ہوم << مداری، بازاری اور گالم نویسی - منصور اصغر راجہ

مداری، بازاری اور گالم نویسی - منصور اصغر راجہ

منصور اصغر راجہ دو تین سال پہلے جب عامر لیاقت کی لائیو رمضان ٹرانسمشن نامی ڈرامے بازی پر ’’امت‘‘ نے پہلی بار چڑھائی کی اور ڈاکٹر ضیاالدین خان صاحب نے موصوف کے بارے میں ’’مداری‘‘ کے عنوان سے دھواں دار کالم تین یا چار قسطوں میں لکھا تو کچھ عرصہ ’’جنگ‘‘میں کام کرنے والے عامر لیاقت کے مزاج شناس ہمارے ایک صحافی دوست نے ہمیں فون کرکے بتایا کہ ،ارے بھائی یہ آپ لوگوں نے کسے چھیڑ دیا، جس ڈاکٹر عامر لیاقت کو میں جانتا ہوں، وہ کسی کا ادھار رکھنے کا قائل نہیں ہے، وہ ’امت‘‘ میں چھپنے والے اس کالم کا جواب ضرور دے گا۔ اور دوست کی یہ بات درست نکلی کہ اسی شام عامر لیاقت نے نہ صرف ٹی وی نشریات کے دوران پھپھے کٹنیوں کی طرح ’’امت‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے اسے رمضان ٹرانسمشن جیسے ’’نیک کام ‘‘میں کیڑے نکالنے والا اخبار کہا بلکہ اگلے ہی روز ’’جنگ‘‘میں اس نے ’’مداری‘‘ کے جواب میں ’’بازاری‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا۔ وہ کالم واقعی ایک بازاری کالم تھا کیونکہ اس میں موصو ف نے ’’امت‘‘ کے خلاف جو بازاری زبان استعمال کی، ہارون الرشید صاحب کے خلاف لکھا گیا کالم تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ بازاری کالم کے آخر میں (جاری ہے) بھی لکھا تھا، جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ عامر لیاقت پورا راشن پانی لے کر ’’امت‘‘پر جوابی چڑھائی کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے ’’بازاری‘‘کی ابھی مزید قسطیں بھی آئیں گی۔ لیکن اگلے ہی روز ’’امت‘‘میں ایک کالم چھپا جس میں ’’ڈاکٹر ‘‘صاحب کے دور نوجوانی و جوانی کی کچھ رنگین و سنگین وارداتوں کا اشارتاً ذکر کرتے ہوئے انہیں ’’امت‘‘ کے خلاف مزید کالم لکھنے کی دعوت دی گئی، لیکن ساتھ ہی حافظ حمد اللہ سٹائل میں انہیں یہ پیغام بھی دیا گیا کہ قبلہ آپ ہمیں گالیاں ضرو ر دیں لیکن پھر نہ کہنا کہ ہم نے سر بازار آپ کی شلوار اتار دی ہے۔ بس پھر کیا تھا کہ ’’ڈاکٹر ‘‘صاحب کی ایسی بولتی بند ہوئی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ رمضان ٹرانسمیشن کے دوران ان کی میزبانی کا لطف اٹھانے والے کچھ کن ٹٹے مولویوں نے انہیں ’’امت‘‘ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا مشورہ بھی دیا لیکن پنجابی محاورے کے مطابق ’’ڈاکٹر‘‘صاحب کی تو بے بے ہی مر گئی۔ اور افسوس کہ ہم ان کے ’’بازاری‘‘کالم کی اگلی قسطوں کے منتظر ہی رہے۔ وہ چھپنا تھا نہ چھپا کہ بھرے بازار میں اپنی شلوار اتروانا بھلا کون پسند کرتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
جعلی’’ڈاکٹر‘‘ نے قبلہ ہارون الرشید صاحب کے خلاف جو گند اگلا ہے، اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ موصوف کتنے گھٹیا ظرف کے مالک ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ایسا ہی ایک افسوس ناک منظر دیکھنے کو ملا جب سینیٹر مشاہد اللہ خان نے حسن نثار سے یہ سوال پوچھا کہ ہمارے ہاں تو اخبار نویسوں کو چھ چھ مہینے تنخواہ ہی نہیں ملتی، تم نے بیلی پور کا فارم ہائوس کہاں سے بنایا ہے تو حسن نثار نے بھی اسی طرح لائیو پروگرام میں مشاہد اللہ خان کے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے حسب عادت انھیں گالیوں سے نوازا۔حیرت ہے کہ کچھ اخباری اداروں نے کیسے کیسے ’’نمونے‘‘ بھرتی کر رکھے ہیں۔ جناب ہارون الرشید کے خیالات اور رائے سے اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن کسی جعلی صحافی اور گالم نویس کو ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ایک سینئر اخبار نویس کے خلاف ایسی بازاری زبان استعمال کرے۔ اگر کسی ٹاک شو میں فریقین کے مابین کوئی تلخ کلامی ہو جاتی ہے تواس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کوئی ’’مداری‘‘ اٹھ کر اپنے مدمقابل کے خلاف ’’بازاری‘‘ زبان استعمال کرنے لگے، جبکہ داد کے قابل ہے وہ کاغذ کا ٹکڑا جو اپنے ادارتی صفحے پر ایسے ’’بازاری‘‘ کالم چھاپتا ہے اور پھر ’’اخبار‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ افسوس صد افسوس

Comments

Click here to post a comment