ہوم << گوربا چوف، جو محاورہ بن گیا تھا- اوریا مقبول جان

گوربا چوف، جو محاورہ بن گیا تھا- اوریا مقبول جان

مغرب اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کی آنکھوں کا تارا، گوربا چوف۔ جسے موت کے بعد اپنے ملک میں سرکاری تدفین بھی میسر نہ ہو سکی۔ گذشتہ نصف صدی میں جو پوری دُنیا کا مرکزِ نگاہ بنا رہا، مگر اپنی موت کے وقت اپنے ہی ہم وطنوں کے لئے ایک عظیم سلطنت کے زوال کی علامت تھا اور اس مغربی دُنیا کے لئے بھی اب اجنبی بن چکا تھا، جو کبھی اس کے گُن گایا کرتی تھی۔

اس سب کے باوجود، جب اس کا جسدِ خاکی 3 ستمبر 2022ء کو ہائوس آف یونین کے بڑے ہال میں لایا گیا تو عمارت کے باہر ہزاروں روسی عام شہری موجود تھے۔ ان لوگوں میں اکثریت ایسے افراد کی تھی جو ولادی میر پیوٹن کی آمرانہ حکومت کی گھٹن سے تنگ تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ گوربا چوف کی موت دراصل جمہوریت کی موت ہے۔ جنازہ اُٹھایا گیا اور اسے روس کے مشہور قبرستان نووڈی وچی (Novodevichy) میں لاتعداد مشہور شخصیات کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ صدر پیوٹن کے ترجمان سے جب پیوٹن کی غیر حاضری کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا، ’’وہ بہت مصروف تھے‘‘۔ دُنیا بھر کے ممالک میں سے صرف ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربن (Vicktor Orban) نے آخری رُسومات میں شرکت کی۔ اس کی بنیادی وجہ اس کے نظریات ہیں۔ وہ پورے یورپ میں مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ معیشت کا سخت مخالف ہے اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جسے وہ "illibral work fare society" یعنی ’’مزدوروں کے حق میں متعصب معاشرہ‘‘ کہتا ہے۔

دُنیا بھر میں مضامین لکھے گئے، تعزیت نامے شائع ہوئے۔ پھر ایک طویل خاموشی چھا گئی۔ مغرب کی محبتوں کی علامت ’’نوبل امن انعام‘‘ لینے والا گورباچوف اپنے اقتدار سے معزولی کے بعد سے لے کر اب تک روزمرہ کے ایک محاورے کے طور پر بھی مقبول ہے۔ کوئی ملک، تنظیم، ادارہ یا سیاسی جماعت جس شخص کے دور میں اپنی تباہی و بربادی سے دوچار ہوئی ہو، ایسے شخص کو آج بھی اس ادارے کا گورباچوف کہتے ہیں۔ یہ استعارہ یا محاوراتی اظہار صرف ایک ملک تک محدود نہیں، بلکہ امریکہ کے مغربی ساحلوں سے لے کر آسٹریلیا کی مشرقی پٹی تک ہر کوئی اس محاورے کو بخوبی استعمال کرتا رہا ہے اور آج بھی کرتا ہے۔ ایک عہد تھا، جو گورباچوف کے اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہی ختم ہو گیا۔

چوبیس اگست 1991ء کو وہ کیمونسٹ پارٹی کی سیکرٹری جنرل شپ سے کیا اُترا، پچھتر سالہ کیمونسٹ انقلاب سائبیریا کی برف میں دفن ہوا یا باسفورس کی لہروں کے سپرد کر دیا گیا اور صرف چار ماہ کے اندر 26 دسمبر 1991ء کو پوری دُنیا کے مزدوروں کو ’’بادشاہی‘‘ کے خواب دکھانے والا سوویت یونین پندرہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا جن میں چھ مسلمان ریاستیں تاجکستان، ازبکستان، کرغستان، ترکمانستان، قازقستان اور آذربائیجان بھی شامل تھیں۔ کیمونزم کے آہنی پردے ہٹے تو سوویت یونین کی جو حالت سامنے آئی وہ کیمونزم سے پہلے والے مفلس و نادار روس کی دُنیا سے بھی بدتر تھی، جسے ٹالسٹائی کے افسانوں کی بھوک اور افلاس (Tolstoy's, Poverty) کہا جاتا تھا۔ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں اس آزادی کے پندرہ سال بعد مجھے جانے کا اتفاق ہوا۔ چند حکومتی ایوانوں کی سڑکوں کے علاوہ پورا شہر بجلی، پانی اور سڑکوں سے محروم تھا۔

قلاب کی جانب سفر پر نکلا کہ سید علی ہمدانی کی تربت کی زیارت کر سکوں کہ کشمیر کو مسلمان بنانے کا سہرا ان کے سر ہے، لیکن دوشنبے سے باہر نکلتے ہی اس ’’عظیم کیمونسٹ‘‘ ریاست کی غربت دیکھ کر پاکستان جیسی نعمت پر شکر کرنے کو جی چاہا۔ یہی عالم باقی تمام ریاستوں کا تھا، جنہیں پہلے زارِ روس نے اپنا مطیع بنایا اور پھر جب یہ ریاستیں ورثے میں ولادی میر لینن کے کیمونسٹ سوویت یونین کو ملیں تو اس دور میں بھی صرف سفید فام روسی النسل ہی مراعات یافتہ رہی، باقی اقلیتیں پسماندگی میں ڈوبی رہیں۔ زار کے زمانے میں کم از کم اتنا ضرور تھا کہ ان ریاستوں میں بسنے والے مسلمان اپنے مذہب پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکتے تھے۔ لیکن 1917ء کے کیمونسٹ انقلاب نے تو مسلمانوں سے نہ صرف عبادت کرنے کا حق چھینا بلکہ ہر مسجد و مدرسہ کو تالا لگا دیا گیا۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کے مراکز سمرقند و بخارا، ظہیرالدین بابر کا فرغانہ اور اسلامی تہذیب و تمدن کی علامت تاجک آبادی اپنی شناخت تک بھول گئی۔

دوشنبے میں آج بھی اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء مخفی کا فارسی دیوان ملتا تو ہے، لیکن وہ روسی رسم الخط میں ہے۔ ہر کوئی اقبالؒ کے شعر سنا سکتا ہے، لیکن فارسی میں انہیں پڑھ نہیں سکتا۔ ہر کسی کو اپنا نام روسی انداز میں رکھنے پر مجبور کیا گیا، کریم سے کریموف اور رحمان سے رحمانوف ہو گیا۔ اس پچھتر سالہ جبر کی کہانیاں کبھی باہر نہ آ پاتیں اگر سوویت یونین کی تاریخ میں گورباچوف نہ آتا۔ گوربا چوف تاریخ کے اس دھارے کا ایک پڑائو تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور بھی سوویت یونین کا سربراہ ہوتا تو ایسے ہی ہونا تھا۔ اس لئے کہ اس کے اقتدار میں آنے سے پانچ سال، قبل سوویت یونین نے ایک ایسے ملک میں اپنی افواج اُتارنے کی غلطی کر دی تھی جہاں صرف ایک صدی قبل ہی برطانیہ ، کہ جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، ذلّت آمیز شکست کھا کر نکل چکا تھا۔ گوربا چوف کا آغاز جارحانہ تھا، وہ ہر صورت افغانستان میں اپنے قدم جمانا چاہتا تھا تاکہ صدیوں پہلے دیکھا گیا روسی بادشاہوں کا خواب پورا ہو سکے اور وہ بحیرۂ عرب کے ساحلوں میں سے کراچی یا گوادر کسی ایک جگہ لنگر انداز ہو سکے۔

لیکن ایک سال بعد ہی اسے اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے جس میں صرف روسی سپاہیوں کے لاشے ہی اُٹھانا پڑیں گے۔ چرنوبل کے ایٹمی پلانٹ کے حادثے کے فوراً بعد اس نے افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کا آغاز کر دیا اور امریکہ کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی کمی کے بارے میں بات چیت بھی شروع کر دی۔ وہ ایک فلسفی تھا اور اس حیثیت میں اس نے کیمونسٹ آئیڈیالوجی کے مقابلے میں گلاسنوسٹ (Glasnost) اور پیراسٹرائیکا (Perestroika) جیسے دو تصورات پیش کئے۔ گلاسنوسٹ کے مطابق آزادی رائے اور جمہوریت کی اہمیت اور پیراسٹرائیکا کے تحت تمام معاشی پالیسیوں کو آزاد مارکیٹ کے ساتھ منسلک کرنا تھا۔

ان دونوں نظریات نے سوویت یونین کے بنیادی نظریاتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب مشرقی جرمنی والا کیمونسٹ مغربی جرمنی کی خوشحال زندگی کے خواب دیکھنے لگا اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ دیوارِ برلن ٹوٹ گئی اور دونوں ملک ایک ہو گئے۔ گوربا چوف کے نظریات نے نہ صرف سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کا خاتمہ کیا، بلکہ گذشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے چلنے والی کیمونسٹ تحریکوں سے بھی ان کے خواب چھین لئے۔ ساحر، فیض اور اختر الایمان کی شاعری بے معنی ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی وہ تمام کیمونسٹ جو کبھی امریکہ اور جمہوریت کو گالیاں دیا کرتے تھے، فوراً ہی این جی اوز بنا کر امریکہ کے درِ دولت پر کشکول لئے کھڑے ہو گئے۔ 1848ء میں کیمونسٹ مینی فیسٹو سے جو عالمی تحریک شروع ہوئی تھی اور جس نے آدھی دُنیا کو متاثر کیا تھا، ڈیڑھ سو سال بعد گوربا چوف کے ہاتھوں ایسی لحد میں اُتری کہ آج اس کا کوئی نام لیوا تک باقی نہیں رہا۔

Comments

Click here to post a comment