ہوم << کوٹا سسٹم کے شاخسانے - حبیب الرحمن

کوٹا سسٹم کے شاخسانے - حبیب الرحمن

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے موجودہ حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت اتنی تباہ و برباد ہو کر رہ گئی ہے کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران تقریباً آٹھ لاکھ نہایت پڑھے لکھے، ہنر مند اور قابل نوجوان روزگار کیلئے ملک چھوڑ کر باہر جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

فواد چوہدری ہی کے ایک سابقہ بیان کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے اٹھارہ ماہ میں سولہ لاکھ اہل، قابل اور ہنر مند نوجوان ملک سے باہر جاکر ملازمتوں پر لگے تھے۔ موجودہ شہبازی حکومت میں بھی بے روزگاری اور معیشت کی تباہی کا یہ عالم ہے کہ روزگار کے مواقع مفقود ہیں اور پی ٹی آئی کے دور میں بھی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں تھی۔ لیکن بیان کرنے والے کی سوچ کی رسائی پہلے اسے کسی اور نظر سے دیکھ رہی تھی اور شہباز شریفی دور میں اس کے نقطہ نظر میں بہت تبدیلی دیکھی گئی۔ فواد چوہدری کی سوچ کے مطابق اب جتنے بھی قابل نوجوان ملک سے باہر جانے پر مجبور ہوئے ہیں وہ محض اس لئے ہوئے ہیں کہ موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے .

لیکن پی ٹی آئی کے پہلے اٹھارہ مہینوں میں نوجوان طبقہ اس لئے باہر جا رہا تھا کہ عمران خان کی بہترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے نوجوانوں کیلئے باہر کی دنیا نے روزگار کے سارے دروازے اور کھڑکیاں چوپٹ کھول کر رکھ دی تھیں۔ میری اس سے کوئی بحث نہیں کہ پاکستان کے نو جوان ہر سال لاکھوں کی تعداد میں کیوں باہر جایا کرتے تھے اور اگر اب بھی جا رہے ہیں تو اس کی اصل وجہ کیا ہے، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے جوانوں اور نو جوانوں کا باہر جانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ آج تک بند نہ ہو سکا جو اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان کے اقتصادی اور معاشی حالات اس وقت سے خراب ہونا شروع ہو گئے تھے جب پاکستان کے ہر اہم ادارے، جیسے پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، پاکستان پوسٹ، ٹی این ٹی وغیرہ، ان سب میں "کوٹا سسٹم" لاگو کیا گیا تھا۔ یہ سسٹم بے شک کراچی کے عوام کا معاشی قتلِ عام تھا.

لیکن ملک کے کرتا دھرتاؤں کو شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ کراچی کی تباہی ملک کی تباہی اور کراچی کی خوشحالی پاکستان کی خوش حالی سے وابستہ ہے۔ کراچی پاکستان کا مائی باپ ہے اور اس کی اس حیثیت کو تاقیامت ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بات فقط کوٹا سسٹم کی حد تک ہی محدود رہتی تو شاید پاکستان پھر بھی آگے کی جانب گامزن رہتا لیکن معاشی قتلِ عام سے بڑھ کر بات اہلِ کراچی کے قتل عام تک بڑھ جانے سے جس صورتِ حال نے جنم لیا، وہ میرے نزدیک ایک ایسا ناقابلِ تلافی نقصان ہے جس کا ازالہ پوری ایک صدی مانگتی ہے۔

قتلِ عام کا سلسلہ پاکستان بننے کے چند ہی برس پہلے ایوبی دورِ حکومت میں ہی شروع کر دیا گیا تھا۔ اس قتل عام کی ضرورت اور وجوہات کیا تھیں یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن اس سلسلے کو آج تک جاری رکھا گیا ہے۔ رد عمل کے طور پر جو کچھ سامنے آیا اس کو سمجھنے کی بجائے اہلِ کراچی کو کبھی بھارتی ایجنٹ، کبھی غدارِ وطن، کبھی تعصبی، کبھی را کہا گیا اور کبھی کافر کافر کے نعرے مار کر قتل کیا گیا۔ فی زمانہ کسی بھی عدالت کے فیصلے کے بغیر سیاسی سر گرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندیوں کی آڑ میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ملازمتوں کے مواقعوں کے دروازے تک بند کر دیئے گئے۔

حالات کے مسلسل خراب ہونے کی وجہ سے نہ جانے کتنی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور کتنی کراچی سے منتقل کی جا چکی ہیں۔ میرٹ کی بجائے کوٹا سسٹم نے واپڈا، ریلوے، سوئی گیس، ٹی اینڈ ٹی، پاکستان اسٹیل مل، اور پاکستان پوسٹ جیسے اہم ترین حکومتی اداروں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ صنعتوں کی بندش اور ان کی منتقلی نے ایک جانب بے روزگاری میں ہوش ربا اضافہ کردیا ہے تو دوسری جانب مصنوعات کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ انھیں پاکستان سے باہر کی مارکٹوں میں فروخت کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑانے، سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کرنے، کام نہ کرنے کے عوض تنخواہیں تقسیم کرنے اور کام کرنے کے عوض رشوتوں کے بازر گرم ہونے کی وجہ نے ملک کی قسمت کو اس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے ہر راستہ تباہی و بربادی کی منزل کی جانب جاتا ہوا نظر آتا ہے۔

جس ملک میں حکومت عدم استحکام کا شکار ہو، اہلیت ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی ہو، سیاسی پارٹیوں کی سفارش پر ہر لنگڑے لولے کو ملازمت مل جاتی ہو، طاقتور حلقے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہر ہر اہم اور غیر اہم پوسٹوں پر چھائے ہوئے ہوں، آواز اٹھانے والوں کے گلے گھونٹ دیئے جاتے ہوں، اصلاح کرنے والوں کو زندگیوں سے ہی آزاد کردیا جاتا ہو، چوروں کو لوٹ مار کے اجازت نامے ملتے ہوئے ہوں، زرداروں اور سرداروں کے خلاف قانون کی ٹانگیں حرکت میں آتے ہوئے کپکپاتی ہوں، طاقتور اداروں کی من مانی چلتی ہو اور انھیں قانون کو گھر کی لونڈی باندی بنا کر رکھنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہو تو لاکھوں، قابل، اہل، ہنر مند جوانوں کا ملک چھوڑ کر جانا کوئی انہونی بات کیسے ہو سکتی ہے۔

یہ سب اسی سسٹم کے شاخسانے ہیں جس کا نفاد تو 20 برس کیلئے کیا گیا تھا لیکن اب وہ قیامت تک کیلئے نافذ ہو چکا ہے۔ جس ملک میں بسنے والی ساری قوموں کو باہر سے آنے والے لوگ ہی ہضم نہ ہوتے ہوں، جو معاشی حب کی ترقی پر نہ خوش ہوں، جن کے نزدیک اہلیت کی اہمیت دھول مٹی کے برابر بھی نہ ہو، ان قوموں کا ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے۔ حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ بہت بڑی جراحی بھی شاید اس کی بیماری کو دور کر سکے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پوری قوم تنگ نظری کو ترک کرکے وسعتِ قلبی کے ساتھ ایک دوسرے کو قبول کرے.

اور اس بات کو گرہ میں باندھ لے کہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کا راز صرف اور صرف کراچی اور اہلِ کراچی ہیں۔ کراچی ترقی کرے کا، پُر امن ہوگا تو ملک ترقی کریگا اور پُر امن رہے گا۔ ماضی و حال کی صورتِ حال سب کے سامنے ہے اور فیصلہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کو از خود کرنا ہے۔

Comments

Click here to post a comment