7 دسمبر 2022کو انڈونیشیا کے ممتاز اور معروف جزیرہ ’’بالی‘‘ میں افغان خواتین کے حقوق اور تعلیم بارے ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی ہے۔
قطر اور انڈونیشیا ایسے دو معزز مسلمان ممالک نے مل کر اس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ کانفرنس کا عنوان تھا:The International Conference on Afghan Women,s Educationآبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ہے;چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انڈونیشیا ہی کو اس موضوع پر کانفرنس منعقد کرنا زیب دیتا تھا، حالانکہ انڈونیشیا،افغانستان سے سیکڑوں کلومیٹر دُور واقع ہے۔جغرافیائی اعتبار سے بھی اِس کی کوئی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی ہے.
لیکن مذہب و ملّت کی سرحدیں تویکساں اور مشترکہ ہیں۔افغان خواتین بارے اس عالمی کانفرنس میں38 ممالک کے نمایندگان شریک ہوئے۔کانفرنس سے ہمارے نوجوان وزیر خارجہ، جناب بلاول بھٹو زرداری، نے بھی زور دار اور شاندار خطاب کیا ہے جو موضوع کے عین مطابق تھا،لیکن اِس خطاب کے ذکر سے پہلے چند ضروری باتیں :افغان طالبان حکمران جو کچھ کررہے ہیں اور پاکستان بارے ان کا جو رویہ ہے، اس پیش منظر میں سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان اور افغان طالبان حکام کے اقدامات اور فیصلوں سے پاکستان کو قطعی لاتعلق ہو جانا چاہیے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان اور افغان عوام کی بہتری اور مفاد میں فیصلے کیے ہیں۔خصوصاً پچھلے 40 برسوں سے پاکستان اور پاکستانی عوام مسلسل افغان طالبان کی حمایت کر رہے ہیں۔پاکستان اب بھی کمزور ترین معیشت کے باوجود 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا کمر شکن بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے۔پاکستان نے رُوس مخالف ’’افغان جہاد‘‘ میں افغان جنگجوؤں کا کھل کر ساتھ دیا۔ آج مگر 40 سال گزرنے کے بعد پاکستان کا ہر فرد کفِ افسوس ملتا ہوا یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ نام نہاد افغان جہاد سے پاکستان اور پاکستانی عوام کو کچھ نہیں ملا،سوائے بربادی اور بد امنی کے۔آج ٹی ٹی پی ایسے دہشت گرد اور پاکستان دشمن گروہ نے طالبان کے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے ۔
پچھلی بار جب افغان طالبان، ملا محمد عمر کی زیر قیادت، افغانستان کے حکمران بنے تھے تو انھوں نے تب بھی افغان خواتین سے مسلسل غیر مناسب اور غیر انسانی سلوک کیے۔ عالمی میڈیا نے اس پر گواہیاں اور شہادتیں دیں جو اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں جن میں طالبان حکام کی طرف سے افغان خواتین کی بیچارگی، مظلومیت اور بیکسی کی داستانیں رقم کی گئیں۔ لیکن ملا عمر کے طالبان ٹس سے مس نہ ہوئے اور اصرار سے کہتے رہے کہ ہم افغان خواتین سے جو سلوک کررہے ہیں، مذہب کے عین مطابق ہے اور یہ کہ عالمی میڈیا تعصب میں ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈہ کررہا ہے۔
اب پھر افغان طالبان حکام کا یہی وتیرہ ہے۔ افغان خواتین سے ان کے نامناسب سلوک کی کہانیاں محض کہانیاں نہیں بلکہ واقعات ہیں۔ پاکستانی میڈیا تو بوجوہ افغان خواتین سے افغان طالبان حکام کے نامناسب رویوں کو رپورٹ نہیں کررہا لیکن سوشل میڈیا طالبان حکام کے متنوع جبر کو بے نقاب کررہا ہے۔ ایک تسلسل سے افغان خواتین تعذیب و تعدی اور جبریہ پابندیوں سے گزررہی ہیں۔ آئے روز سوشل میڈیا پر افغان خواتین کو سر عام کوڑے مارنے کی خبریں اور وڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ افغان خواتین کو سرِ عام کوڑے مارنے والے افغان مرد حضرات ہوتے ہیں۔
نئے افغان طالبان کو افغانستان پر حکومت کرتے اب 16 مہینے گزر چکے ہیں۔ اس دوران ان کی طرف سے افغان خواتین کے بنیادی اور انسانی حقوق کے سلب اور غصب کیے جانے کی لاتعداد داستانیں سامنے آچکی ہیں۔یہ واقعات عالمِ اسلام کا میڈیا بھی رپورٹ کررہا ہے۔ موجودہ افغان طالبان حکمرانوں نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی عالمی برادری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغان خواتین کے جملہ حقوق کی پاسداری کرتے رہیں گے لیکن جونہی اقتدار اور ملک پر ان کی گرفت مضبوط ہوئی، وہ افغان خواتین بارے کیے گئے جملہ وعدوں سے منکر ہو گئے۔
ان کی طرف سے سب سے بڑی خلاف ورزی اور وعدہ شکنی یہ ہوئی ہے کہ وہ افغان خواتین کو تعلیم اور ملازمت فراہمی سے انکاری ہو گئے ہیں۔ لاتعداد خواتین کو سرکاری اور نجی ملازمتوں سے جبریہ نکال دیا گیا ہے۔ افغان خواتین اور بچیوں پر تعلیم کے دروازے مقفل ہو چکے ہیں۔ مقتدر طالبان نے حکم دیا کہ چھٹی جماعت سے اوپر اسکول جانے والی بچیاں اب اسکول نہیں جا سکتیں۔ یوں افغانستان میں چائلڈ لیبر کو فروغ ملا ہے۔یہ بچیاں اب یا تو جبریہ قالین بُنتی ہیں یا کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں یا ڈھور ڈنگرچراتی ہیں یا گھریلو کام کاج میں جوت دی گئی ہیں۔
اور جب افغان طالبان حکام کو افغان خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی بارے کہا جاتا ہے تو وہ بھڑک کر کہتے ہیں: یہ ہمارے قومی معاملات میں مداخلت ہے،خواتین سے ہمارا سلوک شریعت کے مطابق ہے۔اور جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا دینِ اسلام میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے، ملازمتوں پر جانے اور قومی خدمات انجام دینے سے منع کیا گیا ہے تو افغان حکام کے پاس کوئی شافی،کافی اور اطمینان بخش جواب نہیں ہوتا۔ 7 دسمبر 2022 کو عالم اسلام کے معتبر میڈیا (الجزیرہ) نے بتایا ہے کہ اِس وقت افغان طالبان حکمرانوں کے حکم سے 30لاکھ سے زائد افغان بچیوں پر اسکولوں کے دروازے بند ہیں ۔
اب جب انڈونیشیا میں افغان خواتین کے تعلیمی حقوق بارے عالمی کانفرنس کا انعقاد ہُوا ہے اور دباؤ پڑا ہے تو افغان حکام نے فوراً حکم جاری کیا کہ ساتویں جماعت سے دسویں جماعت تک کی بچیاں امتحان دے سکتی ہیں ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو بچیاں پچھلے ایک سال سے اسکول گئیں نہ انھوں نے کتاب کھولی، وہ اچانک کیسے امتحانات میں بیٹھ سکتی ہیں؟ افغان خواتین اور بچیوں کو تعلیم سے جبریہ محرومی کے خلاف پاکستان مسلسل احتجاج کررہا ہے۔ پاکستانی حکام کی طرف سے بار بار افغان طالبان حکام سے گزارش کی گئی کہ وہ افغان خواتین پر تعلیم کے دروازے بند مت کریں ، لیکن شومئی قسمت سے پاکستان کی بات نہیں مانی گئی ۔
اب 7دسمبر کو ’’بالی‘‘ میں افغان خواتین کے تعلیمی حقوق بارے عالمی کانفرنس کا انعقاد ہُوا ہے تو بھی پاکستان نے اِسی موقف کو پُر زور الفاظ میں دہرایا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں کہا:’’اس وقت ہزاروںافغان طلبا پاکستان میں زیر تعلیم ہیں، یوں ہم اصولی طور پر افغان خواتین کو بھی برابری کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں ۔ افغان بچیوں کو تعلیم کے زیور سے محروم کیے رکھنے کی حمائت نہیں کی جا سکتی۔پاکستان خوشی سے افغان خواتین اساتذہ کو تربیت دینے پر تیار ہے ۔خواتین کی تعلیم پر سرمایہ کاری دراصل پوری نسل پر سرمایہ کاری کے مترادف ہے ۔‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کسی بھی طرح سے افغان خواتین کے حقوق اور تعلیم سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کا آئین جب پاکستانی خواتین کو برابری کی سطح پر تعلیم اور ملازمت فراہمی کے حقوق یقینی بناتا ہے تو پاکستان افغان خواتین کو ان حقوق کی محرومی کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ جزیرہ ’’بالی‘‘ میں ہمارے وزیر خارجہ صاحب دیگر کئی ممالک کے وزرائے خارجہ سے بھی ملے ۔
طے یہی پایا کہ افغان طالبان حکام پر سفارتی سطح پر دباؤ ڈالا جائے کہ انھیں افغان خواتین کے جملہ حقوق بحال کرتے ہُوئے افغان بچیوں اور افغان خواتین پر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے فوری طور پر کھول دینے چاہئیں۔ قطر نے تو افغان خواتین کے لیے خصوصی تعلیمی وظائف کا اعلان بھی کیا ہے ۔
تبصرہ لکھیے