ہوم << بات اک قلندر کی- عائشہ غازی

بات اک قلندر کی- عائشہ غازی

مجھ جیسے لا علم کو ، مجھ جیسے دنیادار دل کو اُس نروان کے چند لمحے کھوجنے میں زمانے لگ جاتے جو اقبال نے لپیٹ کر ہمارے سامنے دھر دیا ۰۰ مرد قلندر نے نعرہ مستانہ لگایا تھا ۰۰ "خودی کا سر نہاں، لا الہ الا اللہ " ۰۰ اور قلندر کی بات 'شاہراہ عام' نہیں ہوا کرتی ۔
وقت نے ثابت کیا کہ قلندر کی بات "شاہراہ عام" نہیں ۰۰ 'خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ' ۰۰ ۰۰ ہم نے خاص سے عام کا سفر کیا ۰۰ قوم رسول ہاشمی اپنی خودی کو بھول کر مغربی افکار و تہذیب کی دیوانی ہوئی ۰۰ اور آج وہ وقت ہے کہ شاعر مشرق کے افکار تو کیا، ان کی یاد بھی قومی خزانے پر بوجھ بن گئی ۰۰
درویش نے سچ کہا تھا :
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
خواجگی میں مشکل تو کیا، الٹا مسرت ہونے لگی ہے ۰ غلام سوچ قوم کے آگے ایسے سینا تانے ہنس کی چال چلتی ہے کہ جیسے فرنگی آقا کے دم پر اپنی ہی قوم پر لاٹھیاں برسانے والے دور غلامی میں سینہ تان کر پریڈ کرتے تھے ۰۰ افسوس دور غلامی جا کر بھی نہیں گیا ۰ انہی ہنس کی چال چلنے والوں کو قوم ایسے حیرت و حسرت سے دیکھتی ہے جیسے غریبوں کی گلی سے بادشاہ کی سواری گزرے ۰ خوئے غلامی میں پختہ غلام پر اب کے افتاد یہ پڑی ہے کہ احساس غلامی بھی نہیں رہا ۰۰ الٹا لذت غلامی ہے۰ مگر نہ سینہ تان کر آگے چلنے والوں کو خبر ہے نہ پیچھے چلنے والوں کہ یہ سب تو کسی کھیل کے مہرے ہیں بس ۰ درویش نے کہا تھا
اس کھیل میں تعیین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں ، میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ نا چیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
اس ہجوم کو دیکھ کر سوچتی ہوں ۰اقبال کا مخاطب شاہین تھے، کوے نہیں تھے ۰ اقبال اس ہجوم کے لئے نہیں اترے تھے ۰ اقبال اس قوم پر اترے تھے جن کے پاس اقبال کو سمجھنے کی ذہنی بلوغت تھی ، جن کی نظر اقبال کے دیدہ بینا کا تعاقب کر سکتی تھی۰ اب اقبال کو یاد میں رکھ کر کیا کرنا ہے ؟ اس ہجوم کی ذہنی پرورش ہی اس قابل نہیں ہوئی کہ اقبال کو سمجھ سکیں تو اقبال کی یاد کا بوجھ ڈھونے سے کیا حاصل ۰ اقبال بھی انہیں کو دے دیجئیے جن قوموں نے آج بھی اقبال کے کلام کو سینے سے لگا کر رکھا ہے ۰ اور اس زمانے کا سچ یہی ہے کہ خزانے کسی قوم کی ملکیت میں تبھی تک رہتے ہیں جب تک وہ ان کی حفاظت کر سکتی ہے، اس کے بعد خزانوں کے مالک تبدیل کر دئیے جاتے ہیں اور آنے والے لوگوں میں چند بصیرت رکھنے والے انہیں دوسری قوموں کے پاس دیکھ کر اپنی حالت پر روتے ہیں جیسے اقبال روتے تھے : جو دیکھیں ان کو مغرب میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ اور باقی ہجوم کے دل سے احساس زیاں بھی جاتا رہتا ہے۰
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
بے شک فطرت کبھی ملت کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی ۰ اور جب سزا کی ابتدا ہو تو قوم میں اہل بصیرت اور اہل حریت مفقود کر دئے جاتے ہیں ، مادیت اور جہالت اس کی جگہ لے لیتی ہے ۰ اپنی ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھیں تو کیا نظر آتا ہے ؟ علم کے دعویداروں سے لے کر اہل ہنر تک ۰۰ اکثریت مادہ پرست ، اکثریت بے بصر ، اکثریت جاہل اور اب جمہور کا تحفہ ہے کہ جو اہل علم اہل بصیرت ماضی کے خزانوں میں ہیں ، انہیں بھی نکال پھینکو ۔
اقبال کی نظم "ابلیس کی عرضداشت" کے آخری مصرعے ہیں "
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک
اقبال کے چاہنے والے دنیا میں اور بہت ہیں البتہ اس ہجوم کا اللہ حافظ