ہوم << فرقہ بازی- حمیراعلیم

فرقہ بازی- حمیراعلیم

اسلام ایک منہج ہے اس کی ایک سمت ہے اور اس کی بنیاد ایک طریقہ کار پر ہے جو کہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی طرف سے موصول ہونے والی ہدایات کے مطابق سکھایا۔

خدا نے جو مذہب بنی نوع انسان کے لیے مقرر کیا تھا اس کا مقصد انسانوں کو متحد کرنا تھا۔ قرآن میں بنی نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

"اور یہ میرا راستہ ہے جو سیدھا ہے لہٰذا اس پر چلواور (دوسرے) راستوں پر مت چلو کیونکہ وہ تمہیں اس کے راستے سے الگ کر دیں گے۔" 6:153

یہ حکم الہی مسلمانوں کومومنوں کی ایک جماعت کے طور پر متحد ہونے کا پابند بناتا ہے۔ اس طرح فرقہ واریت اور فرقہ واریت کی تمام شکلیں غیر اسلامی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ان کے بعد آنے والی نسلیں خدا کے راستے پر رہیں اور اس طرح اس نے ان کو اس طریقے سے جدا ہونے سے بچایا۔ لیکن بعد کی نسلوں می بعض عوامل تقسیم اور انحراف کے ظہور کا باعث بنے۔ ان میں دنیاوی معاملات میں بڑھتی ہوئی تشویش، غیر مسلم ثقافتوں کا اثر اور سیاسی دشمنیاں شامل ہیں ۔

ابتدائی طور پر کچھ چھوٹے گروہ مسلمانوں کی اکثریت کے راستے سے الگ ہو گئے۔ انہوں نے دین میں بدعات ایجاد کیں اور ان کی پیروی کی۔ان اختلافات کو اسلام کے تسلیم شدہ علمائے کرام اور مسلمانوں کی اکثریت نے مسترد کیا اور ان کی مخالفت کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اختلافات یہ ابتدائے اسلام میں بھی موجود تھے مگر اسلامی تاریخ کے بڑے حصے میں ان کا اثر وسیع نہیں ہوا۔
مسلمانوں کی اکثریت سنت پر قائم رہی (سنی وہ ہے جو اپنا مذہب قرآن و سنت سے لے۔یعنی نبی محمد کی مستند بیان کردہ تعلیمات جیسا کہ وہ اور ان کے صالح پیروکاروں نے عمل کیا۔)

اور جب بھی ان میں انحراف پیدا ہواعلماء کرام نے ہمیشہ ان کی مخالفت اور ان کی غلطی کی نشاندہی کی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی کہ اس طرح کے اختلافات ابھریں گے۔ ا نہوں نے فرقہ واریت کے خلاف خبردار کیا اور مسلمانوں کو اسلام کے دائرے میں رہنے کی ہدایت کی۔اس کے باوجود بہت سے لوگوں نے اپنے مذہب سے انحراف کیا اور بگاڑ پیدا کیا۔ ایسے فرقے بنائے جو اسلام سے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جن کے بیان کردہ عقائد واضح طور پر اس کے خلاف ہیں۔

بعض نے خدا کے تصور کو توڑ مروڑ کر اس کی طرف منسوب کیا ہے جو اس کی الہٰی حیثیت سے نا مناسب یا مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ موجود ہے وہ خدا ہے یا یہ کہ وہ اپنی مخلوق کے اندر مجسم یا موجود ہے۔جبکہ قرآن کہتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے برتر اور اس سے ممتاز ہے۔ اور بعض کو اسلام کے مختلف بڑے عقائد کے بارے میں اس حد تک گمراہ کیا گیا ہے کہ وہ اب خدا کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتے اور اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ جب کہ بعض نے عبادات کی بعض مشروع شکلوں کو اختراع اور بدل دیا ہے۔

وہ فرقے جو اسلام کے مرکزی دھارے سے منحرف ہوئے ہیں وہ اسلامی فقہ کے مکاتب فکر (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مکاتب اور چند دوسرے غیر معروف) جیسے نہیں ہیں۔ اسلام انسانوں کی انفرادیت کو تسلیم کرتا ہے اور یہ کہ رائے کا تنوع اور تجزیہ میں اختلاف منفی نہیں ہے۔ البتہ تفرقہ بازی اور فرقہ واریت کی طرف لے جانے والے اختلاف کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے:’’بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہوں میں بٹ گئے، آپ (اے محمدﷺ) ان سے کسی چیز میں شریک نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے پھر وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔ کرتے ہیں۔" 6:159
اگرچہ اب مسلمان پہلے سے کہیں زیادہ تقسیم نظر آتے ہیں.

لیکن اسلام میں تقسیم کی تعداد دیگر مذاہب کے مقابلے میں کم ہے۔ اب بھی بہت سی اسلامی انجمنیں مل سکتی ہیں جو لوگوں کو حق کی طرف بلاتی ہیں خدا کے اصل پیغام کا اعلان کرتی ہیں اور اس کا نام لے رہی ہیں۔ نجات کا انحصار کسی مخصوص گروہ کے ساتھ تعلق پر نہیں ہے بلکہ سچے ایمان پر ہے جو خدا کی فرمانبرداری سے ثابت ہوتا ہے اور اس کی طرف سے نازل کردہ طریقے پر راست اخلاق ہوتا ہے۔اس لیے ہر عالم کی بات سنیں جو قرآن و حدیث کےمطابق بات کرے اس پر عمل کیجئے باقی کو چھوڑ دیجئے۔

Comments

Click here to post a comment