ہوم << عمل کا امام علم - نجم الدین ہمدانی

عمل کا امام علم - نجم الدین ہمدانی

د ین کا تعلق ہمارے یہاں رسومات سے کچھ زیادہ ہی جڑ گیا ہے۔ رسومات سے جڑنے یا ااس طرز پر دین کے احکام ِحقیقی کو پش پشت ڈال کر ہر فرد واحد بالخصوص مذہبی نمائندے اپنے خیال و فکر سے دین کی تعلیمات کو بیاں کرنے لگے ہیں تو اس کا اثر واضح ہے کہ اس سے دینی مزاج سازی اور روحِ دین کی بقا کے بجائے رسوم سازی اور بے روح اعمال کی بجا آوری شروع ہوتی ہیں۔

اگر ایسا نہیں ہو رہا ہو تو معاشرے ضرور علم وعمل اور اخلاص و محبت کی خشبو سے مہک اٹھیں اور ہم مسلمانوں کی ایسی کردار سازی ہو کہ پوری اقوام ِعالم کے لیے راہ نما اور رہبر کی حیثیت اختیار کر لیں۔ مگر کہیں بھی عملا اور حقیقتا ایسا ہوتا ہو ، آج کے زمانہ میں منظر نامہ پر نہیں ، یہ اور بات ہے کہ ماضی بعید میں مسلمانوں کی علمی ، تہذیبی اور اخلاقی برتاؤ نے پوری ایک تہذہب کھڑی کیں۔انسان جہاں بھی بستے ہوں وہاں انسان کی جسمانی خوراک کے لیے جو ماحول فراہم کیا گیا ہے بالکل اس سے زیادہ اہم طرز پر اس کی ذہنی ، عقلی ، نفسیاتی اور روحانی و دینی خوراک کا بھی بندوبست کیا گیا ہے ۔

لیکن انسان کا ہوس اور ہوائے نفسانی جس طرح انسانوں کے جسمانی خوراک کے حوالےسے کی گئی تقسیم پر مختلف انداز سے ڈاکہ ڈالتی ہیں اور دنیا میں سماجی اور معاشی بیلنس (balance) قائم ہونے نہیں دیتیں، بالکل اس سے زیادہ انسان ہی انسان کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح دوسرے انسان کو زیادہ عقلی ، ذہنی ، روحانی و دینی اور نفساتی اعتبار سے آگے جانے نہ دیں ۔ یہ معاملہ انفرادی سطح پر اور اقوام عالم کی سطح پر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ دنیا میں نظر آنے والا کشمکش کسی حد تک اسی طرز عمل ہی کا نتیجہ ہیں۔جسمانی و معاشی خوراک کسی نہ کسی طرح انسان کو حاصل ہو ہی جاتا ہے ، کیونکہ اس عمل کے لیے جو جدوجہد کرنی پڑتی ہے وہ دینی ، علمی ، روحانی اور نفسیاتی جدوجہد کے مقابل حقیقتا کم ہے۔ دینی ، علمی و روحانی جدوجہد میں جو رکاوٹیں آپ کے سامنے آتی ہیں ان کا تعلق خاص طور پر معاشرے کے مذہبی نمائندوں سے ہوتا ہے.

جو ایک طرز فکر پر سوچنے اور عمل کے قائل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ان مذہبی نمائندوں کا دین اور سیرت مصطفی ﷺ سے بالواسطہ ( directly) تعلق کی کمی ہے۔ موجودہ صورت حال میں دین کے ایسے قصے(جن میں اوہام و خرافات(myths) کی ملاوٹ ہو) کہانیاں مشہور و معروف ہیں کہ عوام اور خواص دونوں طبقے ان مذہبی طبقہ کی قید میں ہیں ، لہذا اگر ان مذہبی سربراہوں سے اگر قرآن اور حدیث اور سیرت سلف صالحین سے استدالا ل کر کے گفتگو کی جائے تو پہلے پہل ان کے اذہان جن رسومات اور اختراعی افعال کی بجا آوری میں مشغول ہیں اس سے نکلنا ان کے لیے سخت مشکل ہوتا ہے ، اور پھر، قرآن اور احادیث نبوی سے مکمل واقفیت نہیں ہونے کی وجہ سے ان کے ہاں جوابات کی سخت کمی ہوتی ہیں، چنانچہ اگر جوابات نہ ہوں تو سننے کی صلاحیت ہونی چاہیے جو یہاں پہلے ہی سے مفقود ہے، لہذا اب ان حضرات کے مرتبے (status quo) پر کاری ضرب پڑتی ہے، جس سے ان کا "انا" (ago) ایسے باہر پھٹ پڑتا ہے جیسے آتش فشان پہاڑ سے لاوے (volcanos) نکلتے ہیں۔

خاص کر ہمارے وطن میں علوم دینی کو جو مقام و مرتبہ دینا چاہیے یا ملنا چاہیے ، اس کے نہ ملنے کی بنیادی وجہ یہی علوم دینی سے ناآشنا نیم مذہبی سربراہاں ہیں، جنھوں نے علوم دینی کے لیے جن بنیادی مبادیات اور علوم کو پڑھنے کی ضرورت تھی ان کی ایسی ناقدری (devalue) کی ، کہ پڑھے ہو ئے علماء بھی ان کی کہی ہوئی باتوں میں پھنس گئے۔ اسی طرزِ عمل کی وجہ سے علمی ، فکری ، روحانی اور دینی کتابوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہیں ، کیونکہ یہ کتابیں عوام کے ہاتھ لگیں تو پھر شعور اور علم کی ایسی نئی راہیں کھلیں گی کہ دنیا کو ہماری ضرورت محسوس ہونے لگے، کیونکہ جب علم آئے تو اختلاف اور سوال ضرور ہو گا جب سوالات ہونے لگیں تو بند عقل کو حکمت اور دانائی کی تلاش ہو گی اور ہاں حقیقی حکمت اور دانائی اور غور و فکر ہی اسلام کا ایسا خاصہ ہے کہ جس کے لیے قرآن میں آیت اتری : يُؤْتِى الْحِكْـمَةَ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِـىَ خَيْـرًا كَثِيْـرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُو الْاَلْبَابِ (البقرۃ: 269) وہ جس کو چاہتا ہے حکمت دے دیتا ہے اور جس کو حکمت ملی اس کو بڑی دولت ملی اور نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں(تذکیر القرآن)۔

مسلسل قرآن اور احادیث کے مطالعے میں زندگی گزارنے کے بعد ہی حکمت اور دانائی ہاتھ آتی ہے اور فطرت کا قانون بھی اسی طرح سے بنایا گیا ہے کہ محنت ِشاقہ سے ہی حصول علم ممکن ہے۔ اب ہم میں سے ہر کوئی خود تھوڑا غور و فکر کریں کہ دینی علوم سیکھے اور پڑھے بغیر ہی احکام دینی پر رائے دینا کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اور جس کے ہاتھ میں مذہبی نمائندگی ہو اگر ایسے حضرات علوم دینی سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے تو ان کی گفتگو اور خطبات سے دین مخصوص اعمال میں سمیٹ کر رہ جاتا ہے اور صرف انہی اعمال کو درست سمجھا جاتا ہے جو ہمارے ہی حلقہِ فکر میں جاری و ساری ہیں ۔

دینی علم معاشرے اور لوگوں کی روح کو تروتازہ رکھتا ہے اور پھر علمی اختلافا ت اس چیز کا ثبوت ہوتے ہیں کہ معاشرے میں اجتماعی عقل کی ارتقاء اور سمجھ بڑ رہی ہے۔ جب یہ عمل آزادانہ طور پر جاری رہے تو دین پر جو عمل رسومانہ انداز سے ہو رہی ہوتی ہیں وہ اس دائرہ سے نکل کر تواتر سے ایمان کو تازگی دی رہی ہوتی ہیں اور قلب و عقل میں اسلام کا حقیقی پیغام راسخ ہو جاتا ہے۔ اس سے ہر ایک کو یہ اندازہ و احساس ہوتا ہے کہ فقظ عمل سے جو لطف میسر ہے اس کو اگر جان کر ، پڑھ کر ، سیکھ کر اور غور و فکر سے بجا لایا جائے اور پھر علم و عمل میں موافقت پیدا کر کے دیکھا جائے ،تو لطفِ دینی و روحانی کا حصول دوبلا ہو جائے اور پھر حضور قلب اور احساس دینی کا مزاج ہر وقت و لمحہ انسان پر طاری رہے ، اور نتیجۃ یہ شعوری دینی مزاج و ا حساس انسان کو ہمیشہ اللہ کی معرفت کے حصول پر ابھارتا رہے گا۔

اسلام کی آمد کی ابتداء اور بنیاد ہی پڑھنے سے ، جاننے سے، علم اور اقرا (العلق : 1) سے متصل ہے۔ اور خالق ِکائنات سے اس سلسلے میں انسانوں پر احسانِ عظیم فرمایا کہ پوری ایک کتاب ھدایت اور کتاب لاریب (البقرۃ: 2) اتاری اور ساتھ ہی اس کی تعلیم و تدریس کے لیے ایک بہترین معلم محمد ﷺ کو اپنے فضل سے منتخب فرمایا ۔ لہذا اسلام میں اقرا ( پڑھنے)کا عمل پہلے ہوا پھر عمل کا سلسلہ بھی جاری رہا۔اس لیے اسلام پر چلنے والے وہی ہیں جو علم و حکمت کی مسدود راہیں کھولتے ہیں ۔ اور یہی عمل معاشرے کو قرآن اور سنت نبوی سے قریب کرتا رہے گا۔ اس سلسلہ میں ڈاکڑ یوسف القرضاوی کی کتاب " رسول اکرم ﷺ اور تعلیم "سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں ، جس میں علم ہی کو دین کہا گیا ہے: علم قرآن و سنت کی نظر میں نہ دین کا حریف ہے نہ ایمان کی ضد ہے۔

جس طرح دیگر قوموں اور معاشروں کو علم اور دین کے ایک دوسرے کی ضد ہونے کی بنا پر ان کے درمیان کشمکش اور تصادم کا سامنا کرنا پڑا ۔ امت اسلامیہ اپنے دین و علم کے اعتبار سے ایسی کسی بھی کشمکش سے ناآشنا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ دین ہمارے نزدیک علم ہے اور علم ہمارے نزدیک دین ہے اور علم ہماری تہذیب میں ایمان کا رہنما ، عمل کا اِمام اور دنیا و آخرت میں فوز و سعاد ت کا دروازہ ہے۔ اس لیے ہمارے علمائے کبار نے کہا ہے کہ شریعت اور حکمت میں گہرا تعلق ہے اور صحیح منقول صریح معقول کے موافق و مطابق ہوتی ہے( رسول اکرم اور تعلیم ، ص: 260) ۔ علامہ قرضاوی نے بہت جاندار فرمایا ہے کہ علم ہی عمل کا امام ہے ۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی بساط اور وسعت کے مطابق دین سیکھیں ۔اور روح اور اسرار وحکمت ِدین سے آشنا ہونے کی کوشش کریں ۔ تاکہ ہماری عمل میں اخلاص اور حضوری کی کیفیت بڑھتا جائے۔

اس کےلیے ضروری ہے کہ علوم دینی کے تحصیل کے سلسلے میں موجود علماے کرام اور طلاب و طالبات کی اور ان کے سوالوں کی قدر کریں اور ان کے وہ افکار یا رائے جو قرآن اور سنت کے قریب ہو ان پر توجہ دیں اور مخالفانہ بیانہ رکھنے کے بجائے اصلاحی اور تعمیری بیانیہ (constructive narrative) کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں ، یہ اسی وقت ہی ممکن ہے جب شمع علم سے اپنے عقل و فکر کو تازگی دیتے رہیں گے۔