پاکستان میں کسی بھی قسم کا عدم استحکام ہو تو بھارت سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے جیسا کہ کل کے کالم میں بھی اس حوالے سے لکھا گیا اور آج بھی اسی موضوع پر بات آگے بڑھا رہا ہوں۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پر بھارتی میڈیا بہت خوش ہے اور وہاں خصوصی نشریات ہو رہی ہیں۔
بھارتی میڈیا خصوصی نشریات میں افواجِ پاکستان کو ہدف بنا رکھا ہے اور اس کا مواد پاکستانی سیاست دانوں نے فراہم کیا ہے اور ان سیاست دانوں میں پاکستان تحریک انصاف سرفہرست ہے۔ بدقسمتی ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان افواجِ پاکستان کو اپنا سیاسی حریف سمجھ کر سڑکوں پر ہے۔ بھارت کو سب سے زیادہ خوشی عمران خان کی طرف سے آئی ایس آئی پر الزامات کی وجہ سے ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو پارلیمنٹ میں سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ اس سیاسی شکست کا بدلہ افواجِ پاکستان، آئی ایس آئی سے لے رہے ہیں۔ عمران خان اپنے لوگوں کو فوج مخالف بیانیے کے لیے تیار کر رہے ہیں ان کی حکمت عملی یہی نظر آتی ہے کہ کسی بھی طرح ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ تصادم کی فضا پیدا ہو، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پی ٹی آئی کے مظاہرین آمنے سامنے آئیں، خون کی سیاست ہو، سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے بعد امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہو اور برسوں کی قربانیوں سے قائم ہونے والا امن بھی تباہ ہو جائے۔
بھارت اس صورت حال کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور بھارتی میڈیا واضح الفاظ میں یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ کئی ایک بھارتی پروگراموں میں پاکستان تحریکِ انصاف کے نمائندے بھی نظر آتے ہیں وہ کمزور الفاظ میں دفاعی اداروں کے حوالے سے گفتگو کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن جب ان کا قائد افواجِ پاکستان کو سیاست میں ملوث کرتا رہے اور آئی ایس آئی کو للکارتا رہے تو یہ بات بھارتی میڈیا کیسے تسلیم کرے وہ تو کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کو کمزور کرنا ان کا مقصد ہے۔ ان حالات میں پاکستان تحریکِ انصاف کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ وہ ایک مخصوص انداز میں سیاست تو کر رہے ہیں ان کا دعویٰ بھی یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ ملک و قوم کے لیے ہی کر رہے ہیں لیکن کیا انہوں نے سوچا ہے کہ اس مہم جوئی پاکستان کو کتنا نقصان ہو رہا ہے۔
ایک جھوٹا بیانیہ عوام کے سامنے رکھ کر سادہ لوح لوگوں کی معصومیت اور کم علمی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ حقیقی آزادی کے نام پر لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کا سلسلہ شروع ہے اور اس سارے عمل میں دشمن اور ہمسایہ ملک بھارت کے فیصلہ ساز خوش ہو رہے ہیں۔عمران خان سیاسی میدان میں مقابلہ کریں پارلیمنٹ میں جائیں وہاں بیٹھیں بات کریں۔ ان کا مطالبہ نئے انتخابات کا ہے یہ بات بھی زیر غور لائی جا سکتی ہے کہ ان کے مطالبے کے مطابق قبل از وقت انتخابات کروا دیے جائیں لیکن اگر حکومت وقت یہ فیصلہ کرتی ہے کی انتخابات وقت پر ہوں گے تو اس میں بھی کوئی ایسی بات نہیں کہ سڑکوں پر دنگا فساد شروع کر دیا جائے۔ اداروں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا جائے۔ ہنگامی حالات پیدا کیے جائیں اگر کوئی سیاسی جماعت چند ماہ انتظار نہیں کر سکتی تو پھر اس پر تشدد رویے کی حمایت تو نہیں کی جا سکتی۔ یہی پی ٹی آئی اپنے دور حکومت میں بروقت انتخابات کے علاوہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی اور اب اسے بروقت انتخابات کے انعقاد کی وجہ سے مسئلہ ہے۔
ایک تماشا لگایا ہوا ہے اور یہ جو لانگ مارچ ابھی تک ادھر ادھر گھوم رہا ہے اس کی بنیادی وجہ وقت ضائع کرنا اور حکومت پر دباو¿ بڑھانا ہے۔ لانگ مارچ کے حوالے سے پاکستان تحریکِ انصاف بہتر حکمت عملی ترتیب دینے میں ناکام رہی ہے۔ آج سے دو روز قبل لانگ مارچ کے افتتاحی دن لاہور میں کوئی غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے کو نہیں ملیں لبرٹی چوک سے فیروز پور روڈ کی طرف گئے یہاں بہت زیادہ کراو¿ڈ دیکھنے میں نہیں آیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے پچیس مارچ کے لانگ مارچ کی ناکامی سے کچھ نہیں سیکھا اگر دو دن سے آپ لاہور میں ہی گھومتے پھر رہے ہیں۔ یہ عوام کا عدم اعتماد ہے اگر کراو¿ڈ ہوتا تو لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہوتا۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ دو روز میں پی ٹی آئی کی اہم شخصیات کے مابین ہونے والی تلخیاں بھی سامنے آ رہی ہیں یہ بے چینی اور گرما گرمی صرف اسی وجہ سے ہے کہ مطلوبہ کراو¿ڈ سڑکوں پر نہیں ہے۔ لوگوں نے اس لانگ مارچ کو اس انداز میں خوش آمدید نہیں کہا اور اس کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی آڈیو لیکس ہیں کیونکہ سنجیدہ طبقہ اب حالات کو ذرا مختلف انداز میں دیکھ رہا ہے۔
فین کلب اب تک عمران خان کے ساتھ جڑا ہے لیکن سیاسی کارکنوں میں پہلے جیسا جوش و جذبہ نہیں رہا۔ مزید یہ کہ علی امین گنڈا پور کی آڈیو لیک ہو گئی ہے جس میں وہ اسلحہ منگوا رہے ہیں اور مخصوص افراد کو ساتھ لانے کی بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ تمام حالات کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اچھے نہیں۔ مالی طور پر کمزور لوگوں اور کم علم افراد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ عمران خان ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے ان کے مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا اور وہ ہر اس کام سے انکار کرتے رہیں گے جو انہوں نے کیا ہے لیکن جب کہیں سے کوئی لیک آئے گی وہ اسے تسلیم کریں گے لیکن کسی دوسرے کو ایسا کوئی بھی کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ وہ سب کو قانون کی نظر میں برابر کرنا چاہتے ہیں لیکن خود کو آئین و قانون سے بالاتر رکھنا چاہتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے واپس آئیں سوچیں پارلیمنٹ کا حصہ بنیں سیاست دان مذاکرات کرتے ہیں شدت پسندی کا راستہ اور اپنے ووٹرز کو شدت پسندی پر اکسانا کسی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتا۔ اپنے اداروں کے خلاف محاذ آرائی دشمن ملک کا ساتھ دینے کے مترادف ہے عمران خان فیصلہ کریں کہ انہوں نے بھارت کی بی ٹیم کے طور پر کام کرنا ہے یا پھر ایک محب وطن پاکستانی سیاستدان کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔
تبصرہ لکھیے