ہوم << سائبرکرائم بل کے آن لائن صحافت پر اثرات - محمد شعیب

سائبرکرائم بل کے آن لائن صحافت پر اثرات - محمد شعیب

آن لائن رسالوں کے مدیروں کے نام ایک کھلا خط
اس ورچوئل دنیا کو دیکھنا، جاننا اور اس کا حصہ ہونا دلچسپ ہے، خوفناک بھی اور بے حد جوش بھرا بھی کہ ہم ایک ایسے احتجاج ، ایک ایسے مظاہرے ، ایک ایسی بحث، ایک ایسے مکالمے، ایک ایسے منظر نامے اور ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جہاں کوئی بھی، کہیں بھی، کسی بھی موضوع پر کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہاں ہر قسم کے لوگ ہیں، ہر نقطہ نظر کے لیے مختص فیس بک صفحات ہیں، ہر کسی کے حق میں اور مخالفت میں پوسٹس، ٹویٹس اور ٹرینڈز کا ایک لامتناہی تسلسل ہے، ہر کوئی بااختیار ہے کہ وہ جب چاہے کسی بھی مکالمے کا حصہ بن جائے اور جہاں جی چاہے اپنا کی بورڈ اٹھا کر سب سے مقاطعہ کر لے۔ آپ سب ایک ایسی سائبر دنیا کی تعمیر کر رہے ہیں جہاں کوئی حدودوقیود نہیں، ہو شخص دوسروں سے اتفاق یا اختلاف کرنے میں آزاد ہے، ہر کسی کی دلچسپی کا سامان موجود ہے، سب کچھ سب کی دسترس میں ہے۔ اور یہی انٹرنیٹ کی بنیاد ہے؛ آزادی، رسائی اورخود مختاری۔
آپ ایک آئن لائن وائرل زدہ معاشرت میں اپنے اپنے کی بورڈ اور فرنٹ اور بیک کیمروں کے ساتھ ہمہ وقت ان گنت انجان اکاونٹس سے میل جول میں مصروف ہیں۔ آپ سب اس سنسنی سے واقف ہیں جو کسی بھی متنازع معاملے کسی بھی ممنوعہ موضوع پر کچھ بھی پوسٹ کیے جانے سے پہلے آپ کی رگوں میں دوڑنے لگتی ہے ۔ آپ سب ایک انٹرنیٹ کنکشن، ایک لیپ ٹاپ اور ایک ویب سائٹ کے ذریعے دنیا کی ہزاروں لاکھوں سکرینوں پر، ہزاروں لاکھوں ٹائم لائنوں پر ابھرتے ہیں، سکرول کیے جاتے ہیں، لائیک کیے جاتے ہیں، شیئر کیے جاتے ہیں۔ ایک سو چالیس لفظوں میں دنیا بھر میں ری ٹویٹ ہونے کی صلاحیت پہلے کہاں کسی کے پاس تھی؟ کیا یہ ممکن تھا کہ ہر فرد معلومات، اطلاعات، خبروں اور افواہوں کے اس بہاو میں کود کر اس کا حصہ بن سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ سب ایک ایسی دنیا کے اہم ترین لوگ ہیں جہاں حقیقت وہی ہے جو آپ کی سکرین پر جھلملاتی ہے، آپ کے نوٹیفیکیشنز میں نظر آتی ہے یا آپ کی ٹائم لائن پر ابھرتی ہے۔
یہ ایک ایسا طلسم کدہ ہے جہاں متنازع ہونے، مشہور ہونے یا اہم ہونے کے لیے برقت اور ہمہ وقت آن لائن رہنے کی ضرورت ہے، اب آپ کو خبروں میں نہیں نیوزفیڈ میں رہنے کے لیے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ اب آپ کو اگلے گھنٹے، اگلے پہر، اگلے دن یا اگلے ہفتے کے لیے نہیں ابھی اور اسی وقت کے لیے لکھنا، تصویر کھینچنا یا پوسٹ کرنا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کو اہم، طاقتور اور موثر بنا رہا ہے، اپ کی بات لوگوں تک بلا روک ٹوک پہنچ رہی ہے، آپ کو کوئی بھی کہیں بھی پڑھ سکتا ہے، آپ تک رسائی لامحدود ہے۔اب ان موضوعات پر باآسانی بات ہو رہی ہے، بحث ہو رہی ہے مکالمہ جاری ہے جن کے بارے میں لکھنے یا بات کرنے کا تصور بھی مشکل تھا۔ مذہب، سیاست، ادب، سماج، فکر و فن، فلسفہ، شوبر، تعلیم۔۔۔۔۔ ہر شعبہ زندگی کے متنازع ترین اور ممنوعہ موضوعات نہ صرف زیرِ بحث ہیں بلکہ ان پر ایک مسلسل مکالمہ جاری ہے۔ آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنی اپنی بات کر رہا ہے، یہ ایک ایسی مثبت پیش رفت ہے جو اس سے پہلے پاکستان میں ممکن نہ تھی۔ اس سے پہلے بلوچوں پر ہونے والے مظال کبھی اتنا کھل کر سامنے نہیں آئے تھے، کبھی بھی فوج پر اس انداز میں کھلے عام تنقید ممکن نہیں تھی، مذہب پر مکالمے کی یہ آزادی کہاں میسر تھی؟
یہ آزادی، معلومات تک یہ رسائی اور اپنی بات کہنے کا یہ اختیار اس سے پہلے ہمارے پاس کبھی نہیں رہا، ہم ہر معاملے پرہر طرح کی ٹویٹس کر سکتے ہیں، میمز بنا سکتے ہیں، بلاگ لکھ سکتے ہیں، برا بھلا کہہ سکتے ہیں، گالم گلوچ کرسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ کسی ٹی وی چینل، کسی اخبار، کسی رسالے، جلسے جلوس یا پارلیمانی بحث میں ممکن نہ تھا۔ یہ آزادی اور یہ اختیار اس انتہائی اور شدید شکل میں کبھی دستیاب نہیں رہے ہیں۔ مگر کیا ہم سب جو انٹرنیٹ کی اس کھلی ڈلی آزادی میں بے فکری سے سانس لے رہے ہیں ان پابندیوں کے لیے تیار ہیں جو مقتدر حلقے تجویز کر رہے ہیں اوربتدریج منظور کر رہے ہیں؟ کیا ہم ریاست کے اس جبر کا سامنا کرنے کو تیار ہیں جو قومیت کی ایک مخصوص تعریف، مذہب کی ایک خاص تعبیر او ر معاشرت کی ایک محدود صورت کے سوا ہر نقطہ نظر کی آواز کو کچلنے کے لیے ہم پر مسلط کیا جانے والا ہے؟ ہم یہ سب ماضی میں ہوتا دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ریاست کے ادارے اور مختلف سیاسی، عسکری اور مذہبی گروہ اپنے ناقدین کو خاموش کراتے ہیں۔ یہ روزنامہ امروز کو قومیانے کی صورت میں بھی ہوا، یہ اخبارات کے اشتہارات روکنے کی شکل میں بھی ہوا، یہ حامد میر اور رضارومی پر ہونے والے حملوں کی طرز پر بھی ہوا۔ یہ سلیم شہزاد اور زینت کی مثالوں سے بھی واضح ہے۔ ہم نے یوٹیوب پر بندش بھی دیکھی ہے، ہم نے پی ٹی اے کے ہاتھوں کئی بلوچ ویب سائٹس کی بندش بھی دیکھی ہے اور یہ سب کسی بھی قانون کی غیر موجودگی میں ہو چکا ہے، تو سوچیے ایک قانون کی موجودگی میں کیا کچھ ممکن ہے۔
سائبر کرائم بل کی منظوری میں اب صرف ایک مرحلہ باقی ہے، اور یہ قانون یقیناً ہمارے سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک ایساحربہ اور ہتھیار بنے گا جو ان کے نقطہ نظر کے خلاف بولنے والوں کی زباں بندی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اگرچہ یہ سائبر جرائم کے لیے قوانین بے حد ضروری ہیں مگر ہمیں علم ہے کہ سائبر جرائم کی روک تھام کی آڑ میں 'نظریہ پاکستان، اسلام اور اخلاقی اقدار ' کے تحفظ کی وہ شقیں بھی منظور کی جا رہی ہیں جو ماضی میں ریاستی جبر کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ ہمیں پوری طرح سے علم ہے کہ جب وطن دشمنی یا مذہب دشمنی کے الزامات کے تحت ایک ویب سائٹ تک رسائی منقطع کی جاتی ہے تو پھر اسے بحال کرانا کس قدر ناممکن ہے، ہم جانتے ہیں کہ جب کسی کے خلاف توہین مذہب یا غداری کے الزامات لگائے جاتے ہیں تو وہ چینل کس طرح گھٹنے ٹیکتا ہے، ہمیں خبر ہے کہ قومی سلامتی، حب الوطنی، نظریے اور مذہب کے نام پر کس طرح سے ریاستی ادارے اور شدت پسند گروہ اختلافی نقطہ نظر رکھنے والوں کا 'علاج' کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہم سب اس پیش آمدہ خطرے کی ہولناکی اور شدت کا سامنا کرنے کو تیار اور متحد ہیں؟
کیا ہم سب اس ایک نکتے پر متحد ہیں کہ ہر فرد کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق بات کرنے کی پوری آزادی ہے؟ کیا ہم اس آزادی کی اخلاقیات جو ہمیں تشدد پر اکسانے، غارت گری پر آمادہ کرنے، نفرت آمیز مواد کو پھیلانے سے روکتی ہے، پر متفق ہیں؟ کیا ہم اس ایک نکتے پر اکٹھے ہیں کہ آزادی اظہارِ رائے ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور حب الوطنی، نظریے یا مذہب کی بنیاد پر اسے محدود نہیں کیا جا سکتا؟ کیا ہم اس بات کو تسلیم کر تے ہیں کہ اختلاف رائے کی آزادی اظہاررائے کے حق کے مساوی ہے؟ کیا ہمارے درمیان یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ کسی کے جذبات مجروح ہونے یا کسی مقتدر ادارے کی حرمت پر حرف آنے یا کسی مقدس نظریے کے صداقت مشکوک ہونے کی بناء پر کسی فردکو بات کرنے سے روکنے کی اجازت معاشرے اور ریاست کو نہیں دی جا سکتی؟ کیا ہم اس بات پر کسی بھی طرح اتفاق کر سکتے ہیں کہ ہم کسی بھی قسم کی مسط کردہ اخلاقیات، تصور قومیت یا مذہبی تشریح کو رد کرنے کا حق رکھتے ہیں، کیا ہم اس کے اہل ہیں کہ اپنی ویب سائٹ کے لیے صحافتی ضابطہ اخلاق خود وضع کر سکیں جو آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانے کے لیے ہو نہ کہ اسے پابند بنانے کے لیے؟
مجھے لگتا ہے کہ اس اتفاق رائے کے بغیر ہم کبھی بھی اپنی اس آزادی کا دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور بہت جلد پی ٹی اے اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کسی نہ کسی ویب سائٹ کے مدیر کے لیپ ٹاپ اور مواد کی ضبطی کی خبریں سامنے آنے لگیں گی، جلد ہی ہمیں پتہ چلے گا کہ کسی نہ کسی ویب سائٹ تک رسائی اس لیے منقطع کر دی گئی ہے کیوں کہ اس کا مواد ریاستی مفادات کے منافی ہے، بہت جلد ہمارے بلاگز پر بھی توہین مذہب اور رسالت کے الزامات کے تحت بلوے اور مظاہرے ہونے لگیں گے۔
آزادی اظہارِ رائے اور اختلافِ رائے کے حق کو تسلیم کرنا اور کرانا ہی اس آزادی کی بنیاد ہے، اور اس کا تحفظ کرنا بھی ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے، اور اس اجتماعی ذمہ داری کو ایک مربوط اور منظم آواز کی شکل دینا بھی ہم پر فرض ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اردو ویب سائٹس کے مدیران اس قانون اور اس کے مضمرات سے نہ صرف آگاہ ہوں گے بلکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار بھی۔ ہمیں یقیناً اندازہ ہے کہ سائبر جرائم پر قانون سازی کقنی اہم ہے لیکن کیا اس قانون کا عملی اطلاق اس انداز میں ہو سکے گا کہ بنیادی انسانی حقوق متاثر نہ ہوں؟
ہمیں اپنے طور پر اپنی ویب سائٹس کی ادارتی پالیسی میں اس نکتے کو شامل کرنا ہو گا کہ ہم آزادی اظہارِ رائے کے حامی اور وکیل ہیں اور دوسروں کے لیے بھی یکساں آزادی کے طالب ہیں، ہم خود بھی اختلاف رائے کاحق رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کا پورا حق دینے کے قائل ہیں۔ ہمیں اس قانون پر ایک سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے امید ہے آپ دوست اس ضمن میں ہمدردانہ غور کریں گے اور اس آزادی کے دفاع کے لیے آواز بلند کریں گے۔
(محمد شعیب 2014ء سے 2016ء کے دوران ایک آن لائن جریدے لالٹین سے وابستہ رہے ہیں. سائبر کرائم بل اور اس کے آن لائن صحافت پر اثرات کے تناظر میں انھوں نے اردو ویب سائٹس کے مدیران کے نام کھلا خط لکھا ہے جسے اہمیت کے پیش نظر شامل اشاعت کیا جا رہا ہے. ادارہ دلیل اس کے بیشتر مندرجات سے متفق ہے، اور دلیل کا مقصد بھی مکالمے کو فروغ دینا ہے، لیکن لامحدود آزادی کا قائل نہیں ہے، بالخصوص حساس معاملات کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے، انتشار روکنے کا یہ بہتر طریقہ ہے. مدیران ازخود اس کا خیال رکھیں تو ان خدشات پر قابو پایا جا سکتا ہے جن کی نشاندہی کی گئی ہے.)

Comments

Click here to post a comment