ایک مسلمان ہونے کے ناطے قرآن مجید کے ہمارے اوپر پانچ حقوق ہیں جن کی ادائیگی ہمارے ذمہ لازم اورضروری ہے:
پہلا حق: قرآن کریم پر ایسے ایمان لانا جیسے اس کا حق ہے یعنی اس کے ایک ایک حرف کو صحیح ماننا اور اس کے ایک ایک حکم کو دل و جان سے تسلیم کرنا اور ان پر عمل کی فکر کرنا۔
دوسرا حق: قرآن کریم کا دوسرا حق یہ ہے کہ اسے صحیح تجوید کے ساتھ سیکھ کر پڑھا جائے اور ایسے پڑھا جائے جیسے نازل کیا گیا ہے، حدیث مبارکہ میں آتا ہے قرآن پاک کو عرب کے لہجہ میں پڑھیں، مراد اس سے یہی ہے کہ قرآن پاک چو نکہ عربی میں نازل ہوا ہے لہذا جس طرح ہر ہر حرف کا عربی میں ادائیگی کا خیال رکھا جاتا ہے یہاں پر بھی خیال رکھا جائے، ایک اورحدیث میں آتا ہے قرآن پاک کو اپنی آوازوں سے مزین کرو، مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھتے ہوئے خوش الحانی کا خیال رکھا جائے تاکہ سننے والوں بھی اچھا لگے اور آپ کو پڑھتے ہوئے بھی مزا آئے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں آتا ہے، جو شخص قرآن پاک کو صحیح خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم سے نہیں ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ جو نہ تو قرآن پاک کو صحیح تجوید کے ساتھ خوش الحانی سیپڑھتا ہے اور نہ ہی اس کی کوشش کرتا ہے یعنی سیکھتا بھی نہیں تو وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے، ان احادیث مبارکہ سے قرآن پاک کو صحیح تجویدکے ساتھ پڑھنے کی اہمیت کااندازہ باخوبی لگایا جا سکتا ہے.
تیسرا حق: قرآن پاک کا تیسرا حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے تاکہ ہمیں پتہ چلے قرآن ہم سے کیا ڈیمانڈ کر رہا ہے ظاہر سی بات ہے قرآن پاک صرف پڑھ کرثواب لینے یا مردے بخشوانے کے لئے نہیں نازل کیا گیا بلکہ یہ تو انسان کو زندگی گزارنے کی ایک گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے جس کے مطابق انسان زندگی گزار کر صحیح معنوں میں دنیا میں اللہ تعالٰی کا خلیفہ کہلوانے کا حق دار ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں کہا گیا ہے کہ ''کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑ چکے ہیں'' (سورت محمد آیت نمبر24) اس آیت سے قرآن پاک کو سمجھنے کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آج ہم میں سے ہر ایک دنیاوی فنون کو سیکھنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے.
قرآن پاک جو حقیقی معنوں میں سیکھنے اورسمجھنے کی چیز ہے اسکی طرف ہماری توجہ ہی نہیں یا اسے اتنا ہلکا لیا جاتا ہے کہ خود ہی تفسیر پکڑ کر سمجھنے بیٹھ جاتے ہیں اور خود کو علامہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کیا کبھی یہی سلوک دنیاوی علوم میں بھی کیا،قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے استاذ کا ہونا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کیوں بہت ساری چیزیں استاذ کے ذریعے ہی سمجھی جا سکتی ہیں اس کے بغیر ممکن نہیں ہوتیں، اس لئے آخری درجہ یہ ہے کہ ہم درس قرآن میں ضرور شرکت کریں، یا کسی ماہر عالم دین سے خدمت حاصل کریں اور قرآن پاک کو سیکھنا شروع کریں آج کل تو انٹرنیٹ کا دور ہے یہ کام آن لائن بھی ہو سکتا ہے اگر کسی کے پاس زیادہ وقت نہیں توآن لائن ہی کسی عالم دین سے خدمت لی جا سکتی ہے، یقینا اگر کچھ رقم اس کام کے لئے خرچ ہو جاتی ہے تو یہ ہمارے لئے ذریعہ نجات ہو گی۔
چوتھا حق: قرآن پاک کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوا جائے، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات جو ہماری گود سے گور تک کی رہنمائی کرتا ہے قرآن پاک کی تعلیمات کو سیکھنے کا مکمل فائدہ اسی وقت حاصل ہو گا جب ہم اس پر عمل کرنے والے بنیں گے ورنہ اگر قرآن پاک سیکھنے کے بعد عمل نہ کرنے کی مثال قرآن پاک نے بہت خطرناک انداز میں ہمارے سامنے رکھی ہے ''ان کی مثال جن پر توریت رکھی گئی تھی پھر انہوں نے اس کی حکم برداری نہ کی گدھے کی مثال ہے جو پیٹھ پر کتابیں اٹھاتا ہے، کیا ہی بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیتیں جھٹلائیں اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا'' اصل میں یہ مثال یہود کے لئے دی گئی ہے کہ وہ تورات کو سمجھ کر اسکے احکامات پر عمل نہیں کرتے تھے.
اسی طری یہی کام اگر ہم کریں گے تو یہ مثال ہمارے لئے ہو گی، ویسے بھی اگر انسان قرآنی تعلیمات کو ترک کے کر خودساختہ اصولوں پر زندگی گزارنے کی کوشش کرے تو ایسی صورت میں انسان اپنے انسانی شرف کو کھو دیتا ہے اور جانوروں کی مثل بن کے رہ جاتا کہ جیسے جانوروں کو صرف کھانے پینے اور رہنے کی فکر ہوتی ہے آخرت کا کوئی تصور ان کے ہاں نہیں ہوتا یہی کام ایک انسان سرانجام دے رہا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں یہ انسان نہیں بلکہ انسان نما ایک جانور ہی ہوتا ہے بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہو کر رہ جاتا ہے کیوں جانوروں کو تو یہ صلاحیت ہی نہیں دی گئی کہ وہ قرآن پاک سمجھ سکیں اور اس پر عمل کر سکیں یہ صلاحیت تو انسان کو دی گئی ہے اس کے باوجود جب انسان ان تعلیمات کو ٹھکراتا ہے تو جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔
پانچواں حق: قرآن پاک کا پانچواں حق یہ ہے کہ قرآن کو دوسروں تک پہنچانا یعنی پہلے خود سیکھیں اور جو سیکھ لیں وہ آگے دوسروں تک پہنچائیں حدیث مبارکہ میں آتا ہے ''تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن پاک سیکھے اور دوسروں کو سکھائے '' سب سے پہلے تو یہ ہے کہ ہم خود قرآن پاک کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں جب ہم خود قرآن پاک کو سیکھ اور سمجھ لیں پھر اسے آگے سکھانے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ تاکہ استفادہ عام ہو اور ہمارے لئے بھی یہ صدقہ جاریہ کا سبب بنے۔چونکہ قرآن پاک کا ایک حق صحیح تجوید کے ساتھ تلاوت کا بھی ہے اب مصروفیت اور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر وقت قرآن کریم کا نسخہ ساتھ رکھنا کافی مشکل کام لگتا ہے اس لئے اکثر ساتھیوں کی طرف سے یہ پوچھا جاتا ہے کیا ہم موبائل پر قرآن کریم کی تلاوت کر سکتے ہیں؟ ان کے لئے عرض ہے کہ جی ہاں موبائل میں دیکھ کر قرآنِ مجید پڑھنا جائز ہے۔
چوں کہ قرآنِ کریم کو دیکھ کر ہاتھ لگائے بغیر زبانی تلاوت کرنا جائز ہے، اس لیے موبائل فون میں دیکھ کر بے وضو قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا جائز ہے، اگر اسکرین پر قرآن کریم کھلا ہوا ہو تو بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا بھی جائز ہے، البتہ اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، کیوں کہ جس وقت قرآنِ کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کا حل جو ہمارے استاذ محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف خان صاحب نے ہمیں سبق میں بتایا وہ یہ ہے کہہ آپ جب بلا وضو موبائل پر قرآن کریم پڑھیں تو اس وقت اسکرین پر جہاں قرآن کریم کے حروف لکھے ہوئے وہاں پر ہاتھ نہ لگایا جائے بلکہ جہاں حروف نہیں لکھے ہوئے وہاں ہاتھ لگا کر قرآن کریم کے اوراق کو پلٹا جاسکتا ہے۔
یہ ایک محتاط طریقہ ہے اس پر عمل کریں گے تو انشائاللہ قرآن پاک کا حق ادا کرنے میں آسانی رہے گی۔ایک اور سوال جو پوچھا جاتا کہ کیا ہم قرآن کریم موبائل میں رکھ سکتے ہیں جب کہ اس موبائل کو ہم بیت الخلاء وغیرہ میں بھی لے جاتے ہیں تو اس کے لئے عرض ہے کہ موبائل فون میں قرآنِ کریم رکھنے میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ بے ادبی کی نوبت نہ آتی ہو۔اگر قرآنی اپیلی کیشن موبائل اسکرین پر ڈسپلے ہو تو اسے بیت الخلاء میں لے جانا ممنوع ہوگا، بصورتِ دیگر گنجائش ہے، تو کوشش کی جائے قرآنی اپیلی کیشن موبائل کے اندر رکھی جائیں ڈسپلے پر نہ ہوں۔
اس کے ساتھ ایک اور چیز کا خاص خیال رہے کہ اصل یہی ہے کہ قرآنِ مجید مصحف میں دیکھ کر پڑھا جائے یہی افضل طریقہ ہے، اس لیے کہ مصحف کو چھونا اور اس کو اٹھانا یہ اس کا احترام ہے، اور اس میں معانی میں زیادہ تدبر کا موقع ملتا ہے، نیز مصحف کے کسی بھی حصے کو بلاحائل چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے، اس سے مصحف کا احترام مزید بڑھ جاتاہے، اور ان سب امور کا اہتمام ثواب کا ذریعہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں موبائل میں حاصل نہیں ہوتیں، اس لیے جہاں تک ممکن ہوسکے مصحف ہی سے پڑھا جائے، تاہم اگر موبائل سے پڑھ لیں تو اللہ کی ذات سے امید ہے.
اس پر بھی قرآنِ کریم دیکھ کر پڑھنے کا ثواب عطا فرمائیں گے، اور قرآن کریم نہ پڑھنے سے موبائل پر ہی پڑھنا بھی یقینا اجروثواب اور برکت کا حامل ہو گا۔ دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں قرآن کریم کے صحیح معنوں میں حقوق ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!
تبصرہ لکھیے