قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا گورنر جنرل منتخب ہونے بعد نئی دہلی میں اپنی پہلی پریس کانفرنس 14جولائی 1947ء میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’آپ مجھ سے بار بار ایک فضول سوال پوچھ رہے ہیں۔
آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ہم نے جمہوریت 1300سال پہلے سیکھ لی تھی‘‘جس کا مطلب ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کو اسلام کے نام پر بنایا اور وہ چاہتے تھے کہ اس میں مسلمان آزادنہ طور پر اپنے دینی احکامات پر عمل درآمد کریں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے13جنوری 1948ء میں اسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ عام میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کی تلقین کی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولر افراد مختلف حیلوں اور بہانوں سے نظریاتی احساس اور اخلاقی اقدار پر حملہ آور ہیں۔ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام پر ملک کے اندر جو طوفان بد تمیزی برپا ہے اس نے بہت سارے چہروں سے نقاب اتار دیا ہے۔اسلام میں مرد عورت کے درمیان پردے اور اختلاط کے علاؤہ شادی بیاہ اور وراثت وغیرہ کے قوانین بڑے واضح انداز میں بیان کر دئیے ہیں۔ ٹرانس جینڈر افراد کی جنس کے تعین کیلئے میڈیکل بورڈ کا قیام ضروری ہے، جو قانون کے غلط استعمال کی روک تھام میں مدد فراہم کرے گا۔ ایک غیر سرکاری ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 2018ء کے بعد سے 30 ہزار سے زیادہ مرد و خواتین نے خود کو مخالف جنس کے طور پر ریکارڈ کروایا، جو ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کے کھلم کھلا غلط استعمال کا ٹھوس ثبوت ہے۔
سرکاری اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد لگ بھگ 10 ہزار ہے، جبکہ 2015ء میں وفاقی وزارت صحت نے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ تک پہنچنے کا اشارہ دیا تھا۔ جبکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ2015ء کے بعد سے مختلف واقعات میں 100 کے قریب خواجہ سرا قتل ہوئے، جبکہ تشدد کے دو ہزار مقدمات کا اندراج کیا گیا۔اس ایکٹ میں خواجہ سرا کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں: پہلے نمبر پر انٹر سیکس خواجہ سرا ہیں، جن کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ ان میں مردوں اور خواتین دونوں کی جینیاتی خصوصیات شامل ہوں یا جن میں پیدائشی ابہام ہو۔ دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں، جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت کی اپنی جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہیں۔
2018ء کے بعد سے تین سال میں نادرا کو جنس تبدیلی کی قریباً 29 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں سے 16530 مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کرائی، جبکہ 15154 عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کرائی۔ خواجہ سراؤں کی کل 30 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں 21 نے مرد کے طور پر اور 9 نے عورت کے طور پر اندراج کی درخواست کی۔حکومت اس حوالے سے کام کرے ناکہ ایسے قوانین بنائے جائیں جو صر ف اور صرف بیرونی آقاوں کو خوش کرنے کیلئے ہوں۔ٹرانس جینڈر ایکٹ کے مسئلے پر فتویٰ کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں ملک بھر کے31دارالافتاء کے 81مفتیان کرام کی شرکت۔ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ قانون نافذ العمل ہے اسے منسوخ کیا جائے۔
جن لوگوں نے بل سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جنس تبدیل کی ہے انکی تبدیلی جنس کے اس عمل کو کالعدم قرار دیکر انہیں از سر نو میڈیکل بورڈ کے جائزے کیلئے پیش کیا جائے۔اس قانون کو صرف خنثی /انٹرسیکس تک محدود کیا جائے۔ جسمانی طور پر مکمل مرد اور ایک مکمل عورت کسی نفسیاتی مسائل کی وجہ سے اپنی جنس تبدیل نہیں کرسکتا۔اسکی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔جو حقیقی طور پر خنثی/انٹر سیکس ہے اسے احترام کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔یہ ایک آزمائش ہے اور کسی پر بھی آسکتی ہے۔لیکن میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوکر جنس کا تعین کیا جانا چاہیے۔تاکہ کسی قسم کے دھوکا دہی اور جعل سازی کا احتمال باقی نہ رہے۔ میں یہاں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان کو داد دینا چاہتا ہوں جس نے اس اہم مسئلے پر بر وقت آواز بلند کر کے قوم کو ساز سے آگاہ کیا۔
بدقسمتی سے جماعت اسلامی کے علاوہ اس اہم ایشو پر کسی اور سیاسی جماعت نے مذمت تک نہیں کی، سب اس پر متفق نظر آتے ہیں۔جماعت اسلامی پاکستان نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کیخلاف وفاقی شرعی عدالت میں پٹیشن دائر کر دی ہے۔پٹیشن جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی طرف سے دائر کی گئی۔ ان کے مطابق 2018ء میں متعارف کروایا گیا یہ ایکٹ آئین پاکستان کی روح کے منافی ہے۔
انسان کو تخلیق کرنے کا حق صرف اللہ کے پاس ہے۔‘’اللہ نے عورت اور مرد کو تخلیق کیا۔ قدرت کی تخلیق میں بڑی حکمت ہے۔ ایک عورت کو اپنی مرضی سے مرد اور ایک مرد کو عورت بننے کا کوئی اختیار نہیں۔ ایسا کرنا خلاف شرع اور بہت ہی برائیوں کا باعث بن رہا ہے۔
تبصرہ لکھیے