ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (25) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (25) - شاہ فیصل ناصرؔ

آثار النبیﷺ

مسجدقباء : مسجد قباء کو اسلام میں پہلی مسجد کا شرف حاصل ہے۔ نبیﷺ مکہ سے ہجرت کرکے پہلے قباء تشریف لائے اور وہاں یہ مسجد آباد کی۔ یہ وہ پہلی مسجد تھی جہاں آپﷺ نے اپنے صحابہ کو علانیہ باجماعت نماز پڑھائی۔

رسول الله ﷺ ہرہفتے پیدل یا سوار مسجدقباء میں تشریف لے جاتے اور وہاں دو رکعتیں ادا فرماتے۔(بخاری۔ 1193)
آپﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے گھر میں وضو کرکے مسجد قباء آیا اور یہاں دو رکعتیں پڑھے اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا (ابن ماجہ۔ 1412 )۔ نئی توسیع کی بعد یہاں بیس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔

غزوہ خندق کا مقام: سن 5 ہجری میں مشرکین مکہ نے یہود کی سازش سے مدینہ پر حملہ کیلئے آس پاس کے قبائل کو ملاکر دس ہزار کا لشکر تیار کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی دفاع کیلئے شمال کی طرف جبل سلع کے پاس سلمان فارسی ؓ کے مشورے سے 5544 میٹر لمبا، تقریبا ساڑھے چار میٹر چوڑی اور ساڑھے تین میٹر گہری خندق کھودی۔ یہ عربوں میں ایک انوکھا تجربہ تھا۔ اس جنگ کی دوران آپﷺ کے کئی معجزات ظاہر ہوئے۔ محاصرہ شروع ہونے پر نبی کریم ﷺ مسجد فتح کی مقام پر منتقل ہوئے اور دعا کی۔ تقریبا ایک مہینہ محاصرے کے بعد اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح دے کر کفار کے لشکر کو ذلت و ہزیمت کیساتھ کوئی مقصد حاصل کئے بغیر واپس کیا۔

آپﷺنے فرمایا، “ الْآنَ نَغْزُوهُمْ وَلَا يَغْزُونَنَا نَحْنُ نَسِيرُ إِلَيْهِمْ .”اس کے بعد کفار ہمارے پیچھے نہیں آسکتے، ہم ان کی تعاقب میں جائیں گے۔”( بخاری۔ 4110)

اس جنگ میں بنو قریظہ کے یہودیوں نے بدعہدی کرکے بغاوت کی ، جس کی نتیجے میں ان کے جنگی افراد قتل کئے گئے، عورتوں اور بچوں کو غلام بناکر بیچ دیاگیا اورمال کو غنیمت کی طور پر لیا گیا۔اب خندق کی آثار ختم ہوئے ہیں لیکن تاریخی مقامات پر مسجد فتح اور کئی چھوٹی مساجد تعمیر کی گئی ہیں جو مسلمانوں کو اس عظیم معرکے کی یاد دلا رہی ہیں۔

بئر رومہ اور عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کا صدقہ جاریہ:ایک دفعہ مدینہ منورہ میں پینے کے پانی کی بہت قلت پیدا ہوئی۔ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا۔اس کنویں کا نام "بئر رومہ" تھا۔مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کو شکایت کرکے اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا :"کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لئے وقف کردے؟ ایسا کرنے پر اللہ تعالٰی اسے جنت عطاء کرےگا۔

عثمان بن عفان ؓ اس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔اس نے اسے فروخت کرنے سے انکار کردیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے یہودی سے کہا :پورا کنواں نہ سہی ،آدھاکنواں مجھے فروخت کردو! یہودی نے آدھا کنواں عثمان ؓ بن عفان کو فروخت کردیا۔سیدنا عثمان ؓ بن عفان نے وہ کنواں اللہ کی رضا کے لئے وقف کرکے اپنے دن لوگوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔ لوگ عثمان ؓ بن عفان کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لئے بھی ذخیرہ کرلیتے۔ یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑگئی ہے تو اس نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو باقی آدھا کنواں بھی فروخت کرنےکی پیشکش کردی۔اس پر عثمان ؓ بن عفان راضی ہوگئے اور کم و بیش پینتس ہزار درہم میں پورا کنواں خرید کر اہل مدینہ کے لئے وقف کردیا۔

وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ عثمان ؓ بن عفان کے دور خلافت میں اس کے ارد گرد کھجوروں کا باغ بن گیا اور اس باغ کی دیکھ بھال ہوئی۔ بعد ازاں آل سعود کے عہد میں اس باغ میں کھجور کے درختوں کی تعداد تقریبًاپندرہ سو پچاس ہوگئی۔حکومت وقت نے اس باغ کے گرد چار دیواری بنوائی اور یہ جگہ مدینہ کی میونسپلٹی میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ کردی۔وزارت زراعت یہاں کی کھجوریں بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سیدنا عثمان ؓ بن عفان کے نام پر بینک میں جمع کرواتی رہی۔

اس سے بجلی اور پانی کی بل بھی ادا کرتی۔ چلتے چلتے اس اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہوگئی کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان ؓ بن عفان کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا۔اس رہائشی ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے۔جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں کی کفالت اور باقی آدھا عثمان ؓ بن عفان کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوگا۔

سیدناعثمان ؓ بن عفان کے اس عمل اور خلوص نیت کو اللہ رب العزت نے اپنی بارگاہ میں ایسے قبول فرمایا اور اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ قیامت تک ان کے لئے صدقہ جاریہ بنادیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی جانیں اور مال اللہ تعالیٰ نے اپنی جنتوں کے بدلے خرید لئے۔اب حکومت نے یہ کنواں اور باغ عام لوگوں کیلئے بند کیا ہے۔ ہمارے ڈرائیور نے بتایا کہ چند سال قبل تک یہ کھلا تھا۔ انتظامیہ زائرین کو اس باغ کی کھجور ھدیہ میں دیتے۔ لیکن دشمنانِ صحابہ شیعہ ملعونین کی وجہ سے اب یہ پابندی لگ گئی۔
بلڈنگ کے بارے میں مجھے بعد میں معلوم ہوا ورنہ اس کا زیارت ضرور کرتے، تاہم مجھے آن لائن اس کی ایک تصویر مل گئ۔ جس کی سامنے بورڈ پر لکھا گیا ہے،” المالک؛ عثمان بن عفان ؓ ”

مسجدجمعہ:قبا میں چند دن گزارنے کے بعد رسول اللہ ﷺ جمعہ کی دن مدینہ روانہ ہوئے، راستے میں وادی رانونا میں بنوسالم بن عوف کی محلہ میں نماز جمعہ کا وقت ہوگیا تو آپﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہاں نماز جمعہ ادا کی۔ یہ اسلام میں ادا ہونے والا پہلا نماز جمعہ تھا۔ اسی جگہ بنائی گئی مسجد کو مسجدجمعہ کہا جاتا ہے ۔

سلمان فارسیؓ کا باغ: سلمان فارسیؓ اصفہان کے علاقے ”جئ” کا رہنے والا تھا۔ ہدایت کی تلاش میں اصفہان سے شام، عراق ، ترکی اور وادی القری سے ہوتے ہوئے بالا آخر مدینہ پہنچ گئے اور ایمان کے نور سے منور ہوئے۔ آپؓ مدینہ کے ایک یہودی کے غلام تھے۔ اس نے آپ کی آزادی کیلئے 300 کھجور کے درخت لگانے کی شرط رکھی تھی۔ آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے کجھور کی گھٹلیاں لگائے اور ہرا بھرا باغ بن گیا۔ جو باغِ سلمان فارسی ؓ کے نام سے مشہور ہوا۔ اب بھی وہاں کھجور کے درختیں ہیں، لیکن معلوم نہیں کہ اس وقت کا کوئی درخت اب بھی موجود ہے یا نہیں۔

مدینہ منورہ میں اور بھی کئی تاریخی مقامات اور مساجد ہیں جو قابل دید ہے۔ ظہر سے قبل زیارات سے فارغ ہوکر نماز کیلئے حرم مدنی پہنچ گئے۔ نماز کے بعد ہوٹل گئے اور کھانا کھا کر آرام کیا۔ نماز عصر کے بعد صف میں میرے ساتھ متصل محمدادغارحماس بیٹھ گئے۔ ادغار کا تعلق انڈونیشیا سے ہے اور جامعہ اسلامیہ مدینہ میں آخری سال کا طالب العلم ہے۔

ان کے ساتھ تعارف اور مفید علمی بات چیت ہوئی۔ بہت ہی خوش اخلاق اور ذہین طالب العلم تھے۔ مجھے ایک کتاب،” ھداية ألرحمان فى مواعظ القرآن” ھدیہ کی اور اپنا رابطہ نمبر بھی دیا۔ نماز مغرب کے بعد وہ رخصت ہوئے اور میں شیخ انیس طاہر بخاری کے درس ادب المفرد میں شرکت کیلئے گیا۔

Comments

Click here to post a comment