خالق اور مخلوق میں ایک بنیادی فرق تخلیق کا ہے.خالق نے کائنات اور تمام مخلوقات کو خلق فرمایا جبکہ مخلوقات اس کی تخلیق کا عکس ہیں.اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے صفتِ تخلیق سے اپنی مخلوق کو بھی نوازا ہے اور یہ نوازش ہر مخلوق کے حصے میں نہیں آئی ہے.صفتِ تخلیق کی رفعت کا ادراک اس بات سے ہوتا ہے کہ قادرِ مطلق نے یہ خصوصیت فقط بنی نوع انسان کو عطا فرمائی ہے اور انسانیت کیلئے بھی یکساں تقسیم نہیں فرمائی بلکہ چند ایک لوگوں کیلئے مخصوص کی ہے.
انسانی تخلیق کا اِظہار خدائی تخلیق سے یکسر مختلف ہے.اسی بنیاد پر کوئی فنکار,تو کوئی ادیب کہلاتا ہے.مگر سب کے پاس تخلیق کا شاہکار ہے. اس کو بروئے کار لاتے ہوئے کوئی مصوری کی دنیا کا بےتاج بادشاہ بن جاتا ہے تو کوئی فقط مٹی سے مینار بنادیتا ہے.کوئی پبلو پکاسو کے روپ میں تو کوئی غالب کے روپ میں تخلیق کار نظر آتا ہے.کہیں مزاح نگار تو کہیں شاعر کی صورت میں تخلیق کا جلوہ عیاں ہوتا ہے.اگرچے یہ لوگ دنیاوی معیاروں پر پورے نہ اترتے ہوں مگر خدا نے ان کو اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے.
اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی تمام صفات کی بڑائی بیان کی ہے وہاں تخلیق کو ایک جداگانہ منصب دیا ہے.قرآن پاک میں بار بار فرمایا ہے کہ میں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے.میں نے یہ بنایا وہ بنایا کیا کوئی ہے جو اس طرح سے بنا سکتا ہے.یعنی خدا منکرانِ توحید کو اپنی قوتِ تخلیق سے چیلنج کر رہا ہے کہ کیا کوئی بنا سکتا ہے یا تخلیق کرسکتا ہے میری طرح چیزیں.یہ تخلیق کی عظمت کی گواہی ہے.
خداوند کریم نے جب رسول صہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنا تعارف کروایا تو اسی خوبی کا سہارا لیا.امتِ رسول اور نبی کریم سے اول واقفیت قیامت تک آنے والے لوگوں سے تعارف کے مساوی ہے. کیونکہ یہ طبقہ ہی اب اختتامِ جہان تک جامِ توحید کو لیے پھرے گا اور دنیا کو وحدہ لاشریک سے متعارف کروائے گا. لہذا اس امت سے تعارف کا انداز بھی جداگانہ ہونا بنتا تھا.جس کےلئے خالقِ کائنات نے تخلیق کا انتخاب فرمایا ہے.جب غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو حضرت جبرائیل نے جناب رسالت ماب سے فرمایا "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تخلیق کیا"یعنی کون رب؟وہ جو پیدا کرنے والا اور تخلیق کرنے والا ہے.
بعد از وحی جب لوگوں نے پیغامِ ِرسول کو جھٹلانے کی کوشش کی اور کتابِ خدا قرآن مجید کو بناوٹی کہا تو خالق کا حکم ہوا کہ سورۃ کوثر کو خانہ کعبہ سے لٹکا دیا جائے.اعلان ہوا اے فصیح و بلیغ اہلِ عرب تخلیق کر کے لے آؤ کوئی ایسی تحریر.حتیٰ کہ سورہ بقرہ میں کہا کہ لاؤ تخلیق کرکے کوئی اس جیسی ایک سورۃ.یعنی اہلِ عرب جو خود کو فصیح و بلیغ مانتے اور جانتے تھے ان کو بھی دعوت کا پیغام تخلیق کے ذریعہ دیا.جو تخلیق کی رفعت اور پذیرائی کو نہ صرف سرہاتا ہےبلکہ عکاس بھی ہے.
جب لوگوں نے دعوتِ حق پر لبیک نہ کہا اور اس کی یکتائی کو جھٹلانا چاہا.اس کے خالق ہونے کو رد کیا.تو پھر فرمایا میں ہی ہوں جس نے تم کو پہلی بار تخلیق کیا اور قیامت کے روز پھر زندہ کروں گا.
بات تعارف سے دعوت تک نہ رکھی.جب لوگوں نے پیغامِ رسول سے بغاوت کرتے ہوئے ایک خدا کے بجائے کئی بتوں کو مسجود بنایا تو شرک کے مرتکب ہوئے.تو خدا نے جہاں شرک کو سب سے بڑا ظلم قرار دیا ہے.وہاں مشرک کی بخشش کا انکار بھی کیا ہے.شرک کا مطلب یعنی ایک کے ساتھ دوسرے کو ملانا ہے. یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی مخلوق کو اس کے سوا کسی اور سے جوڑنا ہے جو خالق کبھی معاف نہیں کرے گا.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تخلیق کو ہمیشہ خالق سے ہی منسلک کیا جائے اور خدا کا تخلیق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہے.
جہاں تخلیق کا مقام خالقِ حقیقی کا ہاں نمایاں ہے. وہاں تخلیقات میں بھی افضل رتبہ ہے. کیونکہ ایک تخلیق کار کئی جتن کر کے اپنی تخلیق پیش کرتا ہے اور کبھی کبھی تو اس کےلئے اپنی جان کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے. کیونکہ ہر دور میں یہ تخلیق کار مختلف طریقوں سے اپنے من اور ضمیر کی آواز لوگوں تک پہنچاتے رہتے ہیں. کسی انعام و اکرام کے لالچ سے بغیر یہ لوگ اپنا کام جاری رکھتے ہیں جو تخلیق کو عظیم سے عظیم تر بناتا رہے گا.بقول احمد ندیم قاسمی
ندیم, کوئی مرے فن کا اجر کیا دے گا
میں خاک چاٹ کے بھی نشۂ ہنر میں رہوں!
تبصرہ لکھیے