ہوم << تجدید دین اور مولانا مودودیؒ-نصراللہ گورائیہ

تجدید دین اور مولانا مودودیؒ-نصراللہ گورائیہ

جب سے یہ کائنات رنگ و بو معرض وجود میں آئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جس کو سب سے زیادہ شرف بخشا اور خلت خلافت عطا فرمائی ، جس کو عقل و شعور کی گہری بنیادیں عطا فرمائیں، جس کو علم کی دولت سے مالا مال فرمایا وہ خلیفۃ الارض حضرت انسان ہے۔
ولقد کرمنا بنی آدم ( سورۃ الاسراء(
اور ہم نے بنی آدم کو عزت و توقیر عطا فرمائی ۔
یہ عزت و شرف ، یہ مقام توقیر انسان کے علم و عمل اور تقویٰ کی بنیاد پر عطا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کی ضروریات کا پورا سامان مہیا کیا۔وہ رزق کے ایک دانے سے لے کر گل رنگ و بو تک ہو، انسان کی نفسیاتی ضروریات سے لے کر انسان کی جبلی ضروریات تک ہو۔ پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں ہوںیا صحراو میدان ۔ الغرض انسان کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کا اہتمام پوری شان و شوکت سے کیا گیا۔ اس کائنات کی ہر نعمت کو انسان کے لیے پیدا کیا گیابلکہ قرآن عظیم الشان میں ارشاد ہوا۔
ان تعدو ا نعمت اللّٰہ لا تحصوھا۔ (سورۃ النحل(
اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہ کرسکو گے۔
جہاں پر انسان کی ہر مادی ضروریات کا خیال کیا گیا وہیں پر انسان کی روحانی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے آسمان سے پیغمبر ، رسل اور انبیاء کا سلسلہ چلتا رہا اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام مبعوث کیے گئے۔ ان تمام ہستیوں کی بعثت کا واحد مقصد انسانوں کو رب کی طرف بلانا تھا۔ اسلام آخری دین ہے اور حضرت محمد ﷺ اس سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔ اس لیے حق و باطل کی اس کشمش میں مسلمان جب بھی کبھی کچھ کمزور پڑے ، جذبے سرد ہوئے،بنیادی عقائد پہ کچھ گرد پڑی تو رحمت خداوندی جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے کسی مجدد کو بھیج کر اسلام کو قوی اور توانا کیا۔ جس نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دین کو دوبارہ مرکزی حوالہ بنادیا۔امام غزالیؒ نے بارہویں صدی میں یہی کارنامہ سر انجام دیا۔ مجدد الف ثانی ؒ نے سترھویں صدی میں اسی کام کا بیڑا اٹھایا اور اپنے وقت کے چیلجز کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ پوری قوت اور جوانمردی کے ساتھ اس وقت کے الحاد کا مقابلہ کیا۔ شاہ ولی اللہ ؒ اٹھارویں صدی میں اپنی تجدیدی کوششوں سے یہی فریضہ سر انجام دیا۔ بیسویں صدی میں یہی فریضہ امام مودودی ؒ نے ادا کیا ۔اسلام چونکہ قیامت تک کے لیے آیا ہے۔ اس لیے ابھی نہ جانے کتنے مجددین کو آنا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا" میری امت کے بعد علماء،بنی اسرائیل کے انبیاء جیسے ہوں گے۔" امام غزالی ؒ ، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ اور مولانا مودوی ؒ یقینا ً ایسے ہی علماء میں سے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور حضرت محمد ﷺ کا فیضان نظر ہے۔
ان میں سے ہر مجدد نے اپنے حالات و واقعات کے تناظر میں اپنی تجدیدی کاوشوں سے نہ صرف دین کو اس کی اصل بنیادوں پر استوا ر کیا بلکہ اس کو ایک قوت متحرکہ میں تبدیل کردیا۔ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کو اپنی تاریخ میں تین بڑے چیلنجز درپیش رہے ہیں۔ پہلا چیلنج یونانی فلسفہ و فکر کا تھا۔ مسلمانوں کی تاریخ کا دوسرا بڑا چیلنج تاتاریوں کا مسلمانوں کو ان کے سیاسی مرکز سے محروم کردینا اور دوسری طرف عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کو اپنا غلام بنالینا تھا۔ مسلمانوں کی تاریخ کا تیسرا بڑا چیلنج عالم اسلام پر مغربی اقوام کا غلبہ اور اس سے شروع ہونے والا نو آبادیاتی نظام تھا اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پہلے چیلنج کے ساتھ کوئی تاتاریوں کا لشکر نہیں تھا اور دوسرے چیلنج کے ساتھ کوئی فکر و فلسفہ نہیں تھا۔ اس لیے پہلا چیلنج جو کہ صرف فکری تھا، جبکہ دوسرا چیلنج فقط عملی تھا۔ اس لیے امام غزالی تن تنہا اس گمراہی کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے یونانی فکر کو قیامت تک آنے والے ہر مسلما ن کو اس فتنے سے بچالیا اور پوری امت مسلمہ کے محسن ٹھہرے ۔ جبکہ تاتاریوں کا چیلنج صد فیصد عملی تھا۔ تاتاری کوئی تہذیبی یا فکری قوت نہیں تھے ۔ اس لیے بغداد پر قبضہ کرنے والے تاتاریوں کی دوسری نسل اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوگئی اور مسلمانوں کو ایک نیا خون اور جذبہ فراہم کیا۔ بقول اقبال

؎ ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
جبکہ مغربی اقوام کے نو آبادیاتی نظام میں فکری بنیادیں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں ، جدید اسلحہ سے لیس پورا لشکر بھی موجود تھا یعنی فکری اور عملی دونوں چیلنجز اس نو آبادیاتی نظام میں موجود تھے۔ دو سوسال کی بد ترین غلامی اور نو آبادیاتی دور نے امت مسلمہ کے وجود کو تار تار کردیا تھا اور امت سے اس کا حال ہی نہیں بلکہ اس کا ماضی اور مستقبل بھی چھین لیا تھا۔ پوری امت مسلمہ کے ماضی اور حال پر یورپی طاقتیں قابض تھیں اور ان کی عسکری اور سیاسی قوت اس کا مظہر تھی۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے علوم اور فنون کے مقابلے میں اپنے فنون لا کر کھڑے کردیے اورانہوں نے مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کے مقابلے میں لا کر کھڑا کردیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغربی طاقتوں کا چیلنج یونانی فکر اور تاتاریوں کے مجموعی چیلنج سے بڑا تھا۔ اس کے خلاف مزاحمت تو ضرور ہوئی لیکن 1857میں یہ مزاحمت بری طرح دم توڑ گئی۔ امت مسلمہ کے ماضی پر قبضے کی شکل یہ نکالی گئی کہ اس کی تاریخ، اس کی تہذیب اور اس کو اس کے پورے تہذیبی ورثے سے محروم کردیا گیا اور مسلمانوں کو اس کے ماضی پر تحقیر پیدا کرنے کی پوری کوشش کی گئی اور جب کوئی قوم اپنی تاریخ اور تہذیب پر شرمندہ ہونے لگے تواس کے مستقبل کو تاریک ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا اور مایوسی سے بڑی آفت اور آزمائش اس دنیا میں آج تک ایجاد نہیں ہوسکی۔
اس دور میں مسلمانوں نے مجموعی طور پر اسلام کو انفرادی معاملات تسلیم کرلیا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اب سیاست اور ریاست کے معاملات میں مغرب کا سکہ ہی چلے گا۔ یہ ہیں وہ حالات کہ جن میں امام سید مودی ؒ نے مسلمانوں کی’’ دفاعی حیثیت ‘‘کو ’’اقدامی حیثیت‘‘ میں ڈھال دیا۔ اور’’ شکست خوردہ نفسیات ‘‘ کو’’ فاتحانہ نفسیات‘‘ میں بدل دیا۔ مولانا مودودی ؒ نے اسلام کی’’ آفاقیت ، عالمگیریت اور اس کی کلیت‘‘ کا شعور عام کیا اور مسلمانوں کو فرقوں ،مسلکوں اور مکاتب فکر کی نفسیات سے بلند ہونا سکھایا ۔ مولانا مودویؒ نے اسلامی تصورات کی معنویت کو زائل کیے بغیر اسے عہد حاضر کی ذہنی ، نفسیاتی اور لسانی ساخت کے مطابق بیا ن کیا۔ استاد مکرم شاہنواز فاروقی صاحب کے بقول ’’ بڑاا ٓدمی وہ ہوتا ہے جس کا فہم اور شعور بسا اوقات پوری قوم کیا پوری امت کے فہم اور شعور سے بڑا ہوتا ہے۔ ‘‘ اور جب سید مودودی ؒ نے امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھا تو امت مسلمہ یورپی طاقتوں کی غلام تھی اور یورپی طاقتوں کا تسلط کمزور ہونے کی بجائے دن بدن بڑھ رہا تھا۔ مغربی تہذیب کا سورج نصف النہار پر چمک رہا تھااور مسلم دنیا میں مغربی تہذیب کے بچاریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے آغاز اور یورپی طاقتوں کے زوال میں ابھی بہت وقت باقی تھا۔ سید مودودی ؒنے مسلم دنیا کے آزاد ہونے کا خواب دیکھا ، اسلام کو اس کی اصل سپرٹ کے ساتھ زندہ کیا اور پھر اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو وقف کردیا۔ یہ ہے وہ اصل تجدید ی کارنامہ جو سید مودودی ؒ نے نہ صرف اپنے فکر و فلسفے سے بلکہ اپنے جدوجہد سے انجام دیا۔ احمد جاوید صاحب نے مولانا مودودی ؒ کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ــ’’مولانا کا کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ہزار گز سفید کپڑا عطا کیااور مولانا نے اس ایک ہزار گز سفید کپڑے پر ایک بھی داغ نہیں لگنے دیا۔‘‘ یعنی مولانا کی زندگی کے پچاس سال سیاست میں گزرے اور سیاست کو کوئلے کی کان کہا جاتا ہے۔ جبکہ مولانا نے پچاس سال اس کوئلے کی کان میں گزارے اور ایک ہزار گز سفید کپڑے کو ایک بھی دھبے سے محفوظ رکھا۔ مولانا مودوی ؒ کا علمی قد بہت بڑا تھا۔ مگر مولانا کے علم سے بھی زیادہ بڑی چیز مولانا کے الفاظ اور ان کے اندر موجود تاثیر تھی۔ بلا شبہ یہ تاثیر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت تھی کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں عطا فرماتے ہیں، کسی کے قلم اور کسی زبان میں یہ تاثیر پیدا کردیتے ہیں۔ مولانا کو اللہ تعالیٰ نے یہ خاص تاثیر عطا فرمائی کہ انہوں نے جو لکھا اس کا اثر ہوا ، ان کا اثر لاکھوں لوگوں پر ہوا، ان کا اثر کروڑوں لوگوں پر ہوا۔ ان کی زندگیاں بدلیں ، ان کی زندگیوں کے اندر انقلاب آیا اور انہوں نے اسلام پر فخر کرنا سیکھا ، اسلامی تہذیب پر فخر کرنا سیکھا۔ مولانا کے لٹریچر کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی کہ وہ دنیا کی پچھتر سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو کر پھیل چکا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے وگرنہ کوئی ریاست یا حکومت مولانا کی پشت پر نہ تھی۔سید مودودی ؒ کا بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ فقط فکری محاذ پر ہی نہیں بلکہ عملی محاذ پر ایک سپہ سالار کی طرح پورے لشکر کی قیادت کی۔ کیمونزم کو دریا برد کیا، قادیانیوں کے خلاف تاریخ ساز جدوجہد کی۔ سزائے موت کے فیصلے کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ تفہیم القرآن جیسی معرکۃ الآراء تفسیر معرض وجود میں آئی۔ نثر کو ایک نیا آہنگ عطا کیا۔تنقیحات ، الجہاد فی الاسلام، پردہ ، خلافت و ملوکیت، خطبات ، تعلیمات ، تجدید واحیائےدین جیسی تاریخی کتب معرض وجود میں آئیں۔
25ستمبر 1903ء سے لے کر 22ستمبر 1979ء تک کا یہ تاریخ ساز سفر جس کا ہر لمحہ ہر ساعت اور ہر آن اس بات کی گواہ ہے کہ سید نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی تجدید کے لیے وقف کی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی تشکیل کردہ جماعت نے اس کام کو جاری رکھا جو کہ لمحہ موجود تک جاری ہے۔ بلکہ اب تک تو مولانا کی تعلیمات اور فکر و فلسفہ دنیا کے ہر گوشے اور کونے میں کم و بیش پہنچ چکا ہے۔ اسلام عبادت کے ساتھ ساتھ قیادت کا نام بھی ہے۔ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کو لے کر چلنے کا نام بھی ہے۔ روحانیت کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد اور اقدام کا نام بھی ہے ۔ نماز کے ساتھ ساتھ سماجی اور اجتماعی زندگی میں خدا کے مطیع اور فرمانبردار ہوجانے کا نام بھی اور ان سب کے ساتھ ساتھ دنیا میں خدا کی حاکمیت کا نام اسلام ہے۔ ہر ایک پہلو دوسرے سے مربوط اور مضبوط ہے۔ انہیں ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہیں کیا جاسکتا ۔
اللہ تعالیٰ سید مودودی کی قبر کو نور سے بھر دے کہ جنہوں نے ہم جیسے کم فہم لوگوں کو بھی دین کا اصل فہم عطا کیا ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین