انسان کالفظ ”اُنس” سے ماخوذ ہے، جس کی معنی ہے ”محبت والفت” ہرانسان کی دل میں پیارومحبت اورشفقت کاجذبہ ضرور ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کادل جذبہ محبت سے خالی نہیں ہوتا۔ جیساکہ ایک عربی شعرہے۔
وَمَاسُمِّىَ الْإِنسَانُ إِلّا لِأُنْسِه” یعنی انسان کو انسان اسلئے کہا جاتا ہے کہ وہ اُنس ومحبت کرنے والا ہوتا ہے۔
محبت کا یہ جذبہ صرف انسانوں کا آپس تک محدود نہیں بلکہ تمام مخلوق کیلئے عام ہے۔ چرندوپرند، شجروحجر ،حشرات وحیوانات غرض کسی بھی شے کیساتھ انسان کا محبت پیدا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ محبت کسی پسندیدہ اورلذت والی چیز کی طرف طبیعت کی میلان کو کہتے ہیں۔ اسلئے شریعت مطھرہ نے انسان کی اس طبعی جذبے یعنی محبت کا درجہ ذیل اقسام میں حدبندی کی ہیں۔ لازم ،جائز ،ناجائز ،ممدوح اور مذموم وغیرہ محبتیں۔
پس جولازم اور فرض محبت ہے وہ بندے کا اپنے رب الله سبحانہ وتعالی ،اپنے نبی محمد الرسول اللهﷺ بشمول تمام انبیاء کرام علیھم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تمام اولیاء اللہ، نیک وصالح لوگوں سے محبت کرنا ہے۔ یہ محبت کرنا ایمان کا تقاضا ہے جس کی بغیر ایمان کی تکمیل ہو نہیں سکتی۔اللہ تعالی کیساتھ محبت کا مفہوم یہ ہے کہ ہرحال میں اس کا اطاعت وفرمانبرداری کی جائے اور اس کی معصیت سے بچاجائے۔ جب انسان کی دل میں سچا محبت پیدا ہوجائے تو اس کی آثار اس کی اعضاء میں ظاہر ہوتے ہے۔
پھر وہ اللہ تعالی کی فیصلوں پر راضی، اس کی ملاقات کا گرویدہ اور اس کی رضا وخوشی کا متلاشی رہتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی طرف اشارہ کرکے فرمایاہے، ”ایمان والے لوگ سب سے بڑھ کراللہ سےمحبت کرتے ہیں۔(البقرہ۔ ١٥٦)
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے۔”ایمان کی حقیقی لذت وحلاوت اس شخص کو نصیب ہوگی جس کو الله و رسولﷺ کیساتھ ہرچیز سے زیادہ محبت ہو۔(بخاری۔عن انس ابن مالک)۔
مومن انسان کیلئے دوسرے نمبر پر فرض ولازم محبت اپنے نبی محمد الرسول اللهﷺ کیساتھ محبت کرناہے۔کیونکہ وہ تمام انسانوں میں سب سے بہتر، افضل وکامل اورتمام اچھے صفات کى حامل شخصیت ہیں۔ آپﷺ کیساتھ محبت کی بغیرکسی انسان کاایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ فرمان الہی ہیں۔”النَّبِیُّ اَولی بِاالْمُؤْمِنینَ مِنْ اَنفُسِھِم” نبى كريمﷺ مومنوں پرخودان كى جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔(الاحزاب۔6)۔
جب تک آپﷺ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی آدمی مومن نہیں بن سکتا۔ امام بخاری نے انس رضی اللہ عنہ کاروایت نقل کیاہے کہ آپﷺ نے فرمایا، ”آپ میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن(کامل) نہیں بن سکتا جب تک وہ میرے ساتھ اپنے والدین، بیوی بچوں اور تمام انسانوں سے زیادہ محبت نہ کریں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عملی طورپر اس محبت کی ثبوت پیش کئے ہیں جس کی وجہ سے ان کو اعلی وارفع درجات ملیں ہیں۔
انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ اوراولیاء اللہ کیساتھ محبت کرنا لازم ہے۔ کیونکہ وہ بہترین انسان تھیں جن کو اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور دین اسلام کی اشاعت کیلئے چن لئے ہیں۔ وہ ہمارے لئے مشعل راہ اور معیار ہیں۔ آپ ﷺ نے صحابہ کے ساتھ محبت اپنے ساتھ محبت قراردیاہے، ”جوان سے محبت کرتاہے تومیرےساتھ محبت کی وجہ سے اوران کے ساتھ بغض کرنامیرے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے کیاجاتا ہے۔"
شریعت مطہرہ نے بعض محبتوں کونہ صرف جائزکیا ہے بلکہ قابل اجراورممدوح قراردئے ہیں۔
جیسے بندے کااپنےوالدین ،بیوی بچوں، عزیزواقارب اورعام مسلمانوں کیساتھ محبت کرنا، جب تک یہ محبت اللہ ورسولﷺ کی اطاعت کی خلاف نہ ہو۔ معاشرے میں رہتے ہوئے ان افراد کا انسان پر حقوق ہیں جن میں ایک ان سے جائز محبت کرنا ہے۔محبت کاایک اورقسم شریعت نے ناجائز، حرام اور مذموم قراردیاہے۔ایسا محبت جواللہ و رسول ﷺ کی نافرمانی، نفسانی خواہشات کو پوری کرنے اور شہوت ولذت کی حصول کیلئے ہو..، حرام ،ناجائز اور مذموم قراردیاگیا ہے۔ یہ محبت اتباع نفس اورخواھش کی بندگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور نفس ہمیشہ برائی پر ابھارنے والا ہی ہے۔ ابوبردہ اسلمی رضی اللہ عنہ، رسول الله ﷺ سے روایت کرتے ہے کہ، ”سب سے بڑےخطرے کی چیز جس کے بارے میں، میں تمھارے لئے ڈر رہاہوں، تمہارے پیٹ اورشرمگاہ کی گمراہ خواھشات اور اتباع نفس کی گمراھیاں ہیں۔(مسنداحمد)۔
حرام محبت میں سب سے زیادہ خطرناک، نقصان دہ اور فتنہ انگیز محبت، نامحرم مردوعورت (اجنبی لڑکوں،لڑکیوں) کا آپس میں ناجائز تعلق ومحبت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے، ”میرے بعد مردوں کیلئے سب سے زیادہ نقصان دہ فتنہ عورتوں سے زیادہ کوئی اور نہیں (بخاری ومسلم۔ عن اسامہ)۔
دوسری روایت میں ہے کہ ،“بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں سے اٹھاتھا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کاقول ہے کہ اجنبی مردوعورت کااختلاط ،آگ اور ایندھن کی ملنے کی طرح ہے، یعنی دونوں کا نتیجہ جلنا، جلانا اور فتنہ وفساد ہے۔ ایسے مخلوط مجالس ابلیس کی بہترین شکارگاہ ہوتی ہے۔ جابرابن عبداللہ نے رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشادنقل کیا ہے، ”جوشخص اللہ اور روزقیامت پرایمان رکھتا ہے وہ کسی اجنبی عورت کیساتھ تنہا نہ ہو، کیونکہ ان دو کیساتھ تیسرا شیطان ہوتا ھے۔(مسنداحمد)
اسلئے شریعت مطہرہ نے نامحرم مردوعورت (اجنبی لڑکے،لڑکی) کی آپس میں تعلق ومحبت کو نہ صرف حرام قراردیاہے بلکہ اس کی اسباب اور اس طرف جانے والےراستوں پر بھی پابندی لگائی ہے۔ مثلا اجنبی مردوخواتین کا آپس میں دیکھنا، غیرضروری گفتگو کرنا اور ہاتھ ملانا وغیرہ سب ناجائز وگناہ ہے۔انسان فطری طور پر صنف مخالف کی طرف میلان کا جذبہ رکھتاہے۔ اس جذبے کی تسکین کیلئے دین اسلام نے نکاح کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ”اے نوجوانوں کے ٹولے! تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتاہے وہ شادی کرلے کیونکہ یہ نظر کو (محرمات کے دیکھنے سے) جھکاتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔(متفق علیہ )
ناجائزتعلق اورحرام محبت کی طرف جانے والی سیڑھی کی پہلی قدم بدنظری ہے۔ نگاہ، دل کو خبردینے والی جاسوس ہے۔ اس کی آزادی دل میں فتنوں کوجنم دیتی ہے ۔اسلئے قرآن و حدیث نے نظر کی حفاظت اور بدنظری کی مذمت تفصیل سے بیان کی ہے۔ سورت النور كى آيات ٣٠-٣١ میں مومن مردوں اور عورتوں کو نگاہیں جھکانے کی تاکید کی گئی ہے۔ ابوھریرة رضى الله عنه سے مروی ہے، کہ نبى اكرمﷺنے فرمایا ،”آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اوران کازنا کرنا (نامحرم عورتوں اوربےریش لڑکوں کو) دیکھنا ہے۔(مسنداحمد)۔ دوسری روایت میں ہے کہ کسی مرد کا اجنبی عورت کی محاسن کودیکھنا ابلیس کی تیروں میں سے ایک زھرآلود تیر ہے۔ جودل میں شھوت کو بھڑکاتا ہے۔
دین اسلام نے فتنے اور گناہ کی سبب بننےوالی کاموں سے نگاہ کی حفاظت کا حکم دیاہے۔ تاکہ انسان دین ودنيا کی مشکلات سے محفوظ رہ سکیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک حسین وجمیل عورت دومردوں کے سامنے سے گذری، جب نگاہ نے اس کو دیکھنا چاہا تو ایک نے نفس سے مجاھدہ کرتے ہوئے نظر جھکالی، وہ لمحہ گذرگیا اوربھول گیا۔ دوسرے شخص نے اس پر نظر ٹکا دی، اپنا دل اس سے لگالیا۔ اور اس کا یہ ایک نظر اس کیلئے فتنہ اور بے دین ہونے کا سبب بن گئی۔ پس معلوم ہواکہ شریعت کی حدود کا لحاظ کرتے ہوئے گناھوں کی طرف توجہ کی بجائے، گناھوں سے بچنا زیادہ آسان ہے۔
جب محبت لا محال ہے۔۔۔۔۔تو لازم، جائز اور ممدوح محبت کرنا چاہئے۔۔۔۔اور حرام، ناجائز، مذموم محبت سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے ۔ اورنبی کریم ﷺ کا بتایا ہوا یہ دعا مانگنا چاھیے، ”أَلّلهُمّ إِنّى أَسئَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُّحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِى إِلى حُبِّك ”(ترمذی)
ترجمہ:- اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری محبت کا، اور ان کی محبت کا جو تجھ سے محبت کرتے ہیں اور اس عمل کی محبت چاہتا ہوں جو تیری محبت کو مجھے قریب کرے۔۔۔ آمین
تبصرہ لکھیے