ہماری آنکھ میں برسات چھوڑ جاتا ہے یہ ہجر اپنی علامات چھوڑ جاتا ہے یہ دن کا ساتھ بھی بالکل تمہارے جیسا ہے کہ روز جاتے ہوئے رات چھوڑ جاتا ہے بس یونہی زندگی کے روز وشب گزر رہے ہیں۔وقت کو تو جیسے پنکھ لگ گئے ہوں، پھر خوابوں سی دل نواز حقیقت نہیں کوئی۔
یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو، انسان کی عمر بڑھتی ہے تو وہ اپنے خوابوں میں زندہ رہنا چاہتا ہے اور یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ سہانے لمحے ہی حرزجاں بنتے ہیں مگر اداس بھی کر جاتے ہیں ۔آج ہی ہمارے شائستہ اطوار دوست ڈاکٹر فرقان احمد قریشی نے گورنمنٹ گریجوایٹ کالج ٹائون شپ لاہور کا گولڈن جوبلی نمبر جس کا نام ایسپریشنز (Aspirations)ہے بھیجا ہے یہ ہمارا مزاج ہے کہ ہم اردو زبان کے قومی زبان ہونے کے باوجود انگریزی سے مغلوب ہیں،خیر آگے چلتے ہیں ۔ اس گولڈن منظر کے پیچھے کالج کی عمارت جھانک رہی ہے میگزیشن ایسپریشنز دلچسپی سے خالی نہیں ، اس پر اچھی خاصی محنت کی گئی ،خاص طور پر اس کالج کی تاریخ بہت دلچسپ ہے جس پر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے بھی قلم اٹھایا تھا اور ڈاکٹر فرقان احمد قریشی نے بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ راکھ سے تعمیر اٹھائی گئی تھی یا یوں کہہ لیں جیسے پرندے تنکا تنکا آشیانہ بناتے ہیں۔
یہ پرندے ایف سی کالج سے کوچ کر کے یہاں آئے تھے ایسے ہی اپنے دوست عدیم ہاشمی کا شعر یاد آ گیا: بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے میگزین میں بہت کچھ پڑھنے والا ہے ۔سردست ڈاکٹر فرقان احمد قریشی کا مضمون ٹائون شپ کالج کا تاریخی سفر متوجہ کرتا ہے آپ کو بھی یاد ہو گا کہ یہ پرویز مشرف کے دور کی بات ہے کہ جب ایسی بڑی تبدیلیاں آ رہی تھیں مشرف مغرب کی مکمل گرفت میں تھے۔2000ء ہی میں مشنری نے کام شروع کر دیا تھا دو ہزار کے کانووکیشن میں مشرف نے صدارت کی تھی اور اس کا نتیجہ 2003ء میں آ گیا کہ جب گورنمنٹ ایف سی کالج ایک مرتبہ پھر ایف سی کالج بن گیا کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ۔گورنمنٹ ایف سی کالج کے متبادل ٹائون شپ کالج قائم ہوا جہاں خاک اڑتی تھی۔اس خرابے کو ہجرت کرنے والے اساتذہ نے محنت شاقہ سے آباد کیا ایک نئی بستی بسانے والی بات تھی ۔درختوں کے نیچے بھی کلاسیں لگتی رہیں ڈاکٹر اجمل نیازی کا مضمون بھی بہت دلچسپ ہے کہ سب شہر سے گائوں آن بسے۔
انہوں نے ڈاکٹر پروفیسر افتخار احمد بیگ کا بطور خاص تذکرہ کیا کہ وہ بطور پرنسپل آ کر اس کالج کی زندگی میں بہار لے آئے۔ اب ذرا حاضر لمحات کا بھی تذکرہ ہو جائے جس میں اس کے اساتذہ نے اس مجلے کو تیار کیا ہے ،خاص طور پر ہمارے دوست اعجاز بٹ جنہوں نے ایک پرنسپل ہوتے ہوئے نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر اپنی موجودگی احساس دلایا وہ میرے ساتھ اسلامیہ کالج سول لائنز میں بھی ،تب بھی وہ ٹی وی پر کوئز پروگرام کیا کرتے تھے، اب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں مگر اچھی یادیں چھوڑ گئے۔میگزین کے لئے انہوں نے دل کھول کر خرچ کیا ہے اس کا انگریزی حصہ زیادہ جاذب نظر ہے میں اس لئے تعریف نہیں کر رہا کہ میرا مضمون بھی انگریزی تھا اس لئے کر رہا ہوں کہ اس حصے میں جمالی پہلو زیادہ نظر آتا ہے۔ ادبیت اور اختراع نظر آتی ہے، خاص طور پرمیگزین کے ہر حصہ کے آغاز میں رنگین صفحہ دیکھنے کے لائق ہے، دل خوش ہو جاتا ہے۔یہ بات بھی تعریف کے قابل ہے کہ اس کے مضامین زیادہ تر طلبہ و طالبات سے لئے گئے ہیں یا اساتذہ سے۔
ایک اور چیز جس نے مجھے متاثر کیا ،وہ یاد رفتگاں ہے اور کالج میں بھی ان کی یاد میں کوئی نہ کوئی کارنر سجایا گیا مثلاً ہمارے دوست تنویر احمد ہمدانی مرحوم کا گوشہ ہے وہ کیسے خوش مزاج محفل کی رونق ہوا کرتے تھے، وہ میرے ساتھ سول لائنز کالج میں میرے ہی شعبہ میں تھے، ایک گوشہ ہمارے شبیہ الحسن صاحب کا ہے جو معروف مرثیہ نگار وحید الحسن کے فرزند تھے ایسے ہی کئی اور گوشے بھی ہیں اس کالج میں کئی یادگار کارنفرنسز بھی ہوئیں جس کا تصویری سلسلہ بھی میگزین میں ہے۔اس میگزین میں شاعری کو اچھا خاصہ نظرانداز کیا گیا ہے پھر بھی حمد اور نعت کے ساتھ ایک آدھ نظم ہے: شان رب جلیل کو دیکھا (پروفیسر محمد ریاض احمد شیخ) نہ جانے سوئے مدینہ ہو کب سفر میرا یہی خیال و تمنا ہے سیم و زر میرا اب میں قارئین کی دلچسپی کے لئے انگریزی نام کی مناسب سے ایک یادگار واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
ہمارے ایک ایمسیڈر تھے کہ انہوں نے ابدی تمنائیں کا انگریزی ترجمہ کیا تھا اور اس کتاب کا نام رکھا ایٹرنل لوننگز eteranal .longingsایک بہت بڑی تقریب تھی، قتیل شفائی کی صدارت تھی، ایمبیسڈر صاحب مہمان خصوصی تھے، ڈاکٹر حسن رضوی کمپیرنگ فرما رہے تھے ،سٹیج سے پیچھے کتاب کا بینر یعنی فلیکس لگا تھا حسن رضوی نے گھوم کر کتاب کا نام پڑھا اٹرنل لوجنگز ۔ ایک قہقہہ بلند ہوا کسی نے آواز لگائی کہ ایمبیسیڈر صاحب نے لوجنگ فری کا وعدہ کیا ہو گا ،بات یہاں تک نہ رہی عطاء الحق قاسمی فرمانے لگے کہ میں انگریزی نظموں پر کیا بات کروں ،قتیل شفائی روشنی ڈالیں گے ،قتیل شفائی نے آتے ہی چوکے پر چھکا مارا کہ ہاں ہاں میں چاہتا تھا کہ انگریزی نظموں پر بات کروں مگر میری کمی حسن رضوی پوری کر گئے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کیوں اس قدر انگریزی سے مغلوب ہیں ۔میں نے کئی اردو میگزینز کے نام انگریزی میں دیکھے ہیں اردو اور پنجابی پروفیسرز کے وزٹنگ کارڈ انگریزی میں ہوتے ہیں، خیر چھوڑیے یہ ایک لمبی داستان ہے، انگریزی کو برا بھی نہ کہیں اس کو اس مقام دیں مگر قومی زبان کا نہیں۔
خیر ہمیں ایسپریشن کا تاریخ نامہ اچھا لگا کہ گئے ماضی کے دنوں کو یاد کیا گیا، بھاگ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔ ایک گو نہ خوشی ہوئی۔ مطالعہ کے دوران تین چار شعر ہمارے بھی مضامین میں ملے۔ایک شعر کے ساتھ اجازت: ہم رہروان شوق تھے منزل کوئی نہ تھی منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے
تبصرہ لکھیے