سوشل میڈیا پر آپ کا قرآن مجید کے لئیے ایک اسٹیٹس ڈال دینا اس بات کا غماز ہے کہ آپ اس کتاب سے کتنا لگاؤ رکھتے ہیں، آپ کے دل میں اس کی کتنی قدر ہے اور آپ کس حد تک اپنے عمل سے اس کتاب کا دفاع کرنا چاہیں گے۔
سنہ 2006 کی بات ہے، میں ایک جمعہ کا خطبہ سن رہا تھا۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے عروج پر جاچکی تھی۔ اس خطیب نے ایک بات کہی کہ اس جنگ کا ہدف آپ کے قریہ و کوچہ و بازار تو ہے ہی، مگر اس کا اصل ہدف آپ کا گھر ہے اور اس گھر میں کسی نہ کسی طور لولا لنگڑا اسلام ہے، جس پر عمل تو شاید ہم نہ کرتے ہوں مگر اسے بہرحال اپنی پہچان بنائے بھیٹے ہیں۔ اس گھر کے ہدف میں پہلا اور آخری ہدف قرآن ہوگا۔
ہم جیسے نیم حکیم، نام نہاد پڑھے لکھے لوگ دل ہی دل میں ان عالم صاحب کے باتوں پر ہنس رہے تھے کہ کہاں کی بات کو کہاں جوڑ رہے ہیں۔ بھلا قرآن سے ان کا کا کیا مسئلہ۔ اگر کسی نے قرآن کو غلط استعمال کیا ہے تو یہ لڑائی تو اس کے خلاف ہوگی، قرآن یا اس کے مندرجات سے ان تمام قوتوں کا کیا لینا دینا۔
مگر ہر گزرتا دن اور گزرتی شب اس بات کو مسلسل ثابت کرتی رہی جو ان عالم نے اس خطبہ میں کہی تھی۔ وہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے لوگوں کی بدمزہ لکھائی ہو، وہ ٹیری جونز کی قرآن پر ہرزہ سرائی ہو، وہ ان تمام اقدامات کو سراہنے والے اپنے ہی لوگ ہوں، وہ سویڈن میں قرآن کو نذر آتش کرنا ہو یا ناٹو کا اس بدبخت قدم کو آزادی اظہار رائے قرار دینا ہو، یہ سب کا سب ایک ہی بات کا اشارہ ہے کہ ان کا ہدف قریہ، کوچہ اور بازار نہیں، وہ منبع ہے جس سے قدوسیوں کا شیر پھر بیدار ہوسکتا ہے۔
اور یہاں ان کو ایک اور فتح حاصل ہوئی ہے۔ جب ہم نے قرآن کو سمجھنا چھوڑا، اس کی آیات کو تھوڑی قیمت پر بیچا، اسے کو صرف شبینہ، ختم، شب برات جیسے معمالات کے لئیے رکھ چھوڑا، صرف دم درود اور مردوں کو بخشوانے والی کتاب سمجھا، جب ہمیں لگا کہ قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا شاید ہمارے بس سے باہر کا معاملہ ہے، جب ہمیں یہ افیون پلائی گئی کہ قرآن تو فرقوں میں بانٹنے والی کتاب ہے، اس کے صرف بغیر سمجھ کر پڑھنے پر ہی ثواب ہے، تو پھر کوئی اس کے مندرجات پر تنقید کرے، اس کا رد کرے، اسے جلائے، اس کی ہرزہ سرائی کرے یا اسے انسانیت کے لئیے ایک فتنہ قرار دے، تو نہ تو ہمارے دل دھکتے ہیں، نہ تڑپ پیدا ہوتی ہے اور نہ کوئی بہترین جواب بن پاتا ہے۔ اور بات صرف اور صرف ایک سوشل میڈیا کے اسٹیٹس تک رہ جاتی ہے کہ وہ بھی بحثیت مسلمان اب رسم دنیا ہے۔ نہ کیا تو لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے!!
اے کاش کے اللہ ہمارے دلوں اور دماغوں میں یہ بات اتار دیں کہ یہ فساد ہمارے اپنے ہاتھوں کے کمائے ہوئے ہیں۔ جہالت سے لے کر جرم ضعیفی تک کا سفر ہم نے خود بخوشی و رغبت طے کیا ہے اور اب کوئی ہمیں تباہ کرے، یا ملیا میٹ، ہم وہن کی بیماری کا شکار لوگ اسی سمندر کی جھاگ کی طرح ہیں جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ کیا تھا۔
قرآن کو ہمارے سوشل میڈیا، واٹس ایپ، انسٹا اور ٹویٹر کے اسٹیٹس کی نہیں، ہماری بیدار روحوں کی ضرورت ہے، وہ جن اجسام میں ہوں ان کے قوت بازو کی ضرورت ہے، ان اجسام کے دلوں کی حرارت کی ضرورت ہے۔
اللہ ہمیں اس سوشل میڈیائی غیرت سے نجات عطا فرمائے اور جب وقت قیام ہو تو سجدے میں گرنے سے بچائے۔ آمین۔
تبصرہ لکھیے