دین کی اقامت اہل ایمان یعنی ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے یعنی اس کرۂ زمین پر اسلامی نظامِ زندگی کو بالفعل قائم کرنا اور نافذ کر دینے ہی کو تو ہمارا فرض کہا گیا ہے۔ گویا مسلمانوں کو اس کو قائم کرنے کی اپنی پوری پوری کوشش اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق کرنا چاہئے۔ ہمارے یہاں اتنے بڑے بڑے پل بنیں اور ہیڈ پل بنیں ان کے اوپر ریفلکٹرز کی بھی ضرورت ہے.
اور اونچی نمایاں جگہوں پر اللہ کا پیغام مسلمانوں کیلئے راہنمائی اور آگاہی کیلئے قرآنی آیات، ترجمے،اسماء حسنہ مؤثر اور جامع اقوال، اشعار اور خاص کر احادیث نبویؐ کو نمایاں کرکے لکھنا کہ ہر آتے جاتے لوگ سفر کے دوران بھی یاد الٰہی سے غافل نہ ہوں بلکہ اپنے دینی فرائض تو ہرلمحہ اپنی زندگی میں نافذ کریں تاکہ ہماری روح سکون پائے اور سفر آسان ہوجائے اورہمارا ایمان مضبوط ہو ہر دم ہمیں اپنے رب سے جڑے رہنے اس کی عنایات کی شکر گزاری اور اپنی کوتا ہیوں سے بچنے کاجگہ جگہ موقع میسر آئے ہم بھٹکنے نہ پائیں کہ ایک بڑی چیز،بڑی نظر،بے حیائی اور فحاشی کا جملہ،تصویر یا نظارہ ہماری سوچ کا دھارا اتنا منفی کر دیتا ہے کہ بندہ بھٹک جاتا ہے.
جبکہ چھوٹے چھوٹے پیغامات اور دعائیں اپنے حصار میں لیکر رب سے جوڑے رکھتی ہیں اور ہماری محافظ بھی بن جاتی ہیں۔ وہ نیکی بڑی معتبر ہوتی ہے جو خالصتاً اللہ کی رضا کیلئے بے غرض اور بے لوث ہو کر خود عمل کرنے اور دوسروں کو برائی سے روکنے کیلئے کی جائے۔ جنہیں پڑھ کر دیکھ کر سکون ملے، دل خوش ہوا اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف خود بخود دلچسپی سے رجحان لگا رہے، میں تواکثر کہتی تھی، لکھتی بھی تھی کہ ہمارے سائین بورڈ، بل بورڈاور اونچی صاف ستھری جگہیں ہم بہت اچھی طرح دعوتی مقاصد کیلئے آخرت کو فوکس کرتے ہوئے تیار کر سکتے ہیں اسطرح دین کے نفاذ میں مددگار اور معاون ثابت ہوتی ہیں.
نیکی کتنی بھی چھوٹی ہواپنا اثر ضرور دِکھاتی ہے۔ غلط چیزوں کے بد نمااشتہارات ہماری سوچ کو منفی رخ دیکر بیمار کر دیتے ہیں۔مسلمان کی توپہچان ہی یہ ہونی چاہئے کہ وہ آخرت کے مفاد کو دنیا کے مفاد پر ترجیح دینے والا ہو کرہی کام کرے اور اپنی تمام تر توانائی اور ذرائع قیام حق کی راہ میں لگا دے تو ہی روحانی خوشی ہوتی ہے خود کو بھی، دوسروں کو بھی، اچھائی کی ابتداء کریں خلوصِ نیت کے ساتھ تو خود بخود نیکی رنگ لاتی ہے اور لوگوں کے دل ودماغ میں جگہ پاتی ہے۔ مقصد کے حصول کیلئے جو بھی یہ کام کرے اسے مبارک ہو!دیکھیں ناہم سوچتے رہ گئے یعنی:
یہ الگ بات کہ شرمندہِ تعمیر نہ ہوں
ورنہ ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں
ورنہ تو میرا بھی دل یہی چاہتا ہے کہ:
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
اتنی خوشی ہوئی اس پیغام پر جو ایک دعوت ادارہ نہیں بلکہ دنیا میں بظاہر کھیل کے میدا ن اور ورلڈ کپ 2022 کیلئے تیاریاں مگر مقاصد کتنے اعلیٰ کہ پہلے ہی پروگرام کی ایسی منصوبہ بندی کرلی کہ مسلم ممالک کے دل جیت لئے!نہ صرف یہ بلکہ دنیا بھر کے مسلم اور غیرمسلم ناظرین اور سامعین کیلئے ایک دعوتی پیغام دیا جو اخلاقی فتح کے مترادف ہے کیونکہ" دین سراسر اخلاق ہی تو ہے"کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہی تو جہا و بالنفس ہے۔ جو جہاد با لمال کے ساتھ ہو تو سونے پر سہا گہ ہے۔ مختلف تصاویر میں جگہ جگہ پر فرامین نبوی ْﷺ انگریزی اور عربی میں آویزاں کئے گئے تو پھر تمام ہوٹل کے کمروں میں بار کوڈ چسپاں کئے گئے تاکہ موبائل فون پرا سکین کرنے پر لوگوں کو اسلامی تعلیمات، قرآن وسنت کی بنیادی معلومات فراہم کر کے اپنے مقصد ِحیات کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی تو کہیں اسٹیڈیمز کے قریب جتنی مساجد بھی ہوں ان میں ایسے مؤذنین کو تعینات کیا گیا جو انتہائی خوبصورت لہجے میں اذان دیں اور جیسے اسٹیڈیم میں سنانے کیلئے بھی مائیکرو فون تک لگا دیئے گئے ہیں۔
پھر 2000 سے بھی زیادہ مبلغینِ اسلام کو ایسے تیار کیا گیا جو مختلف مقامات پر احسن طریقے سے تبلیغ اسلام سے لوگوں کو بہرہ ور کریں۔ ان کیلئے کئی خیموں اور کئی گاڑیوں تک کا مختلف مقامات پر انتظام کیا گیا ہے،تا کہ دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم شر کاء استفادہ حاصل کریں۔ نماز تو مسلمان کی پہچان ہے لہٰذا اس کیلئے بھی پہلی دفعہ اسٹیڈیم میں ہی وضو کرنے اور نماز پڑھنے کی جگہیں مخصوص کی گئی ہیں۔ سبحان اللہ۔ قطر نے ایک اسلامی ثقافتی نمائش بھی کروانے کا اچھا انتظام کیا ہے جسمیں اسلامی اقدار، مساجد، ایمان اوردینِ اسلام کی ترویج، اخوت، وحدت وغیرہ کا تعارف دنیا کی کئی زبانوں میں کروا کر نہ صرف دنیا میں دعوتی کام کو فوقیت دی بلکہ نا مناسب لباس پر ہم جنسوں کے جھنڈے لہرانے اور اسٹیڈیم کے ارد گرد شراب کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی لگا دی۔ باقاعدہ تلاوت کے ساتھ ا سٹیڈیم کی افتتاحی تقریبات کا آغاز کیا۔
22 سالہ معذور قطری نوجوان غانم المفتاح سے کروائیں گے یہ تو واقعی کتنی دلچسپ اور دلوں کو چھو لینے والی بات ہے یہ قطر کے معروف موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں، جو صحیح وقت پر حکمت کے ساتھ اپنا فرضِ منصبی ادا کرینگے۔ انشاء اللہ گو یا کہ اس کھیلوں کی دنیا کے بڑے ایونٹ کو دعوتِ اسلام کا ایک ذریعہ بنا کر دنیا بھر کے سینکڑوں علمائے کرام ا ور اسکالرز منگوائے گئے جو مختلف زبانوں میں تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے رہینگے جبکہ ان میں دو ہزار مقامی علماء بھی شامل ہونگے جو اپنی ڈیوٹی ملک بھر کی مساجد کے مؤذن تبدیل کر کے دلکش آواز اور خوبصورت پیغام ربانی گویا اذانوں سے اللہ کی مہربانی سے انشا ء اللہ مساجد کو دنیا کی ٹرمینالوجی اسلامی میوزیم کی حیثیت سے متعارف کروا ئیں گے جہاں کوئی بھی فرد کہیں سے بھی آکر معلومات حاصل کر سکے گا۔
پینا فلیکس اور بل بورڈز پر بھی قرآن مجید کے تراجم، مختلف زبانوں میں اور اسلامی تاریخ وسیرت کی کتابوں کا بانٹنا بھی ایک قابل تحسین عمل ہوگا۔ یہی نہیں ڈاکٹر ذاکر نائیک اور دیگر مبلغین کو خصوصی دعوت دیکر انھیں خصوصی سہولیات دیکر ان سے مکمل استفادہ حاصل کرنے کی کوشش ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اس کام میں ہم سب کی مدد فرمائے۔ آمین۔ان کا موقف ہے کہ واقعی ہم 28 دنوں میں کھیلوں کی خاطر اپنا مذہب کبھی نہیں بدل سکتے، نہ روایات، نہ اپنی اقدار اور تہذیب اس لئے دنیا کو بھی ہماری مذہبی اقدار و روایات کا خوشگوار لحاظ رکھنا ہوگا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ قطر کے عوام اور ہم سب مسلمانوں کی نیتوں کو جانتا ہے ہم اس پر کار بند رہیں اور شعوری طور پر مسلمانوں کی ثقافت پیش کریں.
اور اللہ پاک دیگر مسلم و غیر مسلم کے دلوں کو نورِہدایت دے کہ صرف ورلڈ کپ کی شمع ہی روشن نہ ہو بلکہ عالمِ اسلام اور دین محمدی کی شمع سب سے زیاد منو ر ہو! اتنی منور کہ لوگوں کے دل کو نورِ ہدایت سے وہ روشنی حاصل کرلیں جو دنیا تو کیا آخرت کے اندھیروں کو روشن کردے۔ آمین ثمہ آمین۔
ہمیں قطر کے بھائیوں کی اس قابل تحسین انتظامی کاروائیوں کی قدر کرنا چاہئے اور اس کیلئے وہ ہم سب مسلمانوں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی جانب سے دلی مبارک باد پیش کرنا اور اپنی اس خوش قسمتی پر اپنے عظیم کریم رب کا شکر ادا کرنا ہے۔ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔
تبصرہ لکھیے