آج کل ہم ہی نہیں، ہماری طرح کے بہت سے ایسے قارئین جو زبان وبیان اورشعرو ادب کے رسیا ہیں۔ ہفت روزہ ”فرائیڈے اسپیشل“ کو اُلٹی طرف سے پڑھنا شروع کرتے ہیں، یعنی آخری صفحہ سب سے پہلے پڑھتے ہیں۔ اس صفحے پر جناب اطہر ہاشمی ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ کے مستقل عنوان سے ہر ہفتے بڑی شگفتہ، دلچسپ اور پُر اثر نثر میں غلط العام اور غلط العوام زبان کا محاکمہ کرتے ہیں۔ اس تحریر سے زبان و بیان کی اصلاح بھی ہوتی ہے اور تذکیر و تانیث کی وہ اغلاط بھی درست ہوجاتی ہیں جو ہمارے صوبہ خیبر پختون خوا سے تعلق نہ رکھنے والے ’’صوبےدار‘‘ بھی بڑے دھڑلّے سے کرتے رہتے ہیں۔
تذکیر و تانیث پر ایک دلچسپ قصہ یاد آگیا۔ یہ قصہ ہمارے ایک ایسے دوست نے سنایاتھا جو خود بھی تذکیر و تانیث کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ یہ کہانی اُنہی کی زبانی سنی جائے۔ کہتے ہیں:
اُردو کے ایک پروفیسر صاحب کی بابت یہ سُنا تھا کہ اگر کوئی شخص اُن سے کوئی سوال کربیٹھیے توموصوف اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے تھے جب تک پوری تفصیل اور مکمل تحقیق کے ساتھ اُس سوال کا درست جواب فراہم نہ کردیں اور سائل کی مکمل تسلی و تشفی سے خود بھی مطمئن نہ ہوجائیں۔ تو صاحب ! اِس عاجز نے یہ سُن تورکھا تھا، مگر کبھی خود اس کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ تاہم ایک روز یہ بھی ہوگیا۔
ہوا یوں کہ ایک دن میں ایک کتب خانے میں بیٹھا ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اتفاق سے وہاں پروفیسر صاحب بھی غالباً کوئی تحقیقی مقالہ تحریر کرنے میں مصروف تھے۔ پڑھتے پڑھتے میرے ذہن میں ایک سوال اُٹھا اور میں نے موقع غنیمت جان کر وہ سوال پروفیسر صاحب سے کر لیا:
’’سر! یہ بتائیے، بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟‘‘
پروفیسر صاحب نے بے حد مصروف ہونے کے باوجود میری جانب توجہ فرمائی۔ اپنے کام کی طرف سے نظریں ہٹاکر تھوڑی دیر تک قلم دانتوں تلے داب کر کچھ سوچا، پھر فرمایا:
’’میاں! بلبل مذکر ہے!‘‘
میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور مطمئن ہوکر اپنے مطالعے میں دوبارہ منہمک ہو گیا۔
اس واقعے کے چند روز بعد کا ذکر ہے کہ ایک شام میرے دروازے پر دستک ہوئی۔ گھر میں کچھ مہمان بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اُن سے معذرت کرکے باہر گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پروفیسر صاحب دروازے پر کھڑے ہیں۔ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ میں ذرا پریشان بھی ہوا کہ مہمانوں کی موجودگی میں پروفیسر صاحب کو کہاں بٹھاؤں؟ خیر میں نے قدرے گھبرائے ہوئے لہجہ میں کہا:
’’پروفیسر صاحب! خیریت تو ہے؟ آپ؟ میرے غریب خانے پر؟ اس وقت؟ ذراایک منٹ ٹھہریے، میں آپ کے لیے بیٹھنے کا بندو بست کرلوں‘‘۔
مگر پروفیسر صاحب نے میرا بازو تھام کر مجھے روکا اور کہا:
’’نہیں، نہیں۔ اس تکلف کی ضرورت نہیں۔میں صرف یہ کہنے آیا تھا کہ اُس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟ اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر ہے۔لیکن آج ہی مرزا غالبؔ کا یہ مصرع نظر سے گزرا:
’بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں‘
غالبؔ کا شمار چوں کہ اہل زبان اور مستند شعرا میں ہوتا ہے،چناں چہ اِ س مصرع کی رُو سے بلبل مؤنث ہے۔آج سے بلبل کو مؤنث جانیے‘‘۔
میرا سر اُن کے احسان کے بوجھ سے جھک گیا۔ میں نے اُن کے خلوص و محبت کا تہِ دل سے شکریہ ادا کیا کہ بے چارے صرف تصحیح کرنے کے لیے اتنی دُور سے میرے گھر تشریف لائے۔ میں ان سے بہت متاثر ہوا۔ مجھے یہ شعر بھی یاد آیاکہ:
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں
مگرابھی اس واقعے کو بھی چند ہی روز گزرے ہوں گے کہ ایک روز علی الصبح میرے گھر پر زور زور سے دستک ہوئی۔ میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ آنکھیں ملتا ہوا باہر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے ہیں۔ جلدی جلدی ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر اُنہیں اندر بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب پوچھا۔ پروفیسر صاحب نے فرمایا:
’’میاں چند روز قبل میں نے آپ کو بتا یا تھا کہ غالبؔ کے مصرع کی رُو سے بلبل مؤنث ہے۔ لیکن آج میں نے کسی کام سے کلیاتِ اقبالؔ کھولی تو اُن کے اس شعر پر نظر پڑگئی:
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا
علامہ اقبالؔ چوں کہ شاعرمشرق، مصور پاکستان اور حکیم الامت ہیں، چناں چہ ہمارے لیے اُن سے زیادہ مستند بات کس کی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا علامہ کے اس شعر کی روشنی میں آپ بلبل کو مذکر ہی گردانیے‘‘۔
میں نے ایک بار پھر اُن کا شکریہ ادا کیا اور اُن کے جانے کے بعد اللہ کا شکر بھی ادا کیا کہ چلو اِس بلبل سے تو اب جان چھوٹی۔ مگر یہ میری خوش فہمی تھی۔
ابھی بلبل کو مذکر ہوئے ایک ہی ہفتہ گزرا ہوگا کہ ایک شام جب میں ٹیلی وژن پر ایک دھواں دھار اور دلچسپ سیاسی مباحثہ و مکالمہ و مقابلہ دیکھنے میں مگن تھا، دروازے پر دستک ہوئی۔ بادل ناخواستہ باہر نکل کر دیکھا تو پروفیسر صاحب ایک بار پھر کھڑے تھے۔ اُن سے کچھ ہی فاصلے پر ایک شخص ایک گدھے کی لگام تھامے کھڑا تھا جس کے دونوں طرف بہت سی کتابیں لدی ہوئی تھیں۔ آج پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ بھی نظر آرہی تھی۔ میں نے تعجب سے پوچھا:
’’پروفیسر صاحب! یہ کیا؟!!!‘‘
پروفیسر صاحب اُسی فاتحانہ مسکراہٹ سے گویا ہوئے:
’’میاں اُس روز آپ کے یہاں سے جاکر میں نے سوچا کہ غالبؔ بھی بڑے شاعر ہیں اور اقبالؔ بھی ۔چناں چہ میں نے آپ کے سوال پر پھر تحقیق شروع کردی اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا۔ سو،میں نے بڑی محنت سے آپ کے لیے یہ کتب جمع کی ہیں۔ اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی ہوئی ہیں، اُن کی رُو سے بلبل مذکر ہے، جب کہ بائیں جانب لدی ہوئی کتابوں کی رُو سے بلبل مؤنث ہے۔ یہ کتابیں اُتروالیجیے۔ ان کا مطالعہ کیجیے۔ آپ جس رائے سے اتفاق کریں گے اُس پر آپ سے گفتگو رہے گی۔ ان کتابوں کی واپسی کی جلدی نہیں ہے۔ اطمینان سے پڑھ کر واپس کیجیے گا۔ ہاں اِس گدھے والے کو کچھ کرایہ عنایت کر دیجیے گا۔ اب میں چلتاہوں‘‘۔
پروفیسر صاحب تو چلتے بنے۔ مگر میرا سر چکرانے لگا۔ میں وہیں سر تھام کر بیٹھ گیااور اُس وقت کو کوسنے لگا جب میں نے پروفیسر صاحب سے یہ دریافت کیا تھا کہ:
’’سر! یہ بتائیے، بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟‘‘
٭٭
تبصرہ لکھیے