ہوم << شہباز شریف پر ناروا تنقید - عبداللہ طارق سہیل

شہباز شریف پر ناروا تنقید - عبداللہ طارق سہیل

”بے“ کا لاحقہ بہت سے الفاظ کے ساتھ لاحق یا ملحق ہو جاتا ہے، جیسے بے حس، بے بس، بے رحم، بے شرم لیکن نہیں، بے شرم والی بات نہیں کرنی، معاملہ شرمناک ہو جاتا ہے۔ دوسری ترکیبوں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں، بے رحمی کا تاثر ابھرتا ہے۔

پہلی دو ترکیبیں ہی کافی ہیں یعنی بے حس اور بے بس ۔ ان دونوں میں سے ہمیں ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ کس حوالے سے؟۔ سیلاب کے حوالے سے جس نے آدھے سے زیادہ ملک ڈبو دیا ہے۔ یہ ماجرا کس قدر اپنی جگہ حیران کن ہے کہ دریاﺅں میں طغیانی ابھی آئی بھی نہیں ہے۔ محض پہاڑی اور برساتی نالوں نے قیامت برپا کر دی ہے۔ آدھے ملک کے شہر ڈوب گئے ہیں۔ دیہات ڈوبے نہیں، بس صفحہ ہستی سے غائب ہو گئے ہیں۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق 15 لاکھ مکانات ختم ہو گئے۔ ان مکانوں کے جو مکین زندہ ہیں، ان کی 90 فیصد سے بھی تعداد ایسی ہے جو دوبارہ مکان بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔

یہ غیر سرکاری تعداد ہے۔ سرکاری تعداد تو بہت کم بتائی جائے گی جیسا کہ حکومت نے کل ہی بتایا کہ مرنے والوں کی گنتی ایک ہزار کے قریب ہے۔ ظاہر ہے یہ گنتی اصلیت سے بہت دور ہے۔ بہرحال، مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات جو یہ ہے کہ اس سارے ماجرے میں ہمیں بے حس اور بے بس میں سے ایک ترکیب کا انتخاب کرنا ہے جسے ریاست پر فٹ کیا جا سکے۔ یعنی ریاست اس تباہی کو روکنے میں بے بس ہے یا بے حس ہے یا دونوں؟

ہمارا ملک دنیا کا غریب ترین ملک ہے لیکن ہماری ریاست دنیا کی امیر ترین، ہماری ریاست ڈی سی ، کمشنر، ڈی ایس پی اور ایس پی حضرات کو سو سو کنال بلکہ اس سے بھی بڑے محلات رہنے کو اور درجنوں سے بھی زیادہ خدمت گار خدمت کو دیتی ہے۔ دنیا کا کوئی ایک بھی ملک اور ایسا نہیں ہے جو یہ سب کر سکتا ہو یا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ ہمارے صوبائی وزیر کا پروٹوکول برطانیہ یا کسی بھی دوسرے ملک کے وزیر اعظم کے پروٹوکول کو شرماتا ہے۔ یہ اور ایسے بے شمار ماجرے یہ ثابت کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں کہ ہماری ریاست دنیا کی مالدار ترین ریاست ہے، امریکہ سے بھی زیادہ مالدار، چین سے تو بہت ہی زیادہ مالدار۔

نہیں یہ مالدار ریاست عوام کے معاملے میں غریب ہو جاتی ہے۔ سیلاب نے تباہی کی شروعات کی تو کسی کو پتہ ہی نہیں چلا، اب پانی روشن دانوں سے، پھر چھتوں کے اوپر سے گزرا تو کہیں کہیں نقل و حرکت نظر آئی۔ لیکن سوال ایک اور بھی ہے۔ یہ رود کوہیاں، یہ پہاڑی اور برساتی نالے تھوڑا بہت سیلاب تو پہلے بھی لاتے ہیں اور انہی راستوں سے لاتے ہیں اور ساری تباہی انہی علاقوں میں پھیلاتے ہیں جہاں اب پھیلائی۔ پھر 75 سال کے عرصہ ریاست میں کیوں کسی نے آج تک ایک بھی اینٹ نہیں رکھی جسے ”انتظام“ کا نام دیا جا سکے۔ تباہی کا 70 فیصد سبب غربت ہے۔

پکے مکان ہوتے تو ریلوں میں کھڑے رہتے، بعد میں پھر سے آباد کاری ہو جاتی لیکن یہ تو کچے مکانات تھے، بہت سے تو کچے مکان بھی نہیں تھے، محض جھگّے جھونپڑے تھے۔ آبادی کی اتنی بڑی تعداد کو کس نے غریب سے غریب تر بنائے رکھا۔ ریاست کی ایک ہی پالیسی رہی، غریب کی جیب سے نکالو، امیر کی جیب میں ڈالو۔ اب امداد کی ریاستی کارروائیاں مگرمچھ سے بھی آگے کے آنسو ہیں۔ عجوبہ ماجرا یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کچھ نہ کچھ کر رہی ہے۔ بہت کچھ نہ سہی، کچھ نہ کچھ ہی سہی۔ اس سے کچھ کم بلوچستان حکومت کر رہی ہے اگرچہ بلوچستان حکومت کی یہ مدد ”گونگلوﺅں“ سے مٹی جھاڑنے کی طرح ہے۔ لیکن دو حکومتیں کہیں نظر نہیں آ رہیں۔ ایک پختونخواہ اور دوسری پنجاب حکومت۔ کیا انہیں اطلاع ہی نہیں ہے کہ دونوں کی آدھی رعایا تو بربادی کے گھیرے میں ہے.

آنکھیں تو کھول صوبے کو سیلاب لے گیا

پتہ تو ہو گا، یقیناً ہو گا بلکہ ہے لیکن توجہ کی ایک نظر بھی نہیں، نگاہ غلط انداز بھی نہیں، کام تو کجا، کلام تک نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی توجہ زیادہ بڑے ، زیادہ ضروری کام کی طرف مبذول ہے۔ حقیقی آزادی کا جہاد، اسلام آباد کو گھیرے میں لینے کے لیے یلغار کے منصوبے ہیں۔ یہ یلغار کبھی نہیں ہو پائے گی لیکن ”کوشش“ کرنا فرض ہے اور دونوں حکومتیں اسی فرض کو بجا لا رہی ہیں۔

حقیقی آزادی کے کماندار اعلیٰ عمران خاں بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لوگ اخبار نویسوں کو فخر سے بتاتے ہیں کہ ہمارے ہر جلسے پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔ یہ کروڑوں کہاں سے آتے ہیں؟ فارن فنڈنگ سے؟۔ جہاں سے بھی آتے ہوں، بہرحال آتے ہیں اور جلسوں پر، سوشل میڈیا پر خرچ ہوتے ہیں۔ پاکستان بلکہ دنیا کی مالدار ترین پارٹی کے لیے سیلاب زدگان کے لیے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ کمال ہے۔ کسی کے منہ سے ان کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ تک پھوٹ کر نہیں رہا، مزید کمال ہے۔ عمران خان دو دو گھنٹے خطاب کرتے ہیں، ہر ایک کو رگید ڈالتے ہیں، ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں، سیلاب زدگان کا ذکر تک نہیں کرتے، ان کے لیے ایک لفظ تو کہاں، ایک حرف تک منہ سے نہیں نکالتے، کمال در کمال ہے بلکہ کمال کا اوج کمال ہے۔ کسی میں ہمت نہیں کہ ان پر اعتراض بھی کر سکے کیونکہ وہ دیوتا ہیں، دیوتاﺅں کے دیوتا ہیں، مہا دیو ہیں۔

حکومت نے 200 یونٹ والوں کو فیول سرچارج معاف کرنے کا جو اعلان کیا تھا، پتہ چلا ہے کہ یہ فیاضی محض ایک ماہ کے لیے ہے۔ حاتم طائی کی قبر پر لات ماری بھی تو ادھوری۔
اور جو حال مڈل کلاس والوں کا ہے، وہ بھی سیلاب زدگان سے کم نہیں۔ جن کو ماہانہ بل پچھلی بار 24 ہزار کا آیا تھا، اس بار 50 سے 60 ہزار تک کا آیا ہے۔ لوگ پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہے ہیں یعنی بک رہے ہیںجنوں میں کیا کیا کچھ۔ لیکن اتنا انتباہ کرنا بالکل مناسب ہے کہ براہ کرم شہباز شریف کو کچھ نہ کہیں۔

اس سارے ماجرے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ وہ تو محض غیر ملکی دورے کرنے کے وزیر اعظم ہیں یا اپنی تصاویر چھپوانے اور ٹی وی پر چلانے کے وزیر اعظم ہیں۔ امور حکومت اور امور معیشت سے ان کا تعلق نہ واسطہ، خواہ مخواہ انہیں تنقید کا نشانہ بنانے کا فائدہ۔ وہ تو محض وزیر اعظم بننے کا شوق پورا کرنے آئے تھے، شوق پورا فرما رہے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment