ہوم << شہبازشریف کی واردات - عبداللہ طارق سہیل

شہبازشریف کی واردات - عبداللہ طارق سہیل

کسی پر قاتلانہ حملہ ہو تو اس کیلئے ہمدردی بڑھ جاتی ہے۔ زیاہ تر یہی ہوتا ہے‘ لیکن کبھی کبھی اس کے الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایسا ماجرا ماضی میں بھی ہو چکا ہے۔ کینیڈا والے مشہور مولوی صاحب پر ان کے باتھ روم میں قاتلانہ حملہ ہوا۔

خون دیواروں پر جا لگا‘ لیکن اس واقعے کے بعد جیسا کہ ان کی توقع تھی‘ مقبولیت بڑھ جانی چاہئے تھی‘ لیکن نہیں بڑھی۔ بلکہ کم ہوئی۔ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لیبارٹری میں خون کا تجزیہ کیا گیا تو وہ بکرے کا نکلا۔ ان دنوں اخبار میں خبر لگوانے کیلئے ان کے کارکن صحافیوں سے ذاتی ربط رکھتے تھے۔ ایک ایسے ہی رابطہ کار میرے پاس بھی آئے تو میں نے پوچھا‘ یہ بکرے کے خون والا کیا معاملہ ہے۔ فرمایا‘ حضرت صاحب کے حاسد بہت ہیں‘ کالا علم کروا دیا ہوگا۔ موکل راستے ہی میں جھپٹ پڑے اور حضرت جی کے خون کو لے اڑے‘ اس کی جگہ بکرے کا خون تھما گئے۔

یہ موکل یا بیر بھوت بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ جس کی طرف بھیجے جائیں‘ اسے تباہ کر دیتے ہیں۔ بھیجنے والے یا کام لینے والے بڑے فائدے اٹھاتے ہیں‘ لیکن کچھ عرصہ سے موکلات کا نام کچھ بدنام سا ہو گیا ہے۔ خاص طور سے ایک سال تو کچھ ایسا گزرا کہ کچھ بھی نہیں کر پائے۔ نہ یہ سیڑھی چوکی بچا پائے نہ کوئی اور بگڑی بنا پائے۔ مناسب ہے کہ اشتہار دیا جائے کہ ایک سیاسی کارپوریشن کو نئے موکلات کی ضرورت ہے۔ پرانے ازکار رفتہ ہو گئے۔ جلد از جلد رجوع فرمائیں۔ کارپوریشن کے چیئرمین سخت پریشان ہی ہیں۔ چھیتی بوھڑیں وے موکلا۔ کل کارپوریشن کا جو اجلاس ہوا‘ صاحب بڑے ناراض تھے کہ لوگ پھر نہیں نکلے۔ ظاہر ہے موکلات عضو معطل بن گئے۔

قاتلانہ حملے کا کام کچھ اپنوں نے بھی نکالا۔ ایک نے بیان جاری فرمایا دو گولیاں لگیں‘ دوسرے نے چار کی اطلاع دی۔ من پسند قابل اعتماد ڈاکٹر نے بتایا کہ گولی تو لگی ہی نہیں‘ ذرے یا ٹکڑے لگے اور ہڈی صاف ہو گئی۔ شکر الحمدللہ۔ پھر انہی قابل اعتما ڈاکٹر نے دونوں ٹانگوں پر گھٹنے تک پلستر چڑھا ڈالا اور صاحب نے پلستر والی ٹانگوں سمیت وہیل چیئر پر بیٹھ کر پریس کانفرنس کی اور ( میر جعفر) سے درد بھری اپیل کی کہ جناب جاگو‘ ملک ڈوب رہا ہے۔ پریس کانفرنس سے کچھ دیر پہلے تک کارپوریشن کے ورکر جا بجا مظاہرے کر رہے تھے اور ’’میر جعفر‘‘ کو گالیاں دے رہے تھے۔ طرح طرح کی بددعائیں دے رہے تھے۔
بہرحال صاحب کو پھر بھی توقع ہے کہ میر جعفر جاگ جائیں گے۔ نہ جاگے تو اگلی کال تو ہے ہی۔

گورنر ہائوس کا محاصرہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کم سے کم چار پانچ ہزار آدمی ہوں تو صورت پیدا ہو سکتی ہے‘ لیکن کارپوریشن نے کرامت کر دکھائی۔ صرف ساٹھ ستر لوگ آئے‘ بیریئر توڑے‘ کچھ اضافی توڑ پھوڑ بھی کی۔ گیٹ پر چڑھے‘ پھر اترے‘ پھر آگ لگا دی اور چلتے بنے۔ یہ حکومت ساری کی ساری کارپوریشن کی نہیں تھی۔ پنجاب حکومت کی بھی تھی۔ جو خیر سے اپنی ہے۔کراچی میں دو تین سو لوگ نکلے۔ یعنی لاہور سے تین گنا زیادہ‘ لیکن کرامت نہ دکھا سکے۔ سامنے پولیس کھڑی تھی۔ لاہور میں سو کے قریب موٹرسائیکل سواروںکا قافلہ آزادی کی تلاش میں عازم کینٹ ہوا۔ پرجوش نعرے کچھ یوں تھے ‘ ہم لے کے رہیں گے آزادی‘ تیرا باپ بھی دے گا آزادی۔ میر جعفر مردہ باد۔

ابھی منزل سے کچھ پیچھے ہی تھے کہ راستے میں دیکھا سامنے جوان کھڑے تھے۔ قافلے والوں نے یو ٹرن لیا اور جہاں سے چلے تھے وہیں لوٹ آئے۔ لے کے رہیں گے آزادی والے نعرے البتہ بدستور گونجتے رہے۔احتجاج کی خبر کی مرکزی سرخی کے نیچے ذیلی سرخی کے الفاظ یوں ہیں۔ ’’اسلام آباد میں پولیس پر پتھرائو‘ ڈنڈوں‘ غلیلوںکا استعمال‘ درختوں‘ موٹرسائیکلوں کو آگ لگا دی‘ راہگیروں کو لوٹا۔‘‘درختوں کو آگ لگانا کارپوریشن کی ’’روحونیات‘‘ عملیات کا حصہ ہے۔ شاید‘ موٹرسائیکلوں کو آگ لگانا ’’آزادی اظہار‘‘ کی سرگرمی ہے اور راہ گیروں کو لوٹنا ڈوبتی ’ماشیت‘‘ (معیشت) کوسہارا دینے کیلئے اٹھایا جانے والا قدم ہے‘ غالباًوہ لانگ مارچ جس نے اسلام آباد داخل ہوکر سب کو بہا لے جانا تھا‘ قیلولہ کرنے لاہور واپس آگیا ہے۔ قیلولہ کی معیاد کتنی ہے یہ معلوم نہیں‘ لیکن پتہ ضرور چلاہے کہ قیلولہ اپنی میعاد ہر حال میں پوری کرے گا۔

پچھلی بار یعنی 25 مئی کو قیلولے کی میعاد چھ یوم کی تھی۔ 26 مئی کو یہ میعاد شروع ہوئی اور 25 اکتوبر کو پوری ہوئی تھی۔ اس بار اضافی صدمہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں ہماری حکومت ہے‘ پھر بھی تھانیدار ہماری ایف آئی آر نہیں کاٹ رہا۔ چاہتے نہ چاہتے یہ لانگ مارچ بھی چین والے معاملے سے جڑ گیا ہے۔ 2014ء کا چودہ ہزاری لانگ مارچ ہوا تو چینی صدر کا دورہ رک گیا اور سی پیک کا پیک اپ ہو گیا۔ معاملہ اب بھی چین سے جا جڑا‘ لیکن شکل اس بار معکوس ہے۔
اس بار یہ ہو رہا ہے کہ سی پیک کی بحالی کے فیصلے ہوئے ہیں‘ اس میں کچھ اضافے بھی ہوئے ہیں جن پر وزیراعظم شہبازشریف کے دورہ چین کے دوران فیصلے کئے گئے۔ نئی بات یہ بھی مستزاد ہوئی کہ چین نے نہ صرف پاکستان کے ذمے 7 ارب ڈالر کا قرضہ مؤخر کرنے کی درخواست منظور کر لی ہے بلکہ پاکستان کو مزید ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر بھی تیار ہو گیا ہے۔

اور ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی کہ سعودی عرب بھی کوئی پیکیج دینے والا ہے۔ لانگ مارچ جو قیلولہ میں چلا گیا ہے تو شاید اس کی وجہ یہ خبریں بھی ہوں۔ یعنی اس بار یہ یہاں لانگ مارچ کر تے رہے‘ ادھر شہبازشریف چین جا کر کام دکھا گئے۔