ہوم << عدم برداشت اور سماج-نصر اللہ گورائیہ

عدم برداشت اور سماج-نصر اللہ گورائیہ

پاکستانی سماج آہستہ آہستہ ایک Abnormalمعاشرے میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ جو بحیثیت مجموعی ہم سب کے لیے ایک خطرے کی علامت ہے۔ جب کسی انسان کے پاس دلیل کی قوت باقی نہ رہے تو وہ گالم گلوچ پر اتر آتا ہے۔ سنجیدگی ، متانت اور وقار پر سطحیت کا غلبہ ہوجائے تو بات کرنا دشوار تر ہوجاتا ہے۔ قلم او ر کتاب ، ادب اور آرٹ زندگی کی قوس قزح ہیں کہ جن سے زندگی روشن اور پائندہ تر رہتی ہے۔ سیاست بنیادی طو ر پر ریاست کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کا نام اور آرٹ ہے۔ جس کے نتیجے میں نظمِ معاشرہ ترقی پاتا ہے اور پھر ان تمام دائروں کو خوبصورتی کے ساتھ فرد اور معاشرے کے لیے مفید اور کار آمد بنایا جاتا ہے۔ دین اور نظریہ ان تمام اکائیوں میں سے سب سے جدا اور طاقت ور اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات چونکہ تمام ادیان پر غالب اور فوقیت رکھتی ہیں ، اس لیے یہ سب سے قوی اور مضبوط اکائی ہے جو انسانوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح پرو دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک خوبصورت اور نظریاتی سماج تشکیل پاتا ہے۔ جہاں انسانیت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ضوفشاں نظر آتی ہے۔ جہاں ہمدردی اور غم گساری سماج کے رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے اور پھر ہر فرد اور انسان اس کی چلتی پھرتی تصویر نظر آتا ہے۔ یہ فریضہ اور یہ کام نظریے کی موجودگی کے بعد قیادت سرا نجام دیتی ہے۔ یہ قیادت ہی ہے جو پتھر دل انسانوں کو موم کی طرح پگھلا کر اپنے رب کے سامنے کھڑا کردیتی ہے۔ یہ قیادت ہی ہے جو صحرائوں کو گل و گلزار بنادیتی ہے۔ یہ قیادت ہی ہے جو ممولے کو شہباز سے لڑانے کا فن اور ہنر جانتی ہے۔ یہ قیادت ہی ہے جو ریوڑ اور ہجوم کو ایک قوم اور ایک منظم سماج میں تبدیل کردیتی ہے۔ یہ قیادت ہی ہے جو منزل ، نشانات اور سنگ ہائے میل کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ قیادت ہی ہے جو راستے کی مشکلات اور گھاٹیوں کو عبور کرنے کا عزم اور حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ قیادت امید اور روشنی کا دوسرا روپ ہے۔ قیادت واقعتا ہواؤں اور دریائوں کے رخ کو تبدیل کردیتی ہے اور ہماری روشن تاریخ ایسی ہزاروں مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
پاکستانی سماج کا تانا بانا بہت تیزی سے بکھر رہا ہے اور اس کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کو 9مئی کے واقعات میں نظر آئے گی۔ وہ تو کوئی اللہ کی رحمت ہی ہوئی کہ افواج پاکستان اور عوام آپس میں گتھم گتھا نہیں ہوپائیں وگرنہ اگر کہیں پر بھی اس طرح کا سانحہ اور حادثہ رونما ہوجاتا تو حالات شاید اس سے بھی بدتر ہوجاتے۔ کیونکہ ہجوم کی اپنی نفسیات اور مزاج ہوتا ہے اور اس کا ہلکا سا ٹریلر اس دن آپ نے لائیو اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن بد قسمتی سے بجائے اس کے کہ اس کی گہرائی اور دور تک پھیلے ہوئے عوامل کا جائزہ لیا جاتا ، ایک غیر اعلانیہ مارشل لاء اور جنگ مسلط کردی گئی۔ پکڑ دھکڑ ، تھانہ اور جیل ، عدالت اور انصاف بے چارے تو بے بس ہی نظر آئے۔ صرف 15دن کے اندر اندر پوری کہانی کو سمیٹ دیا گیا ۔ لہٰذا جنہوں نے پورے نازو نخرے کے ساتھ ان کی آبیاری کی تھی ، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اس جھاڑ اور جھنکار سے جان چھڑا لی اور پھر وہ منظر بھی آسمان اور زمین نے دیکھا کہ اکٹھے ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھانے والے ، ہماری ریڈلائن اور بارڈر لائن کی مالا جپنے والے جس تیزی کے ساتھ نکلے اتنی تیزی سے تو تسبیح کا دھاگا بھی اگر ٹوٹ جائے تو تسبیح کے دانے اتنی تیزی سے نہیں بکھرتے ۔ اتنی تیزی سے تو مٹھی میں سے ریت بھی نہیں نکلتی ۔ اتنی تیزی سے تو کوئی چڑھا ہوا دریا اور سمندر بھی نہیں اترتا۔ یہ معجزہ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
بقول شاعر
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو میرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
نور مقدم کا دل خرا ش واقعہ لاہور کے پوش تعلیمی اداروں میں ہونے والی ہوش ربا سرگرمیوں پر مبنی رپورٹس ، جامعات میں زبان ، نسل پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان ، اور حکومتی سطح پر اس کی سرپرستی ، کامسیٹس یونی ورسٹی کا وہ پیپر جس نے سماج کی چولوں کو ہلا کر رکھا دیا۔ 7اور 8بجے شروع ہونے والے ٹاک شوز اور ان میں بلائے جانے والے مہمانان ، ان کی گفتگو ، ان کا طرز تکلم ، ان کا لہجہ ، الزام تراشی اور گالم گلوچ پر مسکراتے ہوئے اینکر اور اس تماشے کو دیکھتے ہوئے عوام اور پھر ان کے ہر جھوٹ کا دفاع کرتے ہوئے ربورٹس ، عقل و خرد سے عاری قلم اور کتاب سے دور ، اخلاق اخلاقیات سے کوسوں دور ، پھر وی لاگرز ، بلاگرز ، یو ٹیوبرز ، موٹیویشنل سپیکر کا ہجوم اور جائز و ناجائز پسندیدگیوں (Likes)اور یوٹیوب لوگرتھم کی دوڑ اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے ڈالرز نے انسانی دماغوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کا شدید اثر انسانوں صحت اور مزاجوں پر بھی پڑا ہے۔پارلیمنٹ جو پاکستان کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے،پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر سیاست دانوں کا گالم گلوچ کرنا، ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا اور دلیل کی بجائے آواز کو اونچا کرنا اور گلے پھاڑ کر چیخنا اور چلانا اور آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرناان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
اس لیے آپ ہر گلی محلے ، ہر بس سٹا پ پر اونچی اونچی آوازوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ دست و گریباں ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جو کہ ایک نفسیاتی مریض معاشرے کی عکاس ہے۔ ہر پارٹی کا سربراہ اس کی زہر اگلتی زبان ، اس کا کاٹتا ہوا لہجہ ،آنکھوں میں اترا ہو ا خون، جلا دو، گرادو ، پکڑ لو، نہیں چھوڑیںگے، معاف نہیں کریں گے، الٹا لٹکائیںگے، تم روئے گے، تمہاری نسلیں بھی روئیںگی، کیا یہ الفاظ کسی بھی طرح سے کسی بھی اعتبار سے ، کسی بھی قاعدے اور قانون سے کسی بھی قائد اور لیڈر کو زیب دیتے ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں نیچے ورکرز کی سطح پر جو رجحان پروان چڑھتا ہے اس کا مشاہدہ میں اور آپ روزانہ کرتے ہیں۔
قائد اعظم پاکستان کے قیام کے فوراً اور بالخصوص قائد اعظم کی وفات کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ان کا تسلسل ہنوز جاری ہے۔ حتیٰ کہ مشرقی پاکستان جیسے سانحے اور المیے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنی صفوں کو درست کرتے ،غلطیوں کا ازالہ کرتے ، مظلوموں کی داد رسی کرتے، عدل و انصاف پر مبنی نظام کو ہر سطح تک نافذ کرتے، یکساں اور قومی امنگوں کے ہم آہنگ نظام تعلیم کو اپنی قومی زبان میں جاری کرتے لیکن بد قسمتی سے یہ اور ان سے جڑے ہوئے سینکڑوں کام ہماری قیادت نہ کرسکی۔
ہم بصد احترام گزارش کرتے ہیں کہ یہ بناؤ اور گراؤ کی آنکھ مچولی اب ختم ہونی چاہیے، یہ دوہرا نظام اب چل نہیں سکے گا۔ کیونکہ جن کو آپ نے چور اور ڈاکو ثابت کرکے وطن بدر کیا ، انہیں کو صادق اور امین کے خطابات ادا کرکے دوبارہ مسند اقتدار پر عزت بخشی ۔ اور جن کے ہاتھوں اور کندھوں پر بندوق رکھ کر آپ نے یہ سارا فریضہ سر انجام دیا ، جن کی پلکوں کے جھپکنے سے پہلے قانون تبدیل ہوجایا کرتے تھے۔ جن کے لاڈ اور پیار میں آپ نے کوئی کسر نہ چھوڑی ، جن کو مصنوعی آکسیجن دے کر آپ نے لمبا عرصہ زندہ رکھا۔ جونہی آپ نے وہ آکسیجن دوسرے مریض کو لگائی تو اس کی اکھڑی ہوئی سانسیں بحال ہونا شروع ہوگئی ۔ آنکھوں میں چمک اور روشنی پیدا ہوگئی۔ در بدر بھٹکنے ، چوکوں ا ور چوراہوں میں خوار ہونے والے ووٹ کو عزت ملی تو وہ پھولا نہ سمایا اور اس کی خوشی دیدنی تھی۔ اس کے ہونٹوں اور رخساروں کی تمازت بتارہی تھی کہ کسی مسیحا نے اس کی جلتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور اگر کسی کے پلیٹ لٹس پورے نہیں ہو رہے تھے تو اچانک معجزاتی طور پر پورے ہونا شرو ع ہوگئے۔ کسی کی ٹانگ نصف صدی سے ٹھیک نہیں ہورہی تھی تو اچانک اور یک دم کالے جادو کے نتیجے میں وہ نہ صرف ٹھیک ہوئی بلکہ مریض نے پہاڑوں پر ہائیکنگ کے شوق کا اظہار بھی کردیا یعنی اس درجہ کی بہتری محسوس کی گئی ، اس دم اور درود کے نتیجہ میں۔
تو سر پلیز! ایک طرف یہ اور اس طرح کی سینکڑوں طلسم ہوش ربا کہانیاں اور داستانیں ہیں جبکہ دوسری طرف محرومیاں ، غربت اور جہالت ہے جو دن بدن اس دیس کو کھائے جارہی ہے۔ معاشی شرح نمو میں کمی ، انسانی جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 20فیصد سے زائد اضافہ ، کپاس کی مجموعی پیداوار میں کمی اور اس سے ملحقہ صنعتوں پر ہونے والے اثرات ، پاکستان کی اسٹیل اور لوہے کو صنعت کو درپیش خطرات ، بڑھتا ہو ا افراط زر ، اور اس کے نتیجے میں انسانی مزاج میں پیدا ہونے والی بیماریاں جن میں خودکشی ، ڈپریشن ، بلڈ پریشر اور دیگر نفسیاتی امراض خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ میدان ہے جس میں اس وقت ایمرجنسی لگا کر حالات کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے جب کہ پوری صلاحیتیں اور توانیائیاں کسی دوسری سمت میں لگائی جارہی ہیں۔ آگ اور بارود کے دھانے پر کھڑا بلوچستان جس بصیرت اور دور اندیشی کا متقاضی ہے ،اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آپ نے بہت تجربات کیے لیکن آپ نے ان تجربات سے ایک حرف بھی نہ سیکھا اور آپ نے دوبارہ وہی اور ویسی ہی غلطیاں کیں جو آپ پچھلے پچھتر سال سے چلے آرہے ہیں۔ لہٰذا کہیں رک کر ! گزرے ہوئے ماہ و سال کا جائزہ لیں ۔ اپنی غلطیوں کا ہمارے سامنے نہ سہی ، رب کے سامنے اعتراف کریں اور ایک قوم کو بنانے اور سنوارنے کے لیے جو مواد درکار ہوتا ہے وہ سارا مواد آپ کے پاس موجود ہے۔ 60فیصد سے زائد نوجوان جو مٹی کو سونے میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہوں ، جو ہوائوں کے رخ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور جن کا ماضی ان کے حال اور مستقبل کی نشاندہی کررہا ہو، آپ کے منتظر ہیں۔ لہٰذا ریاست کے تمام ستونوں کو ان کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی قسم کی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اللہ اور اس کے رسول کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو منزلیں ہمارے قدم چومیں گے۔ اس لیے ایک صاف اور شفاف الیکشن کمیشن کا قیام ، محب وطن نگران حکومت نہ کہ کٹھ پتلیوں کی حکومت اور پھر آئین و دستور کے مطابق فری اینڈ فیئر الیکشن ہمارے ملک کے حالات کا تقاضا ہے اور پھر جس پارٹی کو بھی لوگ مینڈیٹ دیں اس کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے ، اس کو اپنی مدت میں کام کرنے کی آزادی دی جائے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین اور بلدیاتی الیکشن کا پورا ڈھانچہ از سرنو ترتیب دیا جائے۔ وقت اور حالات کے مطابق ان میں تبدیلیاں کی جائیں تاکہ ایک مصنوعی اور ہائبرڈ قیادت کی جگہ ایک جنوئین اور با صلاحیت قیادت ملک کا نصیب بنے ۔ جماعت اسلامی اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ قیادت اور کارکن رکھتی ہے اور جہاں جہاں موقع ملا جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اس ملک کا واحد حل صرف جماعت اسلامی ہے۔
آئیے ! ہمار ا ساتھ دیجئے ۔ ہمارے شانے کے ساتھ شانہ ملائیے تاکہ اس غلیظ اور بد بودار نظام کو دریا برد کیا جاسکے۔