اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہماری عظمیٰ اور عالیہ دونوں ہی اپنے فیصلوں میں یکتا ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہر فیصلہ سنائے جانے پر پورا پاکستان ان پر تھو تھو کرتا ہو۔ ہوتا یہ ہے فیصلہ سننے کے بعد ملک کے کچھ طبقات کے افراد کا فشارِ خون بہت بڑھ جاتا ہے.
لیکن کچھ کا اتنا گرجاتا ہے کہ ڈاکٹر انھیں فوری طور پر "پیس میکر" لگانے کا مشورہ دینے لگتے ہیں۔ عدالتیں کبھی کوئی فیصلہ قانون سے ہٹ کر نہیں دیتیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قانون ہے کیا؟۔ قانون یا تو بندوں کا اپنا تراشیدہ ہوتا ہے یا پھر اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا۔ انسانوں کا خود کا بنایا ہوا قانون ہو یا پھر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کیلئے بھیجا ہو، اسے دنیا میں نافذ تو انسان ہی کرتے ہیں۔ قانون وہ بھی بہت غلط نہیں ہوتا جو انسانوں کا تراشیدہ ہو اور ان کو تو غلط کہا ہی نہیں جا سکتا جو اللہ رب العزت نے بھیجا ہو مگر بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دونوں قوانین پر عمل درآمد کرانے کیلئے فرشتے تو زمین پر اتارے نہیں جاتے اس لئے ہوتا یہ آیا ہے کہ جس کے کاندھوں پر اقتدار کی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے وہ از خود اپنے آپ کو (نعوذ باللہ) خدا سمجھ بیٹھتا ہے.
اور اللہ کا خلیفہ بننے کی بجائے ہلاکو اور چنگیز خان بن جاتا ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ انسانوں کے اپنے تراشیدہ اصول و ضوابط بالکل ہی غلط اور مبنی بر ظلم و جبر ہوتے ہیں تو دنیا میں تقریباً نوے فیصد ممالک وہ ہیں جہاں اللہ کے وضع کردہ قوانین کے وجود کا تصور ہی مفقود ہے لیکن وہاں بسنے والے بہت سارے لحاظ سے نہایت مطمئن زندگی گزار رہے ہیں لیکن جہاں کے حکمرانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے اپنے ملک میں اللہ رب العزت کے احکامات مروج ہیں، وہاں نہ تو امن ہے، نہ سکون اور نہ ہی انصاف دور دور تک دکھائی دیتا ہے۔ اس تضاد کا سبب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں (نعوذ باللہ) کوئی سقم ہے یا انسانوں کے تراشیدہ قوانین اللہ تعالیٰ کے دین سے بہتر ہیں بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ اللہ کے نام لیواؤں نے صرف نمائشی طور پر ہر قانون کی شق پر اللہ کے نام کی تختی لگائی ہوئی ہے جبکہ انسانوں کے تراشیدہ قوانین والوں کے ممالک میں قانون ہر پست و بالا کیلئے یکساں ہے۔
پاکستان میں لوگوں کو ہمیشہ یہ شکا یت رہتی ہے کہ یہاں رہنماؤں کا فقدان ہے۔ ممکن ہے یہ احساس مبنی بر حقیقت ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ رہنما صرف اور صرف آئین و قانون ہوتا ہے جبکہ رہنما صرف ان کے احترام کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا کرتا۔ آپ (ص) سے بڑھ کر کون رہنما ہو سکتا تھا تو کیا آپ (ص) کے وصال کے بعد اسلامی ریاست بکھر گئی تھی۔ ہر آنے والے نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کے رکھا۔ اسی طرح کیا دنیا بھر میں حکمران بدل جانے پر ریاستیں بکھر جایا کرتی ہیں، نہیں، بلکہ جو بھی نیا حکمران تخت نشین ہوتا ہے وہ اپنے بنائے گئے قوانین کے علم کو مضبوطی سے تھام کر کھڑا ہوجاتا ہے اور یوں انسانی زندگی مسلسل رواں دواں چلی آ رہی ہے۔
تباہی کی جانب سفر کا آغاز ہوتا ہی وہاں سے ہے جہاں سے انسان خود کو قانون کہنا شروع کر دیتا ہے اور جو جی میں آتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ انصاف جب تار تار ہونے لگے تو ریاستیں ابتری کا شکار ہونے لگتی ہیں اور پھر حادثات پر حادثات رو نما ہونے لگتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہماری علیہ و عظمیٰ کیا کر رہی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم خود کس جانب جا رہے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری عدالتیں ہی کیا ملک کے ہر ادارہ پر جیسے "سایہ" ہے۔ یہ سایہ ایسے "جن" کا ہے جس کو اگر کوئی اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو بہت سارے "چیلے" جن کی حمایت پر اتر آتے ہیں اور جب کوئی جن کا "حمایتی" گرفتارِ بلا ہو کر جنوں کو بھگانے کا وظیفہ شروع کر تا ہے تو پہلے والے احتجاجی اسی جن کے ساتھ مل کر وظیفہ پڑھنے والے پر سوار ہوجاتے ہیں۔
اگر موجودہ سیاسی چپقلش پر غور کیا جائے تو یہی چوہا بلی کا کھیل نظر آئے گا۔ پہلے والے کے سر سے "سایہ" کیا ہٹا کہ اس نے "جن" کی تقرری پر جھگڑا شروع کر دیا اور وہ جو ملک سے باہر بیٹھ کر "جن" کی بخیہ ادھیڑا کرتا تھا، وہ "جن" کا حمایتی بن گیا۔ اگر سیاست میں یہ سب جائز ہے تو صرف عدالتیں کسی قاتل کو بے گناہ ثابت کرنے پر تنقید کی زد میں کیوں؟۔ جب سب ہی اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں تو جج کونسے سے آبِ کوثر پئے ہوئے اور زم زم نہائے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی بھلا غریبوں، یتیموں، بے کسوں اور محض مظلوموں کے پاس ہوتا ہی کیا ہے۔ سب کے خون کو نچوڑ کر بھی اتنا حاصل نہیں ہو سکتا کہ داڑھ گیلی ہو سکے۔ یہ ٹنوں سونا، گھر کے تہہ خانوں میں پونڈوں اور ڈالروں کے ڈھیر رکھنے والے حضرات ہی تو ہوتے ہیں جو دنیا کے امیر ترین ممالک میں کوٹھیاں اور بنگلے بنا کر دیا کرتے ہیں۔
جہاں اپنے ہی بندوں کو گولہ باری اور بموں سے مارا جانا کوئی جنگی جرم نہ سمجھا جاتا ہو، زندہ انسانوں کو دہکتی بھٹیوں میں جھونک دیا جاتا ہو، چار چار سو افراد کو ماورئے عدالت قتل کرنے والے کو عدالت میں پیش نہ کیا جا سکتا ہو، جہاں ہسپتالوں میں انسانی لاشیں چیل کووں کیلئے چھت پر پھینک دی جاتی ہوں اور عالیہ و عظمیٰ ہونٹوں پر تالے چڑھائے بیٹھی رہتی ہو وہاں ایک غریب انسان کے قاتل کو بخش دیئے جانے پر رونے گانے کی کون پرواہ کریگا۔ اکبر الٰہ بادی نے ٹھیک ہی فرمایا تھا کہ
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے
تبصرہ لکھیے