ہوم << بلوچستان کے وسائل اور للچائی ہوئی نظریں - اوریا مقبول جان

بلوچستان کے وسائل اور للچائی ہوئی نظریں - اوریا مقبول جان

سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے بلوچ نوجوانوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے ایک پتے کی بات کی تھی۔ انہوں نے کہا، دیکھو! آزادی حاصل کرنا بہت آسان ہے، لیکن اسے سنبھال کر رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ ان کی یہ بات بلوچستان کے خطے پر صادق آتی ہے۔

بلوچستان کی سرزمین اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے مدتوں عالمی طاقتوں کے لئے اہمیت کی حامل رہی ہے اور آج بھی ہے۔ لیکن اس کے وسائل بھی ہمیشہ سے علاقائی قوتوں کے لئے کشمکش کا باعث بنے رہے۔ ایک زمانہ تھا جب توانائی کی ضروریات کوئلے سے پوری کی جاتی تھیں۔ اپنے وقت کی تیز رفتار سواری ٹرین کا سٹیم انجن اسی کوئلے کا محتاج تھا۔ بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے تھرمل پاور سٹیشن بھی کوئلے سے چلائے جاتے تھے اور کوئلہ شمالی بلوچستان کے علاقوں میں وافر مقدار میں پایا جاتا تھا۔ یہ علاقہ زیادہ تر پشتون قبائل کا مسکن ہے، لیکن پشتون اور بلوچ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ باہم احترام کے رشتے سے رہتے چلے آئے ہیں۔ اس لئے ان وسائل پر کبھی ان کا جھگڑا نہیں ہوا تھا۔

سادہ لوح بلوچ تو دین کے بارے میں شروع دن سے پشتونوں کو اپنا رہبر و رہنما خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مدتوں بلوچ اور براہوی علاقوں میں یہ تصور راسخ تھا کہ امام مسجد پشتون ہونا چاہئے۔ انگریز جب بلوچ سرزمین کے قریبی سرحدی علاقوں، ڈیرہ غازی خان اور جیکب آباد تک آ پہنچا تو پھر اس کی للچائی ہوئی نظروں کے سامنے بلوچستان کا سنگلاخ خطہ تھا جو اس وقت اپنے دور کی سب سے بڑی توانائی ’’کوئلے‘‘ سے مالا مال تھا۔ ڈیرہ غازی خان کا پولیٹیکل ایجنٹ رابرٹ سنڈیمن اور جیکب آباد کا ڈپٹی کمشنر جان جیکب دونوں وسائل سے مالا مال اس خطے کی جانب اپنے اپنے طریقِ کار سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔

جان جیکب انگریز فوج کے بَل بوتے پر اسے فتح کرنا چاہتا تھا جبکہ رابرٹ سنڈیمن بلوچ قبائل کے سرداروں کو ساتھ ملا کر اس خطے پر اپنا اقتدار قائم کرنا چاہتا تھا۔ 1873ء میں ان دونوں کے طریقِ کار پر غور کرنے کے لئے جیکب آباد میں ایک بہت بڑی میٹنگ بلائی گئی۔ وہاں رابرٹ سنڈیمن نے ’’فارورڈ پالیسی‘‘ (Forward Policy) کے عنوان سے اپنا کیس پیش کیا۔ اس نے بتایا کہ بلوچوں سے لڑائی خاصی مہنگی پڑ سکتی ہے اور آپ پہلے بھی اس کا تجربہ کر چکے ہیں، اس لئے انہیں اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کر کے آگے بڑھنا چاہئے۔ انگریز سندھ فتح کر چکا تھا اور طاقت کے نشے میں سرشار تھا، اس لئے رابرٹ سنڈیمن کی تجویز رد کر دی گئی اور اس بظاہر ’’بزدل‘‘ شخص کو جیکب آباد چھوڑ دینے کا حکم دے دیا گیا اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھی جاری کیا گیا کہ جو شخص بھی کسی مری یا بگٹی کا سر کاٹ کر لائے گا، اسے دس روپے انعام دیا جائے گا۔

اس حکم نامے کا تذکرہ ہنری کسنجر نے بھی اپنی کتاب "The white house years" میں کیا ہے۔ انگریز اس میٹنگ سے بہت پہلے 1839ء میں مری قبائل کے علاقے کاہان پر فوج کشی میں شکست کھا چکا تھا۔ اس جنگ کی پوری روئداد کیپٹن لوئس برائون (Lewis Brown) نے اپنے روزنامچے میں تحریر کی ہے جسے بعد میں ایک کتابچے کی صورت شائع کیا گیا جس کا نام "Defence of Kahan" ہے اور آج بھی انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہے۔ بلوچستان پر قبضے کی خواہش اس لئے بھی مسلسل قائم رہی کیونکہ یہ خطہ جنگی حکمتِ عملی کے لئے بہت اہم تھا۔ انگریز زیادہ سے زیادہ علاقہ اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا تھا تاکہ زارِ روس کی پیش قدمی کو روک سکے۔ جان جیکب نے ایک بار پھر کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی تو تھک ہار کر رابرٹ سنڈیمن کو اسی کی فارورڈ پالیسی پر عمل کرنے کی اجازت مل گئی۔

سنڈیمن اس دوران ڈیرہ غازی خان کے بلوچ سرداروں میں بہت مقبول ہو چکا تھا۔ یہاں کے لغاری اور مزاری قبائل کے ذریعے اس نے مری، بگٹی اور کھیتران قبائل کے سرداروں سے اچھی خاصی دوستی گانٹھ لی تھی۔ سنڈیمن نے ایک سفارتی وفد بنا کر خان آف قلات سے ملاقات کا پروگرام ترتیب دیا۔ اس وفد کو ترتیب دینے کی ذمہ داری نواب امام بخش مزاری اور نواب جمال خان لغاری کے ذمہ لگائی گئی اور ان دونوں سرداروں نے کمال مہارت سے تقریباً تمام بلوچ سرداروں کو رابرٹ سنڈیمن کے قافلے میں شامل کروا دیا۔ یہ قافلہ جب یکم جنوری 1876ء کو خان آف قلات کے دربارِ عام میں شریک ہوا تو اس میں سردار ملا محمد خان رئیسانی، سردار اللہ ڈنہ کرد، شادی خان بنگلزئی، محمد سید خان محمد شہی، جندہ خان شہوانی، مری قبیلے سے مہر اللہ خان، میر ہزار خان، گل محمد خان، کرم خان بجارانی، نال خان لوہارانی، بگٹی قبیلے سے گہور خان بگٹی، ہیبت خان مسوری بگٹی، فتح خان نوتھانی بگٹی، روگہہ خان کھلپر بگٹی، کھیترانوں میں بلوچ خان کھیتران، قادر بخش کھیتران، دین محمد خان بزدار اور ڈیرہ غازی خان کے تمام بلوچ سردار رابرٹ سنڈیمن کی قیادت میں خان آف قلات کے دربار میں حاضر تھے۔

اس لمحے خان آف قلات کے ساتھ اس کے بیٹے اور صرف دو بلوچ سردار رہ گئے، ایک سردار نور دین خان مینگل اور دوسرا سردار قیصر خان موسیانی۔ دربار میں سنّاٹا چھا گیا۔ خان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بلوچستان کے تمام سردار اب انگریز کے پرچم تلے جمع ہو چکے ہیں۔ خان کو اپنی عزت اور مقام و مرتبہ برقرار رکھنے کے لئے انگریز سے ایک ایسا معاہدہ کرنا پڑا جس کے بعد وہ ایک نمائشی خان بن کر رہ گیا۔ 13 جولائی 1878ء کو کئے گئے معاہدے کے تحت اب اس کا بلوچ سرداروں پر براہِ راست اختیار ختم ہو گیا۔ ریاستِ قلات کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ یوں تو یہ معاہدہ انگریز اور خان آف قلات کے درمیان تھا، لیکن اس پر بحیثیت فریق سرداروں کے بھی دستخط ثبت کروائے گئے تاکہ ہر سردار کو اپنی علیحدہ علیحدہ اہمیت کا احساس ہو سکے۔ خان آف قلات احمد یار خان نے اپنی کتاب میں اس سانحے کا تذکرہ کرتے ہوئے رابرٹ سنڈیمن کے یہ الفاظ تحریر کئے ہیں، ’’گورنر جنرل کے ایجنٹ کو خان کے مقابلے میں زیادہ قابلِ احترام، ارفع اور فرمانبرداری کا مستحق سمجھ لیا گیا‘‘۔

انگریز نے یوں سرداری نظام اور سردار کی بالادستی کو مستحکم کیا اور سردار کی تابعداری کو انگریز کی تابعداری کے ساتھ مشروط کر کے وہ بلوچ جو ایک آزادانہ معاشرے میں زندگی گزارنے کے عادی تھے، انہیں اپنی قوت کی پشت پناہی سے سردار کا مطیع و فرمانبردار بنا دیا گیا۔ انگریز نے سرداروں کے ذریعے اپنے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی پوری کوشش کی۔ جرگہ کا ایک ایسا نظام بنایا گیا جس کا سربراہ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ ہوتا تھا۔ تمام بلوچ سردار اپنے سے زیادہ انگریز کے خلاف اُٹھنے والی آواز کو قوت سے دباتے تھے۔ جس طرح آج ایک ٹویٹ پر لوگوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے اس دور میں بھی انگریز سے باغیانہ سوچ رکھنے والا نہ صرف انگریز کا مجرم ہوتا تھا بلکہ بلوچ جرگے کا بھی سزاوار۔

اس کی مثال وہ مشہور واقعہ ہے جب 1929ء میں ہفت روزہ ’’ہمدرد‘‘ میں نوابزادہ یوسف عزیز مگسی کا ’’فریادِ بلوچستان‘‘ کے نام سے مضمون شائع ہوا تو سرداروں کے ’’معزز‘‘ جرگے نے اس انقلابی سردار کو ایک سال قید اور پندرہ ہزار روپے جرمانے کی سزا دے دی۔ (جاری ہے) (نوٹ): غوثیہ کالج مظفر گڑھ 12 سال سے جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے میں چوتھی جماعت سے لے کر ایم اے تک یتیم و نادار طلباء و طالبات کی مدد کر رہا ہے۔

پہلے کراچی کے ایک بزرگ حاجی عبدالرزاق اس کی سرپرستی کرتے تھے 2012ء میں وہ انتقال کر گئے، پھر مشہور کالم نگار اور بیوروکریٹ ڈاکٹر صفدر محمود ان کے لئے کالموں میں اپیل کرتے تھے، ان کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری میں نے قبول کر لی ہے۔ انکے پرنسپل ڈاکٹر محمد طارق کا فون نمبر 03003312052 ہے۔ رابطہ کر کے تسلی فرما کر مدد کر سکتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment