیا۔ مراکش جلا وطنی میں گم نامی کی موت مر گیا۔
دوسرا! غرناطہ کا سپہ سالار 'موسیٰ بن ابی غسان' جس نے بادشاہ، سپاہ اور شہریوں کو مقابلے کے لیے آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جب دیکھا کے ساتھ دینے والا کوئی نہیں، تو اپنی ذرہ پہنی تلوار اُٹھائی اور “الحمرا“ سے اکیلا نکل آیا۔ دشمن پر بجلی کی طرح کوندھ پڑا۔ لڑتا بہت سوں کو جہنم واصل کرتا دریائے Xamil میں گھوڑے سمیت اتر گیا، پار نہ پہنچ سکا۔
لیکن تاریخ میں خود کو امَر کر گیا۔ شہادت پائی لیکن ایک افسانوی کردار میں ڈھل گیا۔
صدیوں بعد بھی بوسنیا سے لے کر شمالی افریقہ تک کی لوگ داستانوں اور گیتوں میں اس کی بہادری کے گُن گائے جاتے ہیں۔
موت 'یاسر عرفات' کو بھی آئی، اور 'شیخ احمد یٰسین' کو بھی۔ لیکن ایک کے ماتھے پر اوسلو معاہدے کی سیاہی ہے اور دوسرے کی پیشانی پر آخری دم تک مزاحمت کا اجالا۔
اگر ہمیں ابو عبد اللہ اور یاسر عرفات کا راستہ اور انجام پسند ہے تو بھی موسیٰ اور شیخ احمد یٰسین کے راستے پر چلنے والوں پر طنز اور طعن کا حق نہیں۔
حال ہو یا نہ ہو۔۔۔۔ مستقبل اُنہیں کا ہے، تاریخ میں اُنہوں نے ہی امر ہونا ہے۔ اُنہوں نے ہی گیتوں اور افسانوں کا کردار بننا ہے۔
قتل گاہوں سے چُن کر "اُن کے" عَلم
اور نکلیں عشاق کے قافلے

Comments

Click here to post a comment