ہوم << آرمی چیف کی توسیع فوری الیکشن سے مشروط - ظہور دھریجہ

آرمی چیف کی توسیع فوری الیکشن سے مشروط - ظہور دھریجہ

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ملک میں بریک تھرو دور نہیں، جلد اچھی خبر آنیوالی ہے۔ سیاسی مفاہمت ہو سکتی ہے، مسائل کا حل مذاکرات، انتخابات اور انتخابات ملکی بحرانوں سے نکلنے کا بہترین حل ہیں۔

صدر مملکت کا یہ بیان اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ الیکشن کا مرحلہ قریب آرہا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پارٹی تنظیموں کو عام انتخابات کیلئے امیدواروں کی شارٹ لسٹ کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما حماد اظہر نے کہا ہے کہ شارٹ لسٹ کا کام ہو رہا ہے۔ حتمی فیصلہ پارلیمانی بورڈ اور عمران خان خود کریں گے۔ مسئلے کا حل انتخابات ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ٹکرائو اور لڑائی جھگڑے کی سیاست ختم کرکے غیر جانبدارانہ انتخاب کی طرف جانا چاہئے۔ پی ڈی ایم خود عمران خان کے استعفیٰ اور قبل از وقت الیکشن کیلئے تحریک چلاتی رہی ہے۔

اب جبکہ عمران خان چلے گئے تو بلا تاخیر الیکشن کا اعلان ہونا چاہئے تھا مگر پی ڈی ایم نے اپنے ہی مطالبے سے انحراف کرکے غیر جمہوری سوچ کا مظاہرہ کیا۔ جمہوریت ملک کیلئے ضروری ہے۔ یہ مقولہ درست ہے کہ بری سے بری جمہوریت اچھی سے اچھی آمریت سے بہتر ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا یہ کہنا کہ آرمی چیف کی توسیع فوری الیکشن سے مشروط ہے۔ درست نہیں۔ آرمی چیف کی تعیناتی آئین کے طریقہ کار کے مطابق ہونی چاہئے ۔ جس طرح قبل از وقت مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ ا

س سے پسند نہ پسند کی بُو آتی ہے۔ ملک و قوم کی بہتری اسی میں ہے کہ ملک میں منصفانہ انتخابات ہوں۔ عمران خان کا یہ بیان کہ نوازشریف کی واپسی کا شدت سے انتظار کر رہا ہوں، بھرپور استقبال کروں گا، لیکن مذاکرات صرف الیکشن پر ہوں گے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں۔ عمران خان کو بھی سیاسی اختلافات کو سیاسی حد تک رکھنا چاہئے۔ اس مقام پر نہیں لے جانا چاہئے جہاں واپس آنے کا راستہ نہ ہو۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر بندیال کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ آئینی اداروں پر حملہ ہوا تو عدالت کارروائی کرے گی۔ اس ضمن میں عمران خان کا یہ مطالبہ کہ عدلیہ اور فوج میں تعیناتیاں میرٹ پر ہونی چاہئیں اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ تعیناتیاں میرٹ پر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن بھی آئینی ادارہ ہے۔

اس کے خلاف آج عمران خان بول رہے ہیں۔ پہلے وقتوں میں دیگر جماعتیں تنقید کرتی رہی ہیں۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ یہ اچھی بات ہے کہ دہشت گردی کیس میں عمران خان اے ٹی سی میں پیش ہوئے اور انہوں نے سوالات کے جواب دیئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گردش ایام اُن کو بہت کچھ سیکھا رہی ہے۔ عمران خان گزشتہ روز تونسہ آئے وہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ کو کہا کہ تونسہ کو ضلع بنائیں مگر افسوس کہ عمران خان کو صوبے کا وعدہ یاد نہ رہا۔ عمران خان سیلاب میں فوت ہونے والوں کے گھر بھی گئے۔ لواحقین نے سرائیکی میں گفتگو کی اور گفتگو کا ترجمہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ میانوالی کے سرائیکی گھرانے سے تعلق کے باوجود عمران خان سرائیکی نہیں سمجھ سکتے۔ وزیر اعظم شہبا شریف نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک پاکستان سے ہونیوالی نا انصافی کا ازالہ کریں۔

اس سے پہلے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بجا طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونیوالی تباہی کی ذمہ داری صنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ صنعتی ممالک کو پاکستان کی مدد کرنی چاہئے کہ ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عالمی طاقتوں کی طرف سے ابھی تک سیلاب متاثرین کیلئے خاطر خواہ فنڈ نہیں دیئے گئے۔ البتہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اپنے طور پر کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکی ریاست ہوسٹن میں پاکستانیوں نے ایک گھنٹے میں ایک ملین ڈالر کے فنڈ اکٹھے کئے۔ پاکستان میں بھی جماعت اسلامی، مدینہ فائونڈیشن اور دیگر تنظیمیں بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ وسیب کے علاقہ راجن پور میں سوجھل دھرتی واس کے انجینئر شاہنواز مشوری، عثمان کریم بھٹہ اور سرائیکی رہنما مہر شکیل احمد شاکر سیال نے سیلاب متاثرین کی بہت مدد کی ہے۔ دوسرے مرحلے میں بحالی کا عمل شروع ہے۔

یہ تنظیمیں مل کر اب سینکڑوں مکانات متاثرین کو بنا کر دینے جا رہی ہیں۔ صاحب حیثیت افراد کو اس عمل میں آگے بڑھنا چاہئے۔ وسیب میں تباہ کن سیلاب کے بعد طرح طرح کے مسائل نے سر اٹھا لیا ہے۔ آبادیوں کے آس پاس پانی کھڑا ہے۔ مچھروں کی بہتات ہے۔ بیماریوں نے سر اٹھا لیا ہے۔ اربوں، کھربوں روپے کی جہاں سرکاری گندم خراب ہوئی وہاں بہت زیادہ تعفن ہے۔ ان مسائل کی طرف توجہ دلانے کیلئے جھوک سرائیکی میں سیمینار منعقد ہوا۔ سرائیکی رہنما رانا محمد فراز نون، سردار نعیم خان ڈاہا، ظفر ہانس، منظور خان جتوئی و دیگر نے خطاب کیا۔ سرائیکی رہنمائوں نے کہا کہ ہم نے وسیب کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کے دوران مسائل ہی مسائل دیکھے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک صرف اعلانات ہوئے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کا حلقہ انتخاب ڈوب گیا مگر انہوں نے وہاں جانا ابھی تک گوارہ نہیں کیا۔ وسیب سے ووٹ لیکر اسمبلیوں میں پہنچنے والے صرف مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ سرائیکی رہنمائوں نے کہا کہ وسیب کے جاگیرداروں کی وسیب سے بے اعتنائی افسوسناک ہے ۔ اتنے افسوس کی بات ہے کہ ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والے سردار مقصود خان لغاری کراچی میں فوت ہوتے ہیں اور ان کا نماز جنازہ لاہور میں پڑھایا جاتا ہے۔ اسی طرح ریاست بہاولپور کے نواب صلاح الدین عباسی کے بھائی نوابزادہ فلاح الدین عباسی ساری زندگی لاہور میں رہ کر ریاست کے آدھے وسائل وہاں خرچ کر دیتے ہیں اور خاندانی روایات کے برعکس شاہی قبرستان قلعہ ڈیر آور چولستان میں دفن ہونے کی بجائے لاہور میں دفن ہوتے ہیں۔

وسیب کے سیاستدانوں کو اپنی سوچ اور اپنی سیاست کے انداز بدلنا ہوں گے بصورت دیگر ان کو وسیب سے ترک سکونت اختیار کرکے لاہور، اسلام آباد یا انگلینڈ میں قیام کرنا چاہئے۔ وسیب کو بیگار کیمپ نہیں سمجھنا چاہئے۔

Comments

Click here to post a comment