وہ حسین بھی ہے اور عظیم بھی
پاک بھی ہے اور معتبر بھی
وہ میرا ہے میرا دلبر
اس سے ملاقات اور ملاقات کا تذکرہ گویا جزبہ و احساس، کیف و سرور کا ایک یادگار مرقع ہوتا ہے۔
دنیا والو! یہ تذکرہ تم بھی سنتے چلو ۔ دلبر سے ملاقات کا تذکرہ ۔ ۔ ۔
_____________________
سنو! آج کی ملاقات میں کوئی پرانا قصہ نہیں چھیڑنا آج تو بس تمہاری ادائیں دیکھنے آئی ہوں، لو یہ بے رخی کیوں اب ؟؟؟ کیا کہا! حالِ دل جاننا چاہتے ہو؟ زخم جو دل پہ لگے دیکھنا چاہتے ہو؟ اچھا تمہاری ضد ہے تو دکھا دیتی ہوں کہ یہ تمہاری الفت ہی میں تو لگے ہیں دلبر! تو آج ایک ایک زخم کو کریدتے جاؤ ذرا ۔ ۔ ۔
⭐" ۔ ۔ ۔ اور حاضرین! میں کس طرح بیان کروں معلوم تاریخ کی اس سب سے بڑی ہجرت کے احوال کہ جب یوپی، سی پی، مدراس اور ممبئی کے تباہ حال مسلمان اپنے خوابوں کی تعبیر ارضِ پاک کی جانب دیوانہ وار لپکے چلے آ رہے تھے تو ہندوؤں اور سکھوں نے وہ قیامت ڈھائی تھی کہ زبان تابِ بیاں نہیں رکھتی میں محض ایک واقعہ بیان کروں گا یہاں میں صرف ایک واقعہ بیان کروں گا مہاجرین کے ایک قافلہ کی لوٹ کھسوٹ میں ہندو اور سکھ مصروف تھے کہ ان کی نظر ایک نوجوان عورت پر پڑی جو پوٹلی میں کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ایک سکھ "اَکالی دَل" کے نعرے لگاتا اس عورت کی جانب بڑھا اس کے باپ اور بھائی کے سامنے اس کی بے حرمتی کی اور پوٹلی چھین لی جس میں اس کا دو ماہ کا بچہ تھا اسی دوران کچھ دوسرے ہندو اور سکھ بھی اس طرف آ گئے اس سکھ نے اس بچے کو چاقو کے وار کر کے شہید کر دیا اور پھر اس کے بےجان جسم کو چاقو کی نوک پر چڑھا کر سارے مجمع کو دکھایا اور بآواز بلند کہا "یہ دیکھو ادھر دیکھو یہ ہے نظریہ پاکستان اور پھر سارے سکھ اور ہندو رقص کرنے لگے ۔ ۔ ۔ "
دلبر ! میری یونیورسٹی میں یومِ آزادی پر منعقدہ تقریب میں ایک شعلہ بیان طالبعلم کی یہ تقریر سن کر سب حاضرین و سامعین اشکبار ہو گئے بعض کی تو ہچکی بندھ گئی اور لگے ہندوؤں اور سکھوں کو بد دعائیں دینے۔
مگر جب میں ۔ ۔ ۔ دلبر! ہاں میں جب ڈائس پر آئی اور سوزِ دل کو لفظوں کا جامہ پہناتے ہوئے یوں گویا ہوئی
"حاضرینِ محفل! نظریہ پاکستان آج بھی خطرے میں ہے کل غیروں نے زخم لگائے آج اپنے بے وفائی پر تلے ہیں آج نظریہ پاکستان سیکولر لابی، قادیانی اور لبرلزم کے علمبرداروں کے نرغے میں ہے۔ اٹھو حاضرین آؤ ہم نظریہ پاکستان کے دفاع میں ایک ہو جائیں ہم اسلام کی لازوال قوت اور اپنے اتحاد کی برکت سے ان پاکستان دشمن عناصر کو تحریر، تقریر، دلیل، تعمیر، آئین و ضابطہ، حکمت و تدبیر ۔ ۔ ۔ غرض ہر محاذ پر شکست دے سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ "
دلبر! جانتے ہو میری اس پکار کا جواب مجھے کیا ملا؟ ہاں ۔ ۔ ۔ لگے سب میری ہوٹنگ کرنے ۔ ۔ ۔
اک زخم میرے دل پر لگا ۔ ۔ ۔
⭐تیرے سائے میں پروان چڑھتی چوتھی نسل کی نمائندہ ایک بیٹی کی زندگی کے اہم ترین فیصلے کے موقع پر
"دیکھیں جی ہماری بیٹی نازوں کی پلی ہے اس کی شادی پر ہم خوب دل کے ارمان نکالیں گے۔ مایوں ، مہندی، ڈھولک، فوجی بینڈ، ڈرون کیمرے، مووی، مہنگے ترین ہال میں پر تکلف ڈنر ۔ ۔ ۔ "
"مگر۔۔۔ مگر ہم تو پاکستانی ہیں ہندوانہ رسوم کو کیسے اپنا سکتے ہیں؟ اور پھر اس ملک میں لاکھوں ہیں جو خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کی بچیوں کی شادی ۔ ۔ ۔ !"
میں اپنی بات مکمل نہ کر پائی۔ کئی زہر آلود نگاہیں میری طرف اٹھیں ۔ ۔
اک زخم اور لگا میرے دل پر ۔ ۔ ۔
ایک اور منظر دیکھو
⭐انتخابات کے ہنگامے گرم ہیں ۔ اسی ملک سے اربوں کمانے والے، عوام کو کھیل تماشوں میں الجھائے رکھنے والے ٹی.وی چینل پر پروگرام چل رہا ہے "عوام کا نمائندہ" یہ "عوام کا نمائندہ" دراصل خواص کا منظورِ نظر ہے۔ موصوف عوام میں پانچ پانچ ہزار روپے فی ووٹ کے حساب سے Invest کر آئے ہیں پیسے کا کھیل ہے سارے کا سارا۔ اسی کھیل کا حصہ ہے میڈیا لہذا اسی پروگرام کا میزبان اس عوام کے نمائندہ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا ہے اور اسی کو عوام کا واحد نجات دہندہ قرار دے رہا ہے۔
جب پروگرام ختم ہوا میں نے پروگرام کے پروڈیوسر سے رابطہ کیا اور عرض کیا
جنابِ عالی! قائدِ اعظم نے فرمایا تھا " تم جانتے ہو، جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا یہ نہ کر سکتا تھا۔ میرا ایمان ہے کہ یہ رسول اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ اسے خلافتِ راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے ۔ ۔ ۔ "
تو پروڈیوسر صاحب! آپ کے پروگرام کے مہمان نے جس شہر میں جلسہ کیا ( جسے آپ نے خوب کوریج دی) اسی شہر میں ایک غریب خوددار مردِ درویش نے بھی جلسہ کیا مگر آپ نے قطعاً کوریج نہیں دی محض اس لیے کہ وہ خلافتِ راشدہ کی بات کرتا ہے، اسلامی نظام کی بات کرتا ہے۔
پروڈیوسر صاحب! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس مردِ درویش کا کردار بے داغ ہے۔ اس کی ٹیم بھی باکردار اور تعلیم یافتہ ہے تو پھر کیوں نہیں اسے "عوام کا نمائندہ" پروگرام میں مدعو کرتے ؟؟؟"
" ہا ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ "
پروڈیوسر کے ساتھ تکنیکی معاونین بھی ہنس دئیے
"بھئی عوام بِل دیتے ہیں، آپ کی نشریات کی مقبولیت کا ذریعہ بنتے ہیں تو کیا عوام کا حق نہیں ٹی۔وی پر ؟؟؟"
میں کافی برہم تھی۔
" بی بی! ساری بات " اوپر " سے اجازت ملنے کی ہے سمجھیں ؟؟؟"
میرے دل پر گھاؤ سا لگ گیا ۔
⭐" ۔ ۔ ۔ ہاں بالکل ٹھیک آپ لوگوں کے یہ مطالبات ہیں مگر سر کیا آپ لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نہیں؟"
ہاں دلبر! اب حال سنانے جا رہی ہوں ٹریڈ یونین کے صدر سے ملاقات کا، کہ جس کی ایما پر آج دوسرے روز بھی کاروبار بند پڑے ہیں۔ عوام مشکلات سے دو چار ہیں۔ میں نے بطور اخباری رپورٹر جب صدر یونین سے یہ سوال کیا تو موصوف خاصے برہم دکھائی دئیے ۔ ۔ ۔
" میرا مطلب ہے سر کہ آپ خود کو بھی تو ٹھیک کریں نا چور بازاری، ناجائز منافع خوری، بے ایمانی، زخیرہ اندوزی جیسے جرائم آپ کی کوششوں کے بغیر کیسے ختم ہو سکتے ہیں ؟؟؟"
" جی ۔ ۔ ۔ !!!" صدر یونین نے بس اسی پر اکتفاء کیا۔
"میرا مطلب ہے آپ تاجر برادری کی اخلاقی تربیت کا بندوست کیجئیے، قرآن و سنت سے مدد لیجئیے ۔ ۔ ۔ "
"ج ۔ ۔ جی ۔ ۔ ۔ ؟؟؟"
موصوف یوں حیران ہوئے جیسے میں نے انتہائی عجیب بات کر دی ہو۔ صدر یونین کے رویہ اور سوچ نے قلبِ حساس کو تڑپا کر رکھ دیا۔ یوں لگا جیسے ایک اور زخم لگا ہو ۔
مگر ۔ ۔ ۔ یہ ۔ ۔ ۔ کیا دیکھ رہی ہوں۔ ت ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔ تم اداس ہو گئے ۔ ۔ نہیں نہیں
دلبر! اداسی تمہارے سراپے پہ اچھی نہیں لگتی۔ یہ زخم تو زندگی کی علامت ہیں۔ جب تک یہ تازہ ہیں زندگی میں تحرک ہے، محفل جوان ہے، محفل جوان ہے تو شرر بھی ہے شعلہ بھی ہے، شمس بھی بہت ۔ ۔ ۔ اور قمر بھی بہت ۔ ۔ ۔
اور مانا کہ ہر بے حس ہر ابن الوقت نے تیری راہوں میں تاریکی کے سائے پھیلا دئیے ہیں ۔ مگر گواہ رہنا میری محفل کے شعلہ و شرر، شمس القمر تیری راہوں کو روشنی دیں گے۔ جفا کاروں نے جفا کے کانٹے پھیلا دئیے چاروں طرف ۔ ۔ ۔
مگر اہل وفا بھی ہمت ہارنے والے نہیں ۔ ۔ ۔
تم سے وعدہ رہا دلبر !
خون رستا رہے گا
زخم تازہ رہیں گے
اور تیری راہوں میں
گلاب مہکتے رہیں گے
دنیا والو! دیکھو دلبر کا موڈ تو بہت اچھا ہو گیا
یہ کمال میرے حال دل کے تذکروں کا ہے ؟
یا ہوا کے اس پر کیف جھونکے کا جو میرے سنگ چلا آیا ہے ۔ ۔ ۔
ہاں مگر اب دلبر کے لہرانے کی ادا تو دیکھو ذرا ۔ ۔ ۔
مستی میں جھوم کے ہلکا سا بل کھا کے کچھ اونچا ہو کے پھر اور اونچا ہو کے جب یہ جوبن پہ آتا ہے تو یہ یہ نہیں رہتا، میں میں نہیں رہتی ہوں۔ میدان، دریا، سمندر، پہاڑ سب پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بس ہم دونوں کی پرواز ہوتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ میرے دلبر کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔
ہم سے پہلے بھی ہمارے بعد بھی
اس کے بعد بھی اور اس کے بعد بھی
پرچم تو لہرایا ہے پرچم تو لہرائے گا
اور بھی اونچا جائے گا اور بھی اونچا جائے گا
کس قدر ہیں پر کشش زندگی سے پوچھ لو
کتنے پیار والے ہیں ہم دلبری سے پوچھ لو
جنتوں کے راستے میری ہر گلی سے پوچھ لو
پیار ہیں ہاں پیار ہیں ہم سراپا پیار ہیں
یہ دیس رہے گا زندہ زندہ زندہ و پائندہ
ازل سے پہلے بھی ازل کے بعد بھی
اس کے بعد بھی اور اس کے بعد بھی
پرچم تو لہرایا ہے پرچم تو لہرائے گا
اور بھی اونچا جائے گا اور بھی اونچا جائے گا
تبصرہ لکھیے