ہوم << ڈیورنڈ لائن: ایک نا قابلِ تردید حقیقت یا مفروضہ۔شبیر احمد

ڈیورنڈ لائن: ایک نا قابلِ تردید حقیقت یا مفروضہ۔شبیر احمد

حقائق کی جانچ پڑتال اور پرکھ کے لیے عمومی طور پر سلسلہِ روز و شب بطور کسوٹی کام کرتا ہے۔ حق کی ثباتی و بے ثباتی کا فیصلہ وقت سے متعین ہو جاتا ہے، کہ نسیمِ صبح دم کی آگاہی کس کے ہاں نصیب ہوئی۔ اس صورتحال کو اقبال نے اپنی شہرہ آفاق نظم "مسجد قرطبہ" میں یوں بیان فرمایا ہے کہ:
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہِ روز و شب، صیرفیِ کائنات

یہاں بات آئندہ یا مستقبل کی ہے جس تک انسان کی رسائی تاحال ممکن نہیں۔ تماش بین کی صورت وقت کی کروٹ کا محض تماشہ ہی کیا جاسکتا ہے کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ اس کے علاوہ حقیقت جانچنے کے لیے ایک اور آلہ بھی سالوں سے مستعمل ہے جس کا تعلق آئندہ کی بجائے گزشتہ سے ہے۔ میری مراد یہاں تاریخ ہے جو مورخوں کی بدولت کسی نہ کسی صورت ہمارے درمیان اپنا وجود رکھتی ہے۔ اس وجود میں سراغ رسانی سے دعووں ، مفروضوں، اور حوالوں کا بایں ہمہ سند اور مستند کی بحث کے ہوتے ہوئے بھی کھوج لگائی جاسکتی ہے۔ یہ تاریخ کی معاونت ہے کہ ہم آج کے مدعے کی تردید، توثیق، یا اکثر اوقات توضیح کرسکیں۔

اب آتے ہیں اس مفروضے کی طرف جس کی خاطر میں نے یہ ساری تمہید باندھی۔ افغانستان کے ایک دفاعی وزیر ملا یعقوب نے سالوں سے زیر بحث ڈیورنڈ لائن کو ایک بار پھر تنازع کا موضوع بنایا ہے۔ اگرچہ، بڑے باپ کے بڑے بیٹے سے یہ امید نہیں لگائی جاسکتی مگر اقتدار انسانوں کے رویے بدلنے میں اکثر مددگار ثابت ہوا ہے۔ موصوف نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ڈیورنڈ لائن آج بھی ایک فرضی لکیر ہے، اس مسئلے کو ہم حکومت پاکستان کے سامنے مناسب وقت پر اٹھائیں گے، کب؟ اس کا فیصلہ عوام کرے گی؟"

ڈیورنڈ لائن ایک حساس موضوع ہے اور اس کا تعلق براہ راست عوام کے جذبات کے ساتھ ہے۔ اس حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخی حوالوں کے بغیر اس پر بات کسی صورت ذمہ دار رویہ نہیں۔موصوف کو چاہیے تھا کہ وہ اصل کی طرف اشارہ کرتے اور کُل کے تناظر میں اس پر بات کرتے، مگر چہ ندارد

ذیل میں ہم ڈیورنڈ لائن کے تاریخی پس منظر کی بنیاد پر دیکھیں گے کہ آیا اسے آج مٹنا چاہیے یا نہیں۔ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ برصغیر میں آزاد پختون ریاست کا مطالبہ کوئی ایک صدی پرانا ہے۔ انیسویں صدی میں جب برطانیہ نے پختون علاقوں پہ قبضہ کرنا شروع کیا تو پختون ایک افغان قوم کے طور پر زندگی بسر کررہے تھے۔ برطانیہ کو ان علاقوں سے زبردست مزاحمت کا سامنا تھا۔ پختونوں کی اس مستقل اور پرتشدد مزاحمت کو کم کرنے کے لیے برطانیہ نے ہزاروں کی تعداد میں فوجی یہاں پر تعینات کیے۔ جب اس سے بھی یہ علاقے زیر اقتدار نہ آسکے تو اس تاریخی لکیر کی ابتداء ڈال دی گئی جو آج افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کے طور پر ڈیورنڈلائن کے نام سے موجود ہے ۔

1893 میں استعماری حکومت برطانوی ہند کے خارجہ سیکرٹری مورٹیمیر ڈیورنڈ نے امیر عبدالرحمان کی رضامندی سے یہ لکیر کھینچ دی۔ اس لکیر نے نہ صرف پختونوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا بلکہ عظیم افغانستان اور پختونستان کے نظریات کو بھی جنم دیا جو تادم ایں باقی ہیں۔ پختون وجود کا ایک دھڑا لکیر کے اس پار برطانوی ہند میں جبکہ ایک افغانستان میں رہ گیا۔ اس کے بعد حالات کو مزید پیچیدہ اس دوسری لکیر نے کیا جو برطانیہ نے اپنے دائرہ اختیار میں موجود پختونوں کے درمیان کھینچ دی جہاں کسی نے خود کو صوبہ سرحد تو کسی نے صوبہ بلوچستان میں پایا۔

ڈیورنڈ لائن کا اگرچہ بعد کی سیاست پر گہرا اثر رہا ہے، مگر یہ برطانوی استعماری پالیسی "تقسیم کرو اور حکومت کرو"کی زندہ مثال ہے۔ اس پالیسی نے خطے میں دو بڑے مطالبوں کو جنم دیا۔ پہلے مطالبے کے سرخیل صوبہ سرحد کے خان عبدالغفار خان اور ان کے پیرو تھے۔ پختون قومیت کا نعرہ بلند کیے یہ پختونوں کے اتحاد کے خواہاں تھے ۔ وہ اتحاد جو برطانوی پالیسی سے قبل تھا۔ پختونستان کے اس مطالبے کے بعد دوسرا مطالبہ کابل میں یکے یعد دیگرے حکومتوں کا تھا۔ کابل کا موقف رہا ہے کہ یہ لکیر بین الاقوامی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اس وجہ سے آج بھی اس کو فرضی اور اس کا مٹنا عظیم افغانستان کی تکمیل کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ افغان قیادت 1893 میں ڈیورنڈ لائن پرراضی تھی مگر 1949 میں حکومت افغانستان نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ سرحد کے دونوں جانب قوم پرستوں نے پختونستان یا عظیم افغانستان کے لئے کوششیں کیں اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ لکیر رہی ہے۔ تاہم صوبہ سرحد کے لوگوں نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے تقسیم ہند کے وقت 99 فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں دیا تھا، مگر ڈیورنڈ لائن پر یہ تناؤ برابر جاری رہا ۔ 1955 کو پاکستان میں ون یونٹ فارمولے کے خلاف کابل میں زبردست احتجاج کیا گیا۔ پاکستان اور افغانستان نے اپنے نمائندے تک واپس بلا لیے تھے۔ بات سفارتخانے پر لوٹ مار تک پہنچ گئی تھی۔

اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ حمید الحق چوہدری نے کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بین الاقوامی سرحد ہے اور رہے گی۔ جبکہ 2006 میں خان عبدالغفار خان کے بھائی عبدالولی خان کی وفات پر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اسے " نفرت کی لکیر" کہہ کر پکارا تھا۔

اب یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ 1893 کو جب یہ لکیر کھینچی جا رہی تھی تو امیر عبدالرحمان اس پر رضامند تھے۔ فقط رضامندی ہی نہ تھی جبکہ بعدازاں اس کی تنسیخ کی بھی کوئی تگ و دو نہیں کی گئی۔ یقینی طور پر یہ برطانیہ کے “تقسیم کرو اور حکومت کرو” پالیسی کا نتیجہ تھا، اب اگر کوئی یہ دعوی کر کے اٹھتا ہے کہ ان کے انخلاء کے بعد اس کو واپس ہوجانا ہے تو اس کی سطحیت پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس دلیل کے ماننے سے ہر اس چیز کو پھر زائل ہونا پڑے گا جو استعماری پالیسی کے تحت پروان چڑھی۔ تقسیم ہندوستان کو تنسیخ ہندوستان کا جامہ پہنانا پڑے گا کہ جس کا تعلق ناممکنات سے ہے۔

طرفہ تماشہ یہ بھی دیکھیے کہ لکیر کے کھینچنے کے 50 سال بعد کابل حکومت کو یہ خیال سوجھا کہ اس لکیر کی حیثیت فرضی ہے، لہذا اسے کرہِ ارض سے مٹنا چاہیے۔ آزادئ پاکستان کے بعد مشرق سے ہندوستان کا اندیشہ کیا کم تھا کہ شمال سے افغانستان بھی وقتاً فوقتاً مخاصمت میں مگن رہا؟ ڈیورنڈ لائن کے معاہدے کے وقت پاکستان فریق کیا بنتا اس کا ابھی وجود ہی نہیں تھا۔ یہ معاہدہ برطانیہ اور افغانستان کے مابین منصہ شہود پر آیا۔ اس لیے موصوف نے اگر یہ مسئلہ اٹھانا بھی ہے تو اصل فریق کو شامل تفتیش کرنے میں شاید بقا کا راز مضمر ہو۔

دفاعی وزیر نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کا فیصلہ عوام کرے گی کہ کب اس مسئلے کو قوت گویائی دیں۔ اس بات سے موصوف وزیر عوامی بننے کی کوشش کررہے ہیں مگر انہیں شاید علم نہیں کہ آپ اپنے عوام کو اس پر رضامند تو کر لیں گے، لیکن یہ سرحد کے دونوں پار لوگوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ سرحد کے اِس پار عوام نے آزادئ پاکستان کے وقت ہی ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسی لیے عوامی حمایت کے بغیر لفظی مراحل طے کیے جاسکتے ہیں مگر اس کو عملی جامہ پہنانا خواب ہی رہے گا۔