قومی ریاست کی حقیقت و ماہیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قوم پرستی کے آغاز، موجدین، خصوصیات اور ارتقا کو سمجھا جائے۔ قوم پرستی کا پہلا موجد انگلینڈ ہے. فرانس، جرمنی، روس اور امریکا اسی سے متاثر ہیں۔ قوم پرستی کا خاصا یہ ہے کہ اس میں فرد کی شناخت کا سرچشمہ قوم ہوتی ہے۔ قوم حاکمیت کی مالک، وفاداری کا مرکز اور معاشرتی اتحاد کی بنیاد ہوتی ہے۔ قوم افراد کا گروہ ہوتی ہے جو مختلف حیثیتوں، طبقات، خطوں اور نسلوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔
کسی بھی قوم پرستی کی بنیاد جس کے بغیر کسی قوم پرستی کا تصور نہیں کیا جا سکتا وہ ہے نظریہ۔ قوم پرستی ایک نقطہ نظر اور فکری رویے کا نام ہے۔ اور یہ نظریہ کیا ہے؟ قوم پرستی کا جوہر قوم ہونے کا نظریہ ہے۔ کسی بھی قوم پرستی میں باقی تمام حیثیتیں اور شناختیں پس پردہ چلی جاتی ہیں اور صرف ایک شناخت ابھرتی ہے وہ ہے قوم کی شناخت۔ اسی وجہ سے ہر قوم میں مختلف النوع لوگ ہونے کے باوجود اسے یکساں اور یک نوعی تصور کیا جاتا ہے۔ قوم کی تشکیل کی شکلیں اور اس کے اجزائے ترکیبی مختلف ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی اصول یہی نظریہ ہے۔ زبان، علاقہ، مشترکہ روایات، مشترکہ تاریخ ، نسل یا مذہب قومی خصوصیات ضرور ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو قوم کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ یعنی قوم پرستی ایک سیاسی نظریہ ہے جسے کسی مخصوص کمیونٹی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔
قوم اور انسانیت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اسی نظریے کے اعتبار سے اقوام متحدہ بھی ایک قوم ہے۔ قوم کے معانی ہر دور میں مختلف رہے لیکن جدید سیاسی نظریات میں قوم کی متفقہ تعریف یہ ہے کہ قوم منفرد حاکمیت کی حامل ہوتی ہے۔ قدیم دور میں قوم کا مطلب تھا غیر ملکی لوگ، ازمنہ وسطیٰ میں کسی خاص رائے رکھنے والے گروہ کو قوم کہا گیا، چرچ کونسلز میں اس کا مطلب برتر اور عالی لوگ تھا اور انگلینڈ میں قوم سے مراد یہ لی گئی کہ حاکمیت کے حامل منفرد افراد۔
قوم پرستی اور جمہوریت میں گہرا تعلق ہے۔ حاکمیت کا سرچشمہ عوام کو قرار دینا اور ہر فرد کو مساوی حیثیت میں شناخت کرنا قوم پرستی کا جوہر بھی ہے اور جمہوریت کا بنیادی اصول بھی۔ جمہوریت قوم پرستی کی کوکھ سے نکلی ہے۔ دونوں میں خلقی اور فطری تعلق ہے۔ اس لیے ان کو الگ الگ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ابتدا میں جمہوریت اور قوم پرستی میں فرق سمجھا جاتا تھا لیکن جب قوم پرستی پھیلی اور قوم بمعنی منفرد حاکمیت سمجھی جانے لگی تو دونوں میں فرق مٹ گیا۔ اس سے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ جمہوریت برآمد یا درآمد نہیں کی جا سکتی۔ اس کی درآمد کے لیے ضروری ہے کہ قوم اپنی شناخت میں اساسی نوعیت کی تبدیلی لائے۔
قوم کی حاکمیت اصل میں انفرادیت پسندی ہے۔ قوم کی حاکمیت اسی صورت میں معقول ہے جب ہر فرد کی حاکمیت مانی جائے۔ اگر ہر فرد انفرادی طور پر حاکمیت نہیں رکھتا تو قوم کی حاکمیت کیا معنی۔ قوم پرستی کا یہ نظریہ انفرادیت پسندانہ ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا نظریہ اجتماعیت پسندانہ ہے جس کے مطابق قوم اپنی تعریف کے اعتبار سے مقتدر ہوتی ہے۔ یعنی انفرادیت پسند قوم پرستی میں ہر فرد کو خیر و شر کا خالق مانا جاتا ہے اور اجتماعیت پسند قوم پرستی میں خیر و شر کی خالق قوم من حیث القوم ہوتی ہے۔ لیکن ذرا تفصیل میں جایا جائے تو ان دونوں میں یہ فرق بھی ختم ہو جاتا ہے کیوں کہ اجتماعیت پسندی میں بالآخر تسلیم کیا جاتا ہے کہ قوم نے اجتماعی عمل سے یہ جان لیا ہے کہ فرد حاکمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اجتماعیت پسند قوم پرستی نسل پرستانہ ہوتی ہے لیکن نسل پرستی کو الگ سے قوم پرستی نہیں کہا جاتا۔
قوم پرستی سے جو چیز برآمد ہوتی ہے وہ ہے قومی شناخت۔ یہ قومی شناخت مذہبی اور طبقاتی شناخت وغیرہ سے قطعاً مختلف ہوتی ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ مذہب اور نسل سے قوم پرستی نکلے اور اس قوم پرستی سے قومی شناخت برآمد ہو لیکن جب قومی شناخت پختہ ہوتی ہے تو وہ مذہب سے لاتعلق ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کی شناخت میں اصل چیز ادراک اور شعور ہوتا ہے اگر کسی قوم میں قومی شناخت کا شعور نہ ہو تو قومی شناخت باقی نہیں رہتی۔
قوم کا اصل تصور سولھویں صدی کے انگلستان میں ظاہر ہوا اور انگریز پہلی قوم تصور کی جاتی ہے۔ یہاں فروغ پانے والی انفرادیت پسندانہ قوم پرستی امریکی کالونیوں میں پھیلائی گئی جو اپنی انتہائی شکل میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی امتیازی خصوصیت ہے۔ قوم پرستی اپنے نسل پرستانہ اور جغرافیائی اعتقادات کے ساتھ اٹھارھویں صدی میں یورپ میں ظاہر ہوئی اور یہاں سے باقی دنیا میں پھیلی۔ اجتماعیت پسند قوم پرستی فرانس اور روس میں ظاہر ہو کر انیسویں صدی کے شروع میں جرمن قوم میں اپنی انتہا کو پہنچی۔ جب قوم پرستی پوری دنیا میں پھیلنا شروع ہوئی تو دوسری اقوام میں اصل نظریے کے بجائے درآمدی اور مستعاری عنصر زیادہ رہا۔ اس درآمد اور شناختی تبدیلی کی خاص وجہ یہ تھی کہ قوم بننے کے خواہاں معاشرے اپنی موجودہ شناختوں سے بیزار ہو گئے تھے یا ان کو گھٹیا اور کم تر تصور کرنے لگے تھے۔ یعنی شناخت کی تبدیلی اصل میں شناخت کے بحران کی علامت ہے۔ جب سامراجی قوموں قوموں نے کالونیوں میں اپنی جھلک دکھلائی تو کالونیل قومیں نفسیاتی طور پر خود کو کم تر تصور کرنے لگیں۔ ہر غلام قوم نے جب قومیت کا نظریہ اپنانا چاہا ہے تو اپنے اپنے متعلقہ آقا کی نقالی کی۔ کالونیل اقوام کی قوم پرستی ردِّعمل سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ ردعمل رشک و رقابت کا ملا جلا احساس ہے جسے نطشے کی نسل پرستانہ قوم پرستی میں اہم مقام حاصل ہے۔ کالونیل اقوام کی اس کیفیت نے انہیں اس احساس میں مبتلا کیا کہ وہ تہذیبی طور پر اپنی حاکم اقوام سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ حاکم قوموں کے برابر آنے کے لیے حاکموں جیسا بننا لازمی خیال کیا گیا۔ سامراجی قوموں کے برابر آنے کی خواہش ہی پوسٹ کالونیل ریاستوں کے شناختی بحران کا اصل سبب ہے۔
رشک و رقابت کی نفسیات میں تخلیقی یا تخریبی قوت موجود ہوتی ہے جو اقدار کی ماورائی اقداریت کا سبب بنتی ہے۔ یعنی اقوام میں اقداری پیمانے تبدیل ہو جاتے ہیں جو پرانی سپریم اقدار کو منہدم کر دیتے ہیں۔ ان کی جگہ نئی اقدار لیتی ہیں جو بظاہر تو قوم کی اپنی اقدار سمجھی جاتی ہیں لیکن یہ سب اقدار اصل میں خارجی، غیراہم اور منفی ہوتی ہیں۔ یہ عمل تعمیری ان معنوں میں ہے کہ ثقافتی اعتبار سے مضبوط قوم کبھی بھی براہِ راست اپنی اقدار کے متضاد اقدار جوں کی توں درآمد نہیں کرتی بلکہ خارجی اقدار سے متاثر ہوتے ہوئے ردعمل میں اپنی اقدار میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں ۔ ردعمل کبھی بھی اپنے خلاف نہیں ہوتا اور کالونیل اقوام میں ردعمل بنیادی خصوصیات رہا ہے۔ یہ تعمیری عمل بہت شفاف ہوتا ہے یعنی مقامیت میں ملبوس بدیسی اقدار بڑی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ برصغیر کے تناظر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح اسلام یہاں باہر سے آیا اور اس پر مقامی ذوق و شوق کا رنگ چڑھا، اسی طرح جمہوریت اور قوم پرستی بھی یہاں مغرب سے وارد ہوئی اور اس پر ہندو قومیت کے ردعمل میں مسلم قوم پرستی کا رنگ چڑھایا گیا۔ یہیں سے نظریے کی طاقت سمجھی جا سکتی ہے۔ نظریہ اپنا لینا خوش فہمی ہے، نظریہ اپناتا ہے۔
نظریاتی تبدیلی کا یہ عمل تین مراحل میں مکمل ہوتا ہے: ہیئت میں، ثقافت میں اور نفسیات میں۔ نئی قومی شناخت اختیار کرنے پر اندرونی معاشرتی ترتیب ازسرنو قائم ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں روایتی ثقافتی تعریف و شناخت ناکافی ثابت ہوتی ہے یعنی تہذیبی علمیت ساتھ نہیں دیتی اور شناختی بحران پیدا ہوتا ہے۔ اس بحران کے بعد نئی شناخت کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ شناختی بحران سے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی جا سکتی کہ آخر نئی شناخت کیوں تلاش کی جاتی ہے البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ نئی ثقافت عام طور پر قومی ہی ہوتی ہے۔ نئی شناخت اختیار کرنے کےبعد موجودہ مقامی روایات کو نئے معنی دیے جاتے ہیں اور ان کی نئی تعبیرات کی جاتی ہیں۔ یوں ہر قوم پرستی اپنی حتمی شکل میں منفرد ہوتی ہے کیوں کہ ہر قوم کی اپنی ثقافتی روایات مختلف ہوتی ہیں اور درآمدی اقدار بھی، جن کی آمیزش سے نئی قوم کا ملغوبہ تیار ہوتا ہے۔ اسی لیے قوم کی تعریف منفرد حاکمیت کے معنوں میں کی جاتی ہے۔ یہیں سے اس دلیل کی سطحیت و اصلیت بھی صاف ہو جانی چاہیے کہ ہماری جمہوریت و ریاست مغرب کے تصورِ جمہوریت سے مختلف ہے۔
جب بھی جمہوریت ، قوم پرستی، سرمایہ داری، انسانی حقوق، عقلیت، سائنس وغیرہ کی بات ہو گی تو ان کے اصل ماخذ و مصدر یعنی مغرب کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ قوم پرستی کی بنیاد نسلی تفاخر پر رکھی گئی۔ آج کی دنیا میں یہ احساسِ تفاخر عروج پر ہے۔ فخر اس بات پر کہ ہم قوم ہیں اور ہمارا ایک نظریہ ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ ہم قوم ہیں! اس قوم تفاخر میں لالچ اور حسد عام رویے ہیں۔ کم از کم اسٹیٹس کی خواہش تو ہر قسم کی قوم پرستی کا مشترک وصف ہے۔ کچھ اس کا جواز ڈھونڈتے ہیں، کچھ اس کی حفاظت چاہتے ہیں اور باقی اس کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔
بہرحال قوم پرستی ایک تاریخی نظریہ ہے۔ یہ تاریخ کے ایک خاص دور میں خاص تہذیب میں خاص حالات میں ظہور پذیر ہوا۔ تاریخ کے کسی دور میں یہ ختم بھی ہو جائےگا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ قوم پرستی کے خاتمے کے بعد ماضی کی طرف مراجعت ہو گی یا مستقبل کی طرف پیش قدمی۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ اگر نیشنل ازم کے بعد پوسٹ نیشنلزم آیا تو دنیا حقیقت میں پوسٹ ماڈرن ہو گی۔ جب تک نیشنل ازم ہے، ماڈرن ازم ہی ہے۔
تبصرہ لکھیے